جو جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں آزاد کیسے شامل ہوسکتے ہیں؟ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں: ججز آئینی بینچ
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے خلاف نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔ اسکرین گریپ
آئینی بینچ کے ججز نے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت میں ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ میں آنے والی جماعت میں آزاد امیدوار شامل ہوسکتے ہیں اور جو سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں کیسے آزاد لوگ شامل ہو سکتے ہیں لہٰذا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے خلاف نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔
کارروائی سپریم کورٹ یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔ متاثرہ خواتین امیدواروں کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا سنی اتحاد کونسل کے مطابق آزاد امیدوار ان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے۔
سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں پر کیسے دعویٰ کیا، تحریک انصاف تو فریق بھی نہیں تھی پھر اسے نشستیں کیسے دی جا سکتی ہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں، آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل کی بجائے اگر پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ نہ ہوتا۔
آئینی بینچ کے لیے نامزد ہونے والے تمام ججز نظرثانی کیس کے لیے تشکیل بینچ میں شامل ہیں۔
مخدوم علی خان نے جسٹس جمال مندوخیل کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی تشریح کر سکتی ہے مگر آئین دوبارہ نہیں لکھا جاسکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کیا میں مخصوص نشستوں کے کیس میں اپنا فیصلہ بدل سکتا ہوں؟ مخدوم علی خان بولے بالکل آپ اپنی رائے بدل سکتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا پارلیمنٹ میں آنے والی جماعت میں آزاد امیدوار شامل ہو سکتے ہیں مگر غیر پارلیمانی سیاسی جماعت میں کیسے شامل ہوسکتے ہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے سنی اتحاد کونسل پارلیمانی پارٹی بنا سکتی تھی لیکن مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں۔
جسٹس شاہد بلال نے پوچھا کیا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق تھی، جو جماعت فریق نہ ہو، کیا اسے نشستیں دی جاسکتی ہیں؟
اکثریتی فیصلہ دینے والے ججوں نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ 12 جولائی کے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ جو سیاسی جماعت فریق نہ ہو، اسے نشستیں نہیں مل سکتیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا میرے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تھی، مخصوص نشستیں دینا یا نہ دینا اور مسئلہ ہے الیکشن کمیشن کا کردار بھی دیکھنا تھا، پارٹی سرٹیفکیٹ اور پارٹی وابستگی کے خانے میں 39 لوگوں نے پی ٹی آئی لکھا، جسٹس امین الدین خان نے کہا یہ ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا عدالت نے ریکارڈ الیکشن کمیشن سے مانگا تھا، جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا تحریک انصاف تو فریق بھی نہیں تھی پھر اسے نشستیں کیسے دی جا سکتی ہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا انتخابی نشان نہ ہونے سے کسی کو انتخابات سے نہیں روکا جا سکتا، آزاد امیدوار اگر سنی اتحاد کونسل کی بجائے پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ نہ ہوتا، سنی اتحاد کونسل اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتی تو پھر بھی مسئلہ نہ ہوتا۔
مخدوم علی خان نے جسٹس جمال مندوخیل کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا سپریم کورٹ آئین کی تشریح کرسکتی ہے، آئین دوبارہ نہیں لکھا جاسکتا ۔جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کیا میں مخصوص نشستوں کے کیس میں اپنا فیصلہ بدل سکتا ہوں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا بالکل آپ اپنی رائے بدل سکتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی بولیں پٹھان کی ایک زبان ہوتی ہے۔ مخدوم علی خان بولے زبان ایک ہوتی ہے مگر رائے تو بدل سکتے ہیں۔
کیس میں وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے، اب سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی منگل کو دلائل کا آغاز کریں گے۔
یاد رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ جاری کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں (پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ) اراکین کی بنیاد پر تخلیق پانے والی خواتین اور اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کی بجائے دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو الاٹ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن / پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر کی گئی اپیلوں پر محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔
8 ججوں کے اکثریتی فیصلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے آزاد قرار دینے والے 80 اراکین قومی اسمبلی میں سے 39 اراکین قومی اسمبلی کو پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار جبکہ باقی رہ جانے والے 41 اراکین قومی اسمبلی کو آزاد اراکین قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عدالت کے اس فیصلے کے اجراء کے 15روز کے اندر اندر آزاد اراکین بھی الیکشن کمیشن میں اپنی سیاسی جماعت سے تعلق کا حلف نامہ جمع کروائیں اور متعلقہ جماعت کی تصدیق کی صورت میں مذکورہ اراکین قومی اسمبلی بھی اسی جماعت کے امیدوار تصور ہوں گے۔
عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کیلئے اہل قرار دیتے ہوئے اسے الیکشن کمیشن میں خواتین اور اقلیتوں امیدواروں کی ترجیحی لسٹ جمع کرنے کی ہدایت کی اور قرار دیا تھا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کی لسٹ کے مطابق ایوان میں موجود نمائندگی کے تناسب سے پی ٹی آئی کو اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستیں الاٹ کرے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے کہا مخصوص نشستوں کے کیس اراکین قومی اسمبلی مخدوم علی خان نے مخصوص نشستوں کی سنی اتحاد کونسل جسٹس مسرت ہلالی مخصوص نشستیں الیکشن کمیشن پارلیمنٹ میں آزاد امیدوار سیاسی جماعت سپریم کورٹ اسے نشستیں کے کیس میں دیتے ہوئے پی ٹی ا ئی پی ٹی آئی ہوئے کہا سکتے ہیں کے فیصلے نے پوچھا شامل ہو
پڑھیں:
اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں عوامی مسائل کا علم ہونا چاہیے، جج سپریم کورٹ
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں پتا ہونا چاہیے کہ عوامی مسائل کیا ہیں۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
ٹیکس پیئر کے وکیل خالد جاوید نے دلائل کا آغاز کیا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ میں بل لانے کا طریقہ کار کیا ہے۔
پاکستان اور بھارت آج ایک اور کھیل کے میدان میں آمنے سامنے آئیں گے
وکیل ٹیکس پیئر نے مؤقف اپنایا کہ پالیسی میکنگ اور ٹیکس کلیکٹر دو مختلف چیزیں ہیں، ٹیکس کلیکٹر ایف بی آر میں سے ہوتے ہیں جو ٹیکس اکھٹا کرتے ہیں، پالیسی میکنگ پارلیمنٹ کا کام ہے، اگر میں پالیسی میکر ہوں تو میں ماہرین سے پوچھوں گا کہ کیا عوام کو اس کا فائدہ ہے یا نقصان۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں انہیں پتا ہونا چاہیے عوامی مسائل کیا ہیں، کیا آج تک کسی پارلیمنٹرین نے عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے تجاویز دی ہیں، جس کمیٹی کی آپ بات کر رہے ہیں اس میں بحث بھی ہوتی ہے یا جو بل آئے اسے پاس کر دیا جاتا ہے۔
سی پی پی اے نے نیپرا میں بجلی نرخ میں اضافے کی درخواست دے دی
خالد جاوید نے مؤقف اپنایا کہ قومی اسمبلی میں آج تک کسی ٹیکس ایکسپرٹ کو بلا کر ٹیکس کے بعد نفع نقصان پر بحث نہیں ہوئی، وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ سپر ٹیکس کے حامی ہیں، قومی اسمبلی میں ایسی بحث نہیں ہو سکتی جو ایک کمیٹی میں ہوتی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ یہی سوال ہم نے ایف بی آر کے وکلاء سے پوچھا تھا، ایف بی آر کے وکلاء نے جواب دیا تھا مختلف چیمبرز آف کامرس سے ماہرین کو بلایا جاتا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے بتایا کہ مختلف کمیٹیاں ہیں، لیکن کمیٹیوں کے کیا نتائج ہوتے ہیں یہ آج تک نہیں بتایا۔
ڈی پی ایل کی تاریخ میں توسیع خوش آئند، لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے، کمرشل امپورٹرز، حکومت قوانین پر نظرثانی کرے،سلیم ولی محمد
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اصول تو یہ ہے کہ ٹیکس نافذ کرنے سے پہلے ماہرین کی رائے ہونی چاہیے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ بات بھی سامنے ہونی چاہیے کہ اگر 10 فیصد ٹیکس لگ رہا ہے تو کتنے لوگ متاثر ہوں گے۔
سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
مزید :