خلا اور سیاروں کی بو کیسی ہوتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
کائنات کے بارے میں مزید جاننے کے لیے سائنسدان زمین کے قریبی پڑوسیوں سے لے کر سیکڑوں نوری سال دوری پر واقع سیاروں تک خلا کی بو کا تجزیہ کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا زمین پر زندگی خلا سے آئی، سائنسدان کیا کہتے ہیں؟
بی بی سی کے مطابق پرفیومر اور خوشبو کی معلم اور فلکیات کی محقق مرینا بارسینیلا کا کہنا ہے کہ مشتری ایک بدبودار بم کی طرح ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ نظام شمسی کا سب سے بڑے سیارے مشتری میں بادل کی کئی تہیں ہیں اور ہر تہہ کی کیمیائی ساخت مختلف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گیس آپ کو اپنے زہریلے مارزیپن بادلوں کی میٹھی خوشبو سے مائل کر سکتی ہے اور جیسے جیسے آپ گہرائی میں جاتے ہیں وہ بو بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔
مرینا نے کہا کہ شاید آپ کی خواہش ہوگی کہ آپ اس مقام پر پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے جہاں آپ دباؤ سے کچلے جانے جیسا محسوس کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بادل کی سب سے اوپر کی تہہ امونیا کی برف سے بنی ہے جس کی بو بلی کے پیشاب جیسی ہوتی ہے۔ انہوں مزید کہا کہ پھر جیسے ہی آپ نیچے آتے ہیں آپ کو امونیم سلفائیڈ کا سامنا ہوتا ہے اور اس وقت جب آپ کے پاس امونیا اور سلفر ایک ساتھ ہوتے ہیں جو جہنم میں بنایا گیا ایک مجموعہ لتگا ہے۔ گندھک کے مرکبات کی بو سڑتے ہوئے انڈوں کی بدبو کی طرح ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں: ناسا کا خلا میں سورج سے کئی گنا زیادہ توانائی پیدا کرنے والی ریڈیائی لہروں کو دریافت کرنے کا دعویٰ
مرینا اپنے ابتدائی سالوں میں کائنات کا مطالعہ کرتے ہوئے اکثر یہ سوچا کرتی تھیں خلا کی خوشبو کیسی ہوگی تب انہیں احساس ہوا کہ ان کے پاس وہ مالیکیولز لیب میں ہیں جن سے وہ اندازہ کر سکتی ہیں کہ وہاں بو کن اقسام کی ہوسکتی ہیں۔
لہٰذا اپنے تعلیمی کام کے ساتھ ساتھ مریخ پر زندگی کی نشانیوں کی تلاش میں بیرونی خلا کی بدبوؤں کو بنانے میں مشغول ہوگئیں۔
وہ کہتی ہیں کہ سڑے ہوئے انڈوں کی بدبو سے لے کر بادام کی میٹھی خوشبو تک خلا ایک حیرت انگیز بوئیں رکھنے والی جگہ ہے۔
مرینا نے بتایا کہ سیارے، چاند اور گیس کے بادلوں میں سے ہر ایک کی اپنی منفرد خوشبو ہوگی اگر ہم انہیں اپنی ناک سے سونگھ سکیں۔
ہماری اپنی سونگھنے کی حس ہمارے ارد گرد کے ماحول میں کیمیکلز کا پتا لگانے کی اس صلاحیت کا محض ایک زیادہ نفیس ورژن ہے۔ ہماری ناک میں گھنے عصبی جھرمٹ ہوتے ہیں جو لاکھوں مخصوص نیورونز پر مشتمل ہوتے ہیں جو کیمور سیپٹرز کے نام سے جانے والے مالیکیولز سے جڑے ہوتے ہیں۔ جب وہ کسی کیمیکل کے رابطے میں آتے ہیں تو وہ ہمارے دماغ میں ایک سگنل بھیجتے ہیں جسے پھر ایک الگ بو سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: کائناتی طوفان کی تصویر حیرت انگیز صف بندی کا نتیجہ ہے، ناسا
سونگھنے کی اس حس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس اپنے ارد گرد کیمیکلز کا پتا لگانے کی صلاحیت ہے۔ انسانوں کے لیے بو نہ صرف کھانے کی اشیا کی شناخت کرنے میں مدد کرتی ہے یا ہمیں ماحولیاتی خطرات سے خبردار کرتی ہے، بلکہ یہ یادوں کو بھی متحرک کرتی ہے اور سماجی رابطے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لاکھوں سالوں کے ارتقا کے بعد سونگھنے کی صلاحیت ہماری جذباتی تندرستی سے اندرونی طور پر جڑی ہوئی ہے۔
بدبو کے لحاظ سے بھی ایک خلائی اسٹیشن بھی ایک عجیب جگہ لگ سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خلا سیاروں کو بو سیارے.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خلا سیاروں کو بو سیارے ہوتے ہیں کرتی ہے
پڑھیں:
عوام دشمن فیصلے
نئے بجٹ کے نفاذ میں تین دن باقی تھے کہ وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں صنعتی و کمرشل سوئی گیس کی قیمت دس فی صد مزید مہنگی کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جب کہ گھریلو صارفین کے فکسڈ چارجز میں چار سو سے ایک ہزار کا اضافہ بھی کر دیا گیا اور HM31 سے زیادہ کھپت کے چارجز بھی بڑھا کر تین ہزار روپے ماہانہ کر دیے گئے اور اقتصادی رابطہ کمیٹی کے دولت مند ارکان نے یہ نہیں سوچا کہ 463 ارب کے نئے ٹیکسوں میں اضافے کے بعد پہلے سے شدید مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے عوام پر ان حکومتی فیصلوں کا کیا اثر ہوگا اور ان کی پہلے سے ہی مشکل میں شکار زندگی مہنگائی بڑھنے سے مزید اجیرن ہو جائے گی۔
ملک کے سب سے بڑے کراچی چیمبر نے نئے بجٹ میں سیلز ٹیکس 37اے اے کے خلاف شہر میں احتجاجی بینرز آویزاں کردیے اور اس حکومتی اقدامات پر احتجاج شروع کرنے کا اعلان کردیا اورکہا کہ یہ صرف آغاز ہے اگر ہمارے مطالبات کو نظرانداز کیا گیا تو کراچی سمیت ملک بھر میں ہڑتال کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں بچے گا۔ ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کو گرفتاری کا اختیار دینے سے کاروباری طبقے کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں ڈسٹری بیوٹرز، ہول سیلرز اور ریٹیلرز کی اکثریت رجسٹر نہیں ہے اور عدالت کے بجائے ایف بی آر افسروں کو دیے جانے والے اختیارات نقصان دہ ثابت ہوں گے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی (ن) لیگی حکومت کے دوسرے بجٹ میں بھی عوام کو حسب سابق ریلیف دینے کے بجائے 463 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا تحفہ دینے کے بعد بھی حکومت کا دل نہیں بھرا تھا کہ کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے ذریعے گیس مہنگی کرائی گئی جس سے مزید مہنگائی بڑھے گی جس کا اثر صنعتکاروں اور کمرشل اداروں پر نہیں بلکہ عوام پر ہی پڑے گا۔
نائب وزیر اعظم اور سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار نیاب نئے بجٹ کے بعد کہا ہے کہ عوام پر بوجھ ڈالے بغیر مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھیں گے۔لگتا ہے کہ حکومت کی تو یہ پالیسی ہے کہ پہلے سے ہی جو لوگ ٹیکس دے رہے ہیں ان پر ہی مزید ٹیکس بڑھا کر آمدنی بڑھائی جائے اور ان سرکاری عہدیداروں کو نوازا جائے جو نہ مزید نوازے جانے کے حقدار ہیں نہ غریب ہیں اور جن لوگوں کو نوازے جانے کی اشد ضرورت ہے ان پر تو حکومت کی توجہ ہی نہیں ہے۔
حکومت نئے نئے ٹیکسوں سیاپنی آمدنی بڑھا رہی ہے تو حکومت اس بڑھی آمدنی اور غیر ملکی قرضوں کی رقم سے ارکان اسمبلی، وزیروں، مشیروں، ججز و دیگر کی تنخواہ پہلے ہی بڑھا چکی ہے اور عوام محروم رکھے گئے۔نئے بجٹ کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت نے 285 اشیا پر دوبارہ ڈیوٹیز عائد کرنے کی منظوری دے دی ہے یہ حکومت نے یوٹرن لیا ہے اور ریگولیٹری ڈیوٹیز میں کمی کی رفتار بھی سست کر دی ہے جب کہ پہلے تقریباً 285 درآمدی مصنوعات پر ریگولیٹری ڈیوٹیز کے مکمل خاتمے یا کمی کا فیصلہ کیا گیا تھا جو بجٹ منظوری کے بعد فوری طور واپس لے لیا گیا ہے اور حکمران عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کی بات کر رہے ہیں۔
یہ حکومت کی عوام دشمن پالیسی ہے کہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے واپس لے لو جب کہ حکومت نے پہلے جن خاص لوگوں کی اور حال ہی میں اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 50 فی صد تک کا جو اضافہ کیا تھا جس کی رپورٹ وزیر اعظم نے اعتراضات پر طلب کی تھی وہ رپورٹ اب کہیں نظر نہیں آئی، صرف وزیر خزانہ کا حمایتی بیان سامنے آیا تھا مگر بعد میں پہلے والوں کی طرح ان عہدیداران پارلیمنٹ کی تنخواہ میں کمی تک کا کوئی حکم جاری نہیں ہوا۔اپنی سخت شرائط پر قرض دینے والے آئی ایم ایف کو ارکان و عہدیداران پارلیمنٹ، وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصی، ججز اور دیگر بڑوں کی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے پر اعتراض نہیں ہے تو حکومت یہ فیصلے کیوں واپس لے۔
حکومت کے مطابق تو آئی ایم ایف عوام کو ریلیف دینے کے حکومتی فیصلوں کی اجازت نہیں دیتا جب کہ حکومت اس کو قرضوں کی واپسی عوام کا خون نچوڑ کر مہنگائی مزید بڑھا کر کرتی ہے مگر صرف وہ حکومتی فیصلے واپس ہوتے ہیں جن سے عوام کو کچھ ریلیف ملنے کی امید ہو۔بڑے اور نوازے ہوئے افراد کی مراعات بڑھانے والا کوئی ادارہ ملک میں ہے نہیں اور آئی ایم ایف بھی حکومت کے عوام کو ریلیف دینے کے فیصلوں پر ہی اعتراض کرتا ہے۔
اس لیے حکومت من مانیوں اور اپنوں کو نوازنے میں بڑی فراخ دل ہے۔عالمی سطح پر پٹرول کے نرخ کم ہوں تو حکومت پٹرولیم مصنوعات پر پہلے سے عائد لیوی بڑھا کر عوام کو سستا پٹرول نہیں دیتی۔ حکومت جب چاہے بجلی وگیس مزید مہنگی کردے یا پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نئے ٹیکس لگا دے کوئی اسے نہیں روکتا۔ کوئی اگر قیمتیں بڑھانے کے حکومت دشمن فیصلے کو عدلیہ میں چیلنج کرے تو عدلیہ بھی حکومت کو نہیں روکتی بلکہ حکومت کا اسے انتظامی فیصلہ قرار دے کر عوامی درخواستیں سنتی ہی نہیں اور عوام کے پاس داد رسی کا کوئی ادارہ ہی نہ ہو تو حکومت من مانے حکومتی فیصلوں میں مکمل آزاد ہو جاتی ہے۔ حکومتی فیصلے ہر قسم کی گرفت سے مکمل آزاد ہیں۔
ارکان پارلیمنٹ و اسمبلیوں کا عوام سے تعلق الیکشن کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ الیکشن سے قبل نگران حکومتیں مہنگائی مزید بڑھا کر عوام کی کمر مزید توڑ دیتی ہیں جس کی وجہ سے عوام بھول جاتے ہیں کہ پانچ سال پہلے والی حکومتیں ظالم تھیں یا نگران حکومتیں، اس لیے وہ پھر ان ہی کو ووٹ دیتے ہیں جنھوں نے اپنے وعدے بھلا کر عوام دشمن فیصلے کیے تھے اور دوبارہ آ کر بھی انھوں نے عوام کو ریلیف نہیں دینا۔