میانوالی بڑی تباہی سے بچ گیا، سی ٹی ڈی کے ہاتھوں میں 3 خطرناک دہشت گرد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
لاہور:
میانوالی بڑی تباہی سے بچ گیا، رحمانی خیل موڑ کے قریب سی ٹی ڈی اور دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں 3 خطرناک دہشت گرد ہلاک جبکہ 6 دہشت گرد فرار ہو گئے۔
ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے انٹیلی جنس بیسڈ کارروائی کی گئی اس دوران دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی ٹیم پر فائرنگ شروع کردی۔
فائرنگ کے تبادلے میں 3 دہشت گرد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک جبکہ چھ دہشت گرد اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے۔
ترجمان نے کہا کہ ہلاک دہشت گردوں کی شناخت کا عمل جاری ہے، دہشت گرد پولیس چوکیوں پر بڑے حملے کی منصوبہ بندی مکمل کرچکے تھے۔
دہشت گردوں کے قبضے سے رائفلیں، تین دستی بم، گولیاں اور بارودی مواد برآمد ہوا۔ فرار ہونے والے دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے، سی ٹی ڈی ٹیموں نے رمانی خیل موڑ کے قریب ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سی ٹی ڈی
پڑھیں:
پاک افغان سرحدی علاقوں میں سیاسی و دہشت گرد عناصر کا خطرناک گٹھ جوڑ، خیبر اور تیراہ میں انتظامی خلا: آئی ایس پی آر
پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحدی علاقے شدید خطرناک سیاسی اور دہشت گرد عناصر کے گٹھ جوڑ کا شکار ہیں، اور خاص طور پر خیبر اور وادی تیراہ میں انتظامیہ مکمل طور پر غیر فعال ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق 25 نومبر کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے سینیئر صحافیوں سے ملکی سلامتی کے امور پر تفصیلی گفتگو کی۔ اس دوران جنرل احمد شریف نے بتایا کہ سرحدی علاقوں میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں دہشت گرد گٹھ جوڑ کا حصہ ہیں اور اکثر خودکش حملوں میں استعمال ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بارڈر مینجمنٹ پر گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاک افغان سرحد مشکل اور دشوار گزار راستوں پر محیط ہے۔ خیبر پختونخوا میں سرحد 1,229 کلومیٹر طویل ہے، جس میں صرف 20 کراسنگ پوائنٹس موجود ہیں، اور بعض جگہوں پر پوسٹوں کا فاصلہ 20 سے 25 کلومیٹر تک ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ بارڈر فینس اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتی جب تک اسے مسلسل نگرانی اور فائر کور کے ساتھ تقویت نہ دی جائے۔ اگر 2 سے 5 کلومیٹر کے بعد قلعے اور ڈرون سرویلنس لگائی جائے تو اس کے لیے بھاری وسائل درکار ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں بارڈر کے دونوں طرف منقسم گاؤں ہیں، جس سے آمد و رفت پر کنٹرول ایک بڑا چیلنج بنتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دنیا بھر میں بارڈر مینجمنٹ دوطرفہ تعاون سے کی جاتی ہے، لیکن افغانستان سے دہشت گردوں کی دراندازی میں افغان طالبان سہولت کاری فراہم کرتے ہیں۔ سرحد سے متصل علاقوں میں انتظامی ڈھانچے کی غیر موجودگی اور گورننس کے مسائل اس خطرے کو مزید بڑھا رہے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر سرحد پار سے دہشت گرد تشکیلیں، اسمگلنگ یا غیر قانونی تجارت ہو تو اسے روکنا داخلی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اس سیاسی و دہشت گرد گٹھ جوڑ کا حصہ ہیں جو خودکش حملوں میں استعمال ہوتی ہیں، اور ان کے کنٹرول کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔