دہشتگردی اور نکسل واد تشدد کو اب برداشت نہیں کیا جائے گا، نریندر مودی
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ شمال مشرقی خطے کیلئے انکے منصوبوں میں اس خطے کے نوجوانوں کے لئے ترقی کے مواقع پیدا کرنا اولین ترجیح ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے امن اور بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کو ملک کی ترقی کے لئے ضروری شرائط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے گزشتہ 11 برسوں میں شمال مشرقی خطہ میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور امن کے لئے جو کام کئے ہیں، اس کی بدولت شمال مشرقی خطے کی ریاستیں آج سرمایہ کاروں کا استقبال کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔ نریندر مودی نے یہاں دو روزہ نارتھ ایسٹ انویسٹرس سمٹ کا افتتاح کرتے ہوئے امن و استحکام کی اہمیت پر زور دیا۔ مودی نے کہا کہ چاہے وہ دہشت گردی ہو یا بدامنی پھیلانے والے نکسلواد، ہماری حکومت (ان کے خلاف) زیرو ٹالرینس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے گزشتہ چند سالوں کے دوران شمال مشرق میں مختلف تنظیموں کے ساتھ متعدد امن معاہدوں پر دستخط کئے ہیں اور 10 ہزار سے زیادہ نوجوان ہتھیار چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہو چکے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ شمال مشرقی خطے کے لئے ان کے منصوبوں میں اس خطے کے نوجوانوں کے لئے ترقی کے مواقع پیدا کرنا اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ 11 برسوں میں شمال مشرق میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لئے جو کچھ کیا ہے وہ صرف ڈیٹا نہیں ہے بلکہ یہ خطے کی ترقی کے لئے بڑی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انفراسٹرکچر ہر سرمایہ کاری کے لئے پہلی شرط ہے۔ شمال مشرقی خطہ طویل عرصے سے نظرانداز تھا، لیکن اب وہاں بڑی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ ایک دہائی میں 11 ہزار کلومیٹر نئی شاہراہیں بنی ہیں، سینکڑوں کلومیٹر نئی ریلوے لائنیں بچھائی گئی ہیں اور ہوائی اڈوں کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔ خطے میں ابھرتے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے سرمایہ کاروں کو جلد پہنچنے کا مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں، شمال مشرقی ہندوستان جنوب مشرقی ایشیاء اور بحر الکاہل کے خطے میں تجارت کا بڑا مرکز بن جائے گا۔
نریندر مودی نے کہا کہ بھارت شمال مشرقی خطہ میں ترقی اور تجارتی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے واسطے ہند - میانمار - تھائی لینڈ سہ فریقی ہائی وے اور کولکاتہ اور کلادان (میانمار) پورٹ کنیکٹیوٹی پروجیکٹ کی ترقی پر کام کر رہا ہے۔ نریندر مودی نے کہا کہ حکومت کے مختلف محکموں اور شمال مشرقی خطے کی ریاستوں کی مشترکہ کوششوں سے شمال مشرق میں سرمایہ کاری کے لئے بہترین ماحول پیدا ہوا ہے۔ شمال مشرقی خطے کا تنوع اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس کانفرنس کا اہتمام حکومت کی طرف سے شمال مشرقی خطہ کی ترقی کی وزارت نے کیا تھا۔ وزارت کے انچارج وزیر جیوتیرادتیہ سندھیا نے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ وزیر اعظم کے وژن اور رہنمائی کی وجہ سے آج مواقع سے بھرپور نیا شمال مشرقی خطہ ابھرا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ شمال مشرقی خطے شمال مشرقی خطہ ترقی کے کی ترقی کے لئے خطے کی
پڑھیں:
بلوچستان اور کے پی میں حکومتی رٹ نہیں، دہشتگردی کا خاتمہ تو دور کی بات، مولانا فضل الرحمٰن
اسلام آباد:جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ بہت دور کا لفظ ہے، افسوس حکومت نام کی رٹ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بالکل بھی نہیں۔
ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام مجلس قائدین اجلاس اور ’’قومی مشاورت‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دن کے وقت بھی دہشتگرد دندناتے پھرتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہم پر مت ڈالے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بدامنی ریاستی اداروں کی نااہلی ہے یا شعوری طور پر کی جا رہی ہے، اس حوالے سے ہمیں جرأت مندانہ موقف لینے کی ضرورت ہے، مسلح جدوجہد جائز نہیں۔ افغانستان پر جب امریکا نے حملہ کیا اس وقت ایک انتشاری کیفیت تھی، اس وقت ملک میں متحدہ مجلس عمل فعال تھی، اتحاد امہ کے لیے ہم اس وقت جیلوں میں بھی گئے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان میں دینی مقاصد کے لیے بھی اسلحے کو اٹھانا غیر شرعی قرار دیا، پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ہم حرام قرار دے چکے اور اس وقت سے آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ دہشت گردی کے خلاف سوات سے وزیرستان تک آپریشن ہوئے مگر جو مہاجر ہوئے وہ آج بھی دربدر ہیں، یہ لوگ جو افغانستان گئے تھے وہ کیسے گئے اور واپس کیوں آئے؟
26ویں ترمیم
مولانا فضل الرحمٰن نے واضح کیا کہ ہم نے 26 ویں ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبرداری پر مجبور کیا، اس کے بعد یہ 22 نکات پر منحصر ہوا جس میں ہم نے پھر مزید اقدامات کیے۔
انہوں نے بتایا کہ سود کے خاتمے کے حوالے سے 31 دسمبر 2027ء کی تاریخ آخری ہے اور اب باقاعدہ دستور میں درج ہے کہ یکم جنوری 2028ء تک سود کا مکمل خاتمہ ہوگا، ہم سب کو اس پر نظر رکھنی چاہیے کہ حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم کورٹ میں گئے تو حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا کہ وہ اپنے ہی آئین کے خلاف اٹارنی جنرل کھڑا کرے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی سپریم کورٹ کا اپیلٹ کورٹ میں جائے تو وہ معطل ہو جاتا ہے، اب صورتحال یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے بعد اب یکم جنوری 2028ء کو اس پر عمل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس کے خلاف کوئی اپیل ہوئی تو ایک سال کے اندر یہ مہلت ختم ہوگی اور فیصلہ نافذ العمل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت کا کوئی چیف جسٹس نہیں بن سکتا تھا لیکن اب شرعی عدالت کا جج شرعی عدالت کا چیف جسٹس بن سکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات بحث کے لیے پیش کی جائیں گے، پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی صرف سفارشات پیش ہوتی تھیں اب اس پر بحث ہوگی۔
غیرت کے نام پر قتل
انہوں نے کہا کہ یہ کون ہے جو جائز نکاح کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرے اور بے راہ روی کو راستہ دے، یہ کیسا اسلامی جمہوریہ ہے کہ زنا بالرضا کی سہولت اور جائز نکاح کے لیے دشواری؟
جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل انتہائی قابل مذمت اور غیر شرعی ہے، قانون سازی معاشرے کی اقدار کے مطابق ہونی چاہیے۔ اگر معاشرتی اقدار کا خیال نہ رکھا جائے تو قانون سازی پر دونوں طرف سے طعن و تشنیع ہوتی ہے۔
مسئلہ کشمیر و فاٹا انضمام
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ریاستی موقف واضح اور دو ٹوک ہوتا ہے، کس طرح مشرف نے کہا تھا کہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا اور بتدریج جس طرح پاکستان کشمیر سے پیچھے ہٹا یہ سب ہمارے سامنے ہوا۔ مودی نے جب خصوصی حیثیت ختم کی اس وقت ہم مذمتی قرارد میں خصوصی آرٹیکل 370 کا تذکرہ تک نہ کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے فاٹا کا انضمام کر دیا اور اس وقت بھی کہا تھا یہ غلط کیا جا رہا ہے، خطے میں امریکی ایجنڈے کے نفاذ کے لیے جغرافیائی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی گئیں۔ اب صوبائی حکومت خود کہتی ہے کہ انضمام کا فیصلہ درست نہیں تھا کمیشن بناتے ہیں، اب اگر آپ واپس ہٹیں گے یا صوبہ بنائیں دو تہائی اکثریت صوبائی و وفاق میں چاہیے ہوگی۔
اسرائیلی جارحیت
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ فلسطین پر اسرائیل ناجائز طور پر قابض ہے اور دو ریاستی حل صرف ایک دھوکا ہے، اسرائیل غاصب ہے۔ خالد مشعل نے گزشتہ روز گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 70 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے پہلے صدر نے کہا تھا کہ نوزائیدہ مسلم ریاست کا خاتمہ ہماری خارجہ پالیسی ہوگی، پاکستان نے 1940ء میں فلسطینیوں کے حق کے لیے آواز بلند کی اور سب سے پہلے ہم نے اسے ناجائز ریاست قرار دیا۔ حرمین بھی ہمارا ہے اور قبلہ اول بھی ہمارا ہے، مگر آج قبضہ یہود کا ہے، آج جو کچھ فلسطینیوں پر گزر رہی ہے یہ حضور اکرم کی حدیث ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ایران نے اس کا جواب دیا ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہم اس کی بھی کھل کر مذمت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاک انڈیا جنگ میں ایران نے جس طرح پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا وہ بھی لائق تحسین ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم یہ بھی واضح کر رہے ہیں کہ حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے بھی اتحاد امت کے ساتھ میدان میں ہوں گے۔