بلوچستان میں حقوق کی کوئی لڑائی نہیں، اب بھارتی پراکسیز کا خاتمہ کریں گے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
سٹی42: خضدار میں سکول بس پر بہت زیادہ بارودی مواد سے لدی ہوئی گاری کے ساتھ خودکش حملہ نے پاکستان کو بلوچستان میں بھارت کے پراکسی دہشتگردوں "فتنہ الہندوستان" کے حتمی خاتمہ کے لئے فیصلہ کن اقدامات کرنے پر مجبور کر ڈالا ہے۔
کل جمعرات کے روز کور کماندرز کانفرنس میں دیگر سکیورٹی امور کے ساتھ بلوچستان مین انڈین پراکسیز کی ھالیہ کارروائیوں پر خاص طور سے غور کیا گیا اور خاص الخاص فیصلے کئے گئے، اس کے بعد آج جمعہ کے روز آرمی کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے سیکرٹری داخلہ کے ساتھ نیوز کانفرنس میں بھارت کی بلوچستان مین مداخلت اور دہشتگردوں کی سرپرستی کی مکمل داستان ثبوتوں کے ساتھ میڈیا کے سامنے پیش کی۔ جنرل احمد شریف کی نیوز کانفرنس کا لب لباب یہ ہے کہ اب پاکستان بلوچستان میں فتنہ ال ہندوستان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے کارروائی کو آگے بڑھانے جا رہا ہے۔
برطانیہ: بارشیں نہ ہونے سے خشک سالی کاخطرہ پیداہوگیا
جنرل احمد شریف چوہدری نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اس وحشیانہ دہشت گردی کا فیصلہ کن مقابلہ کریں گی، جس میں ہندوستان کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
جمعرات کے روز جی ایچ کیو میں پاکستان آرمی کے کور کمانڈرز کی آپریشن بنیانن مرصوص اور انڈیا پر کامل جنگی فتح کے بعد پہلی کانفرنس کے ایک روز بعد اور خضدار سکول بس پر بم کے خوفناک حملہ کے دو روز بعد اس اہم نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے یہ بات بالکل واضح کر دی کہ بھارت پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
شادباغ پولیس کی بڑی کارروائی، متحرک ڈکیت گینگ 8 گھنٹوں میں گرفتار
خضدار سکول بس حملہ،جس نے معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اسے ہندوستان کے "حقیقی دہشت گرد چہرے" کے واضح مظاہرے کے طور پر بیان کیا گیا، جس نے بین الاقوامی احتساب کے لیے نئے مطالبات کو جنم دیا۔
جنرل احمد شریف نے کہا کہ ہندوستانی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا بھی پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے میں سب سے آگے ہیں۔ جنرل احمد شریف نے متعدد بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے سکرین شاٹس اور بھارتی میڈیا کے ویڈیو کلپس دکھائے جو جعفر ایکسپریس پر حملے سمیت پاکستان میں ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا جشن منا رہے تھے۔
شادباغ:پولیس کی کاروائی ،متحرک ڈکیت گینگ 8 گھنٹوں میں گرفتار
آج جمعہ کے روز ہونے والی اس نیوز کانفرنس میں پہلی مرتبہ داخلی سکیورٹی کے ذمہ دار ادارہ وزارتِ داخلہ کے سیکرٹری آفتاب درانی بھی آرمی کے ترجمان کے ساتھ بیٹھے۔
سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ بھارت خطے میں امن کو سبوتاژ کر رہا ہے اور خضدار میں سکول بس پر ہونے والے مہلک بم دھماکے کے پیچھے فتنہ الہندوستان کا ہاتھ ہے۔ اس خوفناک درجہ کے خودکش بارودی حملہ میں ایک بارود سے بھری گاڑی کو سکول بس سے ٹکرا کر بس میں موجود معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔
عارف والا، تھانہ صدر کی حدود میں وکیل قتل
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ بھارت خطے میں امن کو سبوتاژ کرنے کے لیے عرصہ دراز سے مسلسل سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف بھارتی ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی ملک کے قیام سے ہی جاری ہے۔
"2009 میں، پاکستانی حکومت نے اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم کو ناقابل تردید ثبوتوں کا ایک ڈوزیئر دیا تھا۔ 2010 میں منظر عام پر آنے والی دستاویزات تاریخ کا حصہ ہیں۔"
غزہ میں کئی ہفتوں بعد 90 امدادی ٹرک داخل، اقوام متحدہ کی تصدیق
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ٹھوس الفاظ میں کہا، بلوچستان میں حقوق کی کوئی لڑائی نہیں، بھارتی پراکسیز مسائل پیدا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2016 میں، دنیا نے بلوچستان میں بھارت کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا ایک اور بدصورت چہرہ دیکھا جو بھارتی بحریہ کے ایک حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو تھا۔ "پھر 2019 میں، ثبوتوں سے بھرا ایک ڈوزیئر اقوام متحدہ کو پیش کیا گیا۔ حال ہی میں، بین الاقوامی میڈیا نے اس فتنہ الہندوستان کے متعدد ہتھیار ڈالنے والے دہشت گردوں کا خود اپنی زبان سے اعترفِ جرم دیکھا ہے۔
اب ایک بار پھر 21 مئی کو ہندوستان کے حکم پر فتنہ الہندوستان کے دہشتگردوں نے (بچوں کی بس پر خوفناک بارودی مواد کا حملہ) کیا ہے۔
کیا اس میں کوئی انسانیت، اخلاق، کوئی بلوچ یا پاکستانی شناخت ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال کیا کہ 21 مئی کی صبح خضدار میں اسکول بس پر دہشت گردانہ حملے کے بعد اس بزدلانہ حملے میں ہمارے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں 6 بچے جاں بحق اور 31 دیگر زخمی ہوئے، ہماری تعلیم اور ہمارے معاشرے کے فیبرک پر حملہ ہوا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا: "حکومت پاکستان کی طرف سے، میں متاثرین کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں، ہم ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور ہم اس بے پناہ دکھ کی گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ابتدائی نتائج سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ حملہ بھارت کی طرف سے فتنہ الہندستان کے ذریعے اسپانسر کیے گئے تشدد کے وسیع سلسلےکا تسلسل تھا جو بھارتی خفیہ ایجنسی را کی سرپرستی اور انٹیلی جنس کے تحت کام کر رہا ہے۔
"آپریشن سندھ میں بری طرح سے ناکام ہونے کے بعد، ہندوستان کے دہشت گرد پراکسیوں کو بلوچستان اور دیگر جگہوں پر دہشت گردی کے اپنے گھناؤنے حملوں کو تیز کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ جنرل احمد شریف نے کہا مجھے یہاں بالکل واضح کرنے دیں، پاکستان کے عوام انہیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ نیٹ ورکس اور تیاری کرنے والوں اور ان کے ہینڈلرز کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے"۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں، سخت اہداف کے خلاف اپنی کوششوں میں بے پناہ جانی نقصان اٹھانے کے بعد، فتنہ الہندوستان نے نرم اہداف کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔
مسافروں، ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے مزدوروں پر حملے کروا کر ریاست کے کنٹرول کے کمزور ہونے کی تصویر پینٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔
جنرل احمد شریف نے کہا، "بلوچوں کی روایت اور ثقافت کے برعکس، یہ دہشت گرد اس قدر گر چکے ہیں کہ اب سکول کے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ریاست صوبائی حکومتوں اور ریاستی ادارے کے ساتھ مل کر انہیں شکست دے گی۔"
"ان ہندوستانی حمایت یافتہ دہشت گردوں کی پاکستان اور ہماری قومی زندگی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم اس تشدد کو ختم کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ہمارا عزم پختہ ہے اور ہمارا جواب فیصلہ کن ہو گا، وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔" انہوں نے کہا اور مزید کہا کہ ہندوستان دہشت گردی کی کارروائیوں کی "منصوبہ بندی اور ہدایات" دے رہا ہے، پاکستان میں اپنے پراکسی دہشتگردوں کو فنڈنگ بھی فراہم کر رہا ہے۔
جنرل احمد شریف چوہدری نے زور دے کر کہا کہ خضدار حملے کا بلوچ شناخت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ صرف بھارت کی اشتعال انگیزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 12 اپریل 2024 کو نوشکی میں 12 مزدور شہید ہوئے۔ 28 اپریل کو تمپ میں دو مزدور شہید ہو گئے۔ 14 فروری کو ہرنائی میں بم دھماکے میں 10 افراد جان شہید ہوئے۔
جعفر ایکسپریس حملے میں بے گناہ شہری اور آف ڈیوٹی سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے جب کہ 9 مئی کو لسبیلہ میں تین معصوم حجام شہید ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 21 مئی کو خضدار حملے میں 6 بچے شہید ہوئے اور 51 بچے اب بھی زندگی اور موت کی کش مکش میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گرد بھارتی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اب خواتین اور بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ تاہم بلوچستان کے عوام کی لچک کو توڑا نہیں جا سکا۔
پریس کانفرنس کے دوران بلوچستان میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کی ویڈیوز بھی دکھائی گئیں۔
"آج اور کل پاکستان پر نظر رکھیں'
جنرل احمد شریف چوہدری نے اکتوبر 2024 میں کراچی میں چینی سفیر پر ہونے والے حملے کو یاد دلاتے ہوئے کہا، ’’ انڈین ایجنسی را سے وابستہ ہندوستانی سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے دہشت گردی سے پہلے حملے کے بارے میں پوسٹ کیا تھا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ کے وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جعفر ایکسپریس کا واقعہ پیش آنے سے پہلے وہ کہہ رہے تھے: 'آج اور کل پاکستان پر نظر رکھیں'۔
مہرنگ بلوچ دہشتگردوں کی پراکسی
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ مہرنگ بلوچ دہشت گردوں کی پراکسی ہے، وہ اب بے نقاب ہو چکی ہے۔ ’’وہ جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ کے واقعے میں مارے گئے دہشت گردوں کی لاشیں لینے آئی تھی، مسلمہ دہشتگردوں کی لاشیں ڈھونڈنے والی کون ہے‘‘ جنرل احمد شریف نے سوال کیا۔
اب کوئی چارہ نہیں بچا
جنرل احمد شریف نے کہا کہ اب ہمارے پاس ان دہشت گردوں سے نمٹنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا ہے جب ہم ہندوستان کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں تو ہم ان دہشت گردوں سے بھی نمٹ سکتے ہیں۔ بلوچ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے دلوں میں رہتے ہیں لیکن بھارت کے پراکسی دہشتگردوں سے بہرحال نمٹیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت دوبارہ جارحیت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں۔
سندھ طاس معاہدے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 24 کروڑ لوگوں کا پانی روکنے کا سوچنے والا پاگل ہی ہے۔
بھارت کے بلوچستان میں دہشتگردی کروانے کے ثبوت
ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (ڈی جی آئی ایس پی آر) نے بلوچستان میں دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی پیش کیے۔
انہوں نے ایک ریکارڈنگ پیش کی ، اس ریکارڈنگ میں، ایک حاضر سروس بھارتی فوجی افسر، جس کی شناخت میجر سندیپ کے نام سے ہوئی ہے، کو بلوچستان میں کام کرنے والے ایک ایجنٹ سے بات کرتے ہوئے سنا گیا ہے۔ وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے فنڈنگ حاصل کرنے کے طریقوں پر باتیں کر رہے تھے۔
میجر سندیپ نے دعویٰ کیا کہ اس کا نیٹ ورک بلوچستان سے لاہور تک سرگرم ہے۔ اس نے اپنے آپریٹو کو خبردار کیا کہ وہ فنڈز کو سنبھالتے وقت انتہائی احتیاط برتے، تاکہ سندیپ کے گروہ کے دوسرے ایجنٹ ایکسپوز نہ ہو جائیں۔
میجر سندیپ نے یہ بھی ہدایت کی کہ رقم براہ راست ذاتی کھاتوں میں نہ منگوائی جائے۔ اس کے بجائے، اس نے پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے پتہ لگانے سے بچنے کے لئے دہشتگردی کے معاوضہ کی رقوم کی تھوڑی تھوڑی مقدار میں منتقلی کی حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس طرح بھارتی فوج پاکستان کے اندر دہشت گردی کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس بہت سے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔
تشدد کے باوجود، جنرل احمد شریف چوہدری نے بلوچستان کے رہائشیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ فتنہ الہندوستان ان کے جذبے کو توڑنے میں ناکام رہا ہے۔
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
دہشت گردی اور اس کا خاتمہ
دہشت گرد کس قدر ظالم اور درندے ہوتے ہیں ‘اس کا ثبوت تو وہ متعدد بار اپنے عمل سے دے چکے ہیں‘ اگلے روز دہشت گردوں نے بلوچستان کے ڈسٹرکٹ خضدار میں اسکول بس پرحملہ کر کے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ دین و مذہب کے ہی باغی نہیں ہیں بلکہ ان کا انسانیت سے بھی دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ڈسٹرکٹ خضدار میں دہشت گردوں کے حملے میں 3معصوم بچے اور 2جوان شہیدہوئے ہیں جب کہ 39بچوں سمیت 53افراد زخمی ہو گئے۔زخمیوں میں سے8کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق دہشت گردی کی یہ واردات کوئٹہ کراچی ہائی وے پر زیروپوائنٹ خضدار پر پیش آئی ہے۔ جو بچے شہید ہوئے ہیں وہ اسکول کی طالبات ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردوں نے اے پی ایس پشاور جیسے سانحے کی پلاننگ کر رکھی تھی لیکن ان کا یہ منصوبہ قدرت نے ناکام بنا دیا۔
صدرمملکت آصف زرداری ‘وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف ،فیلڈ مارشل سید عاصم منیر و دیگر نے اس دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے اور بھارتی ایما پر ہونے والی دہشت گردی کو کچلنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ دہشت گردی کی اس واردات کے بعد وزیراعظم شہباز شریف، وزیرِ دفاع، وزیرِ داخلہ، وزیرِ اطلاعات اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور انھوں نے زخمی بچوں اور دیگر متاثرین کی عیادت کی۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور کمانڈر کوئٹہ کور نے واقعے پر بریفنگ دی۔ وزیراعظم اور اعلیٰ قیادت نے کہا کہ بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گرد گروہوں کی اس سفاکانہ کارروائی سے نہ صرف دہشت گردی کی اصل تصویر دنیا کے سامنے بے نقاب ہوئی ہے بلکہ یہ حملہ اخلاقی اقدار اور انسانیت کے خلاف کھلی بغاوت ہے،ایسے گروہ جو نسلی بنیادوں کا جھوٹا لبادہ اوڑھ کر دہشت گردی کر رہے ہیں، نہ صرف بھارت کے ریاستی مقاصد کے آلہ کار ہیں بلکہ بلوچ اور پشتون عوام کی روایتی غیرت، امن پسندی اور اقدار کی بھی توہین کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بچوں کو نشانہ بنانے جیسے غیر انسانی فعل کی شدید مذمت کرے اور بھارت کی جانب سے دہشت گردی کو بطور خارجہ پالیسی استعمال کرنے کے رجحان کا نوٹس لے، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بربریت میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے، وزیراعظم نے اسکول بس پر بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں نے اسکول بس پر حملہ کر کے درندگی کی تمام حدیں پار کردی ہیں، انھیں انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔
انھوں نے واقعہ کے ذمے داران کا فوری کھوج لگانے اور قرار واقعی سزا دلانے کی ہدایت کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد میدان جنگ میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں گھناؤنی اور بزدلانہ کارروائیاںکررہے ہیں، دہشت گردی اور بدامنی پھیلائی جارہی ہے، دہشت گردوں نے خضدار میں اسکول جانے والے معصوم بچوں کی بس کو نشانہ بنایا، آپریشن بنیان مرصوص میں ناکامی اور فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں بری طرح شکست کھانے کے بعد بھارتی دہشت گرد پراکسیز پاکستان میں معصوم بچوں اور شہریوں جیسے آسان اہداف کو دہشت گردی کی کارروائیوں میں نشانہ بنارہی ہیں، بھارتی حکومت کی طرف سے ریاستی پالیسی کے طور پر دہشت گردی کا استعمال نفرت انگیز، اخلاقی پستی اور بنیادی انسانی اصولوں کو نظر انداز کرنے کی واضح مثال ہے۔ ترجمان نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اس بزدلانہ بھارتی اسپانسرڈ حملے کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور ذمے داروں کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور بھارت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے گا۔
بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتیں نئی نہیں ہیں بلکہ یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں بھی دہشت گرد عناصر تواتر کے ساتھ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ دہشت گردوں کا ہدف کیا ہے ‘اس حوالے سے بھی بات کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ حقائق سے پاکستان کے پالیسی ساز بخوبی آگاہ ہیں۔
پاکستان کی شمال مغربی سرحد کی نزاکت اور کمزوری( Vulnerability) سے بھی پاکستان کے پالیسی ساز لا علم نہیں ہیں۔ اسی طرح بھارت کے ساتھ پاکستان کے جس قسم کے تعلقات چلے آ رہے ہیں ‘ اس کے بارے میں بھی سب کو پتہ ہے اور اس کا بھی پتہ ہے کہ بھارتی سپانسرڈ پاکستانی گروپ خیبرپختونخوا اور بلوچستان ہی نہیں بلکہ دیگر صوبوں میں بھی سرگرم عمل ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اتنا کچھ پتہ ہونے کے باوجود اور حقائق آشکار ہو جانے کے باوجود ‘پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے سہولت کار ‘ہینڈلرز‘ فنانسرزاور کیرئیرزکیسے موجود ہیں بلکہ پوری طرح متحرک ہیں۔
پاکستان میں اسکول کے بچوں پر پہلے بھی دہشت گرد حملہ آور ہو چکے ہیں ‘دہشت گردوں کی ذہنی ساخت اور ان کی تربیت اور ان کے زیر استعمال اسلحہ کی کوالٹی بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔سانحہ پشاور میں جوکچھ ہوا وہ قوم اب تک نہیں بھولی ہے۔ صدر مملکت اور وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ حکام کی تشویش اور مذمت اپنی جگہ درست ہے اور ان کے منصب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ مصیبت کی اس گھڑی میں قوم کی ڈھارس بندھائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ نیشنل ایکشن پلان ہو یا ٹیررازم کے خاتمے کے لیے دیگر معاملات ہوں ‘یہ سب کچھ کاغذوں اور کمپیوٹر کی اسکرینوں پر بریفنگز کے دوران دکھانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور پاکستان کے عوام اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان کی لوئر کلاس سے لے کر مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس تک اپنی بساط کے مطابق پورا انکم ٹیکس ادا کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی جتنے ٹیکسز عائد کیے جاتے ہیں پاکستان کی مڈل کلاس ہی یہ ٹیکس ادا کر رہی ہے۔پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاملات کر رہا ہے اور آئی ایم ایف پاکستان کو جو قرضہ دے رہا ہے ‘ وہ بھی پاکستان کے عوام کے ’’ بی ہاف ‘‘پر دے رہا ہے۔سعودی عرب‘قطر اور یو اے ای بھی جو قرضہ دیتے ہیں ‘اس کی ادائیگی بھی پاکستان کے عوام کی ملکیت قومی اثاثوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ہی ہوتی ہے۔ اس سب روداد کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ پاکستان کے عوام اگر ٹیکس دیتے ہیں تو ان کی جان اور مال کا تحفظ کرنا ریاست ‘ ریاستی اداروں اور پارلیمنٹیرینزکی پہلی اور آخری ذمے داری ہے۔
بھارت کے ساتھ جنگ ہو یا افغانستان کے معاملات ہوں ‘ان سے عہدہ برا ہونے کے لیے بھی عوام کا مینڈیٹ حکومت اور ریاست کے پاس ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جس کا کوئی مخالف یا دشمن نہیں ہے۔ امریکا کو بھی مختلف ملکوں سے خطرہ ہے۔ روس کو بھی مختلف ملکوں سے خطرہ ہے۔ سعودی عرب کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دوسرے ملکوں سے خطرہ اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا ملک کے اندر پھیلے ہوئے ناسوروں سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وجوہات کثیر الجہتی ہیں۔ پاکستان میں انتہا پسندی کے کلچر نے سوال کرنے اور ریشنل سوچ کے اظہار کا خاتمہ کر رکھا ہے۔ پاکستان کے سٹیک ہولڈرز کو اپنے ملک کے اندر موجود ایسے طاقتور لوگوں کو مارجنلائزکرنا پڑے گا۔
پاکستان کے نظام کے اندر موجود نقائص پر توجہ مرکوز کرنی ہو گی۔ یہ کام اس ملک کے پارلیمنٹیرینز کی ذمے داری ہے کیونکہ قانون سازی کرنا ان کا کام اور بنیادی ذمے داری ہے۔ پاکستان کے عوام نے انھیں یہی مینڈیٹ دیا ہے۔ پارلیمنٹیرینز پاکستان کے تعلیمی نظام اور نصاب میں تبدیلیاںلانے کے لیے قانون سازی کریں۔ سیاسی قیادت انتہا پسندی کے حوالے سے ڈھلمل سوچ کا شکار ہے۔ پاکستا ن کی سیاسی قیادت کے خیال میں یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن ضیاء الحق کے دور میں تعلیمی نظام اور نصاب میں جو تبدیلیاں کی گئیں ‘وقت آ گیا ہے کہ انھیں تبدیل کیا جائے۔
دہشت گردی کا خاتمہ ایک دن میں ممکن نہیں ہے۔ انتظامی اور عسکری انتظامات کے ساتھ ساتھ آئینی اور قانونی اصلاحات بھی انتہائی ضروری ہو چکی ہیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ کرنا نا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے درست راستے کا انتخاب کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کو فول پروف بنانا انتہائی ضروری ہے۔ ماضی کی 70برس کی پالیسی کو تبدیل کیے بغیر پاکستان میں امن کی راہ تلاش کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ دہشت گردوں کی ہمدردی کو ختم کرنے کے لیے بھی نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں تبدیلی لانا لازمی ہے۔