لاہور: سرکاری گاڑیوں نے ٹریفک قوانین کی کتنی بار خلاف ورزی کی؟ اعداد و شمار سامنے آ گئے
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
—فائل فوٹو
لاہور میں سرکاری گاڑیوں نے ٹریفک قوانین کی کتنی بار خلاف ورزی کی؟ اعداد و شمار سامنے آ گئے۔
ڈیٹا کے مطابق ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی سرکاری گاڑیوں میں پولیس سب سے آگے رہی۔
اعداد و شمار کے مطابق لاہور پولیس کے 496، محکمۂ ایس اینڈ جی ڈی کے 358 ای چالان ریکارڈ ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے 22 ہزار سےزائد ای چالان ، 53 لاکھ جرمانہڈیٹا کے مطابق ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے محکموں میں لیسکو اور لائیو اسٹاک بھی شامل ہیں، جنہوں نے بالترتیب 328 اور184 ای چالان ریکارڈ کروائے۔
لاہور سٹی ٹریفک پولیس افسر اطہر وحید نے کہا ہے کہ 73 سرکاری محکموں کو ای چالانوں کی ریکوری کے لیے لیٹر لکھ دیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ ای چالان کا جرمانہ وصول کرنے کے لیے 12 ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں۔
اطہر وحید نے یہ بھی کہا ہے کہ پچھلے 10 دن کے دوران ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر 45 سو گرفتاریاں کیں، ون وے کی خلاف ورزی پر 23 سو گرفتاریاں کی گئیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ٹریفک قوانین کی کی خلاف ورزی
پڑھیں:
برطانیہ میں سیاسی پناہ کے خواہاں افراد میں پاکستانی پہلے نمبر پر آگئے
برطانیہ میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی فہرست میں پاکستانی شہریوں نے پہلا مقام حاصل کرلیا ہے۔
برطانوی وزارت داخلہ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ برس 11 ہزار 48 پاکستانی شہریوں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں، جو مجموعی طور پر 1 لاکھ 9 ہزار 343 درخواستوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔
یہ اعداد و شمار ایک دلچسپ موڑ کی نشاندہی کرتے ہیں، کیونکہ 2023-24 کے دوران پاکستانی شہری سیاسی پناہ کے خواہاں افراد میں تیسرے نمبر پر تھے۔ اس سال ان کا پہلے نمبر پر آنا ایک قابل ذکر تبدیلی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چھوٹی کشتیوں کے ذریعے خطرناک سمندری سفر کرکے برطانیہ پہنچنے والے مہاجرین میں سے 33 فیصد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ یہ اعداد و شمار مہاجرین کے لیے ان خطرناک سفروں کی سنگینی کو اجاگر کرتے ہیں۔
افغان شہریوں نے 8 ہزار 69 درخواستوں کے ساتھ دوسرا نمبر حاصل کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی مشکلات مہاجرت کے اہم محرکات ہیں۔
ماہرین کے مطابق، پاکستانی شہریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کئی عوامل کا نتیجہ ہوسکتی ہے، جن میں ملک میں معاشی عدم استحکام، سیاسی کشیدگی اور روزگار کے محدود مواقع شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے سماجی و اقتصادی حالات پر ایک اہم تبصرہ پیش کرتے ہیں۔
برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ہر درخواست کا انفرادی طور پر جائزہ لیں گے اور انصاف پسندی سے فیصلہ کریں گے۔ تاہم، یہ اعداد و شمار یورپی ممالک کے لیے مہاجرت کے بحران سے نمٹنے کے لیے جامع پالیسیاں بنانے کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔