اسرائیل کی غزہ پر بربریت جاری
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی کے کل جغرافیائی رقبے کے 77 فی صد حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ قبضہ براہ راست زمینی دراندازی، شہری علاقوں میں قابض افواج کی تعیناتی، غیر منصفانہ جبری بے داخلی کی پالیسیوں اور بھاری بمباری کے ذریعے فلسطینی شہریوں کو ان کے گھروں، علاقوں، زمینوں اور املاک تک رسائی سے روک کر حاصل کیا گیا ہے۔ دوسری جانب غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ روز اسرائیلی بربریت میں غزہ میں ایک ڈاکٹر کے 9 بچے ، ایک صحافی اور ان کے خاندان کے متعدد افراد سمیت 38 فلسطینی شہید ہوگئے۔
اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ حملے تب تک جاری رہیں گے جب تک کہ اہلِ غزہ کو ان کی زمین سے نکال نہیں دیا جاتا، جب اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان پر برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے مشترکہ طور پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا تو اسرائیلی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ وہ غزہ کے ساتھ واضح شرائط پر جنگ بندی کے لیے تیار ہے، لیکن یہ سب کچھ ایک بیان کی حد تک محدود رہا۔سات اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک 53 ہزار سے زائد اہلِ غزہ شہید کیے جاچکے ہیں جب کہ تقریباً ایک لاکھ اکیس ہزار زخمی ہیں۔ اس وقت غزہ میں قحط کا خطرہ ہے، اگر وہاں غذائی اور طبی امداد نہ پہنچی تو کئی ہزار بچے دم توڑ سکتے ہیں۔
فلسطینی بچے برستی گولیوں میں دو چار روٹیوں کے لیے پہروں قطاروں میں کھڑے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں تو ان کے جذبات کا کیا عالم ہوتا ہوگا۔ کل تک جو لوگ اپنی زمینوں کے مالک و مختار تھے آج انھیں اپنی ہی بستیوں سے بے دخل کردیا گیا ہے اور جو موجود ہیں، انھیں بے دخلی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
غزہ کے فلسطینیوں کی کل تعداد بائیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ صرف چند روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر آئے تھے۔ کھربوں ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے بھی ہوئے ۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ عرب ممالک اپنے معزز مہمان سے اتنی بات تو منوا لیں گے کہ وہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کو رکوائیں، فوری طور پر خوراک و ادویات کے وہاں داخل ہونے پر عائد شدہ پابندیاں اٹھوائیں اور مکمل سیز فائر کو یقینی بنوائیں، مگر ایسا نہیں ہوسکا۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی سیز فائر کا سہرا امریکی صدر نے اپنے سر باندھا تھا، لیکن اس کے بعد کے اعلانات، ارادوں اور اقدامات پر بین الاقوامی قوتیں بداعتمادی کا اظہار بھی کر رہی ہیں۔ غزہ کو برباد کرنے اور انسانی آبادیوں، سرکاری دفاتر، تعلیمی اداروں کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے بعد فلسطینی مسلمانوں کوفلسطین سے باہر آباد کرنے کا جو فارمولا ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا ہے، وہ ناقابل فہم اور ناقابل عمل ہے۔ فلسطین کے عوام سات دہائیوں سے اپنی سرزمین کو صیہونی طاقت سے آزاد کروانے کے لیے جانوں کی قربانی دے رہے ہیں، وہ اپنی دھرتی ماں کو چھوڑ کر کیوں مصر، اردن یا لیبیا کے کسی علاقے میں آباد ہوں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر کسی دوسرے ملک میں آباد کرنے کا عندیہ کئی بار دے چکے ہیں ، اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے کام میں مصروف ہیں۔ فلسطینی کسی صورت بھی غزہ خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اردن اور مصر صدر ٹرمپ کے فارمولے پر عمل کرنے کے لیے تیار نظر آرہے ہیں۔ فلسطینی عوام ایسا کرنے کے بجائے اپنی سرزمین پر موت کو ترجیح دیں گے۔ اس کے علاوہ عالمی طاقتیں خاص طور پر فرانس، جرمنی اور کئی دوسرے یورپی ممالک نے بھی اس فارمولے کو رد کردیا ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادی ممالک اسلحے، سرمایے اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے مختلف جنگوں میں قابض صیہونی ریاست کے مدد گار رہے ہیں، تاکہ فلسطین پر قبضہ جاری رکھا جاسکے اور آج بھی وہ اس قسم کی چالوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل کی وسعت پسندانہ سوچ کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ فلسطینی کیسے اسرائیل کو غزہ پر قبضہ دینے کے لیے دوسرے ممالک میں چلے جائیں، وہ نسل در نسل اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ 1948سے اب تک انھوں نے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کیا، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ امریکی صدر کی تجویز پر غزہ اسرائیل کے حوالے کر دیں، یہ ناممکن ہوگا۔
1947 میں ہی اقوام متحدہ نے اپنی قرارداد کے ذریعے دو ریاستی حل کی بات کی جس سے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار ہو گئی اور فلسطین کے 56فیصد رقبہ کو اسرائیل کا حصہ بنا دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے اس صریح ظالمانہ فیصلے کے خلاف بھی فلسطینی آج تک جدوجہد میں مصروف ہیں۔ فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کے دوران مختلف فارمولے اختیار کیے گئے۔
عالمی طاقتوں نے کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدے کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرنیکی کوشش کی۔ امریکا کی طرف سے معاہدہ ابراہیم متعارف کروایا گیا، لیکن ان تمام معاہدات کا مرکزی خیال اسرائیل کی بالادستی تسلیم کرنا تھا جسے فلسطینیوں نے قبول نہ کیا۔ فلسطینیوں کے گھر ان کی مساجد اور ان کے تعلیمی ادارے اسرائیل نے بمباری کر کے بار بار تباہ کیے۔
ان مظالم کے باوجود عربوں کو اسرائیل سے قریب کرنے کی کوشش شروع کر دی گئی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔ ایک الگ تجارتی روٹ کا تذکرہ بھی کیا جانے لگا ۔ اس پس منظر میں حماس نے ’’ الاقصی طوفان‘‘ برپا کردیا۔اس وقت پوری دنیا کے عوام فلسطینیوں کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ’ نارملائزیشن ‘ کا عمل رک گیا ہے، فلسطینیوں نے ایک بڑا رسک لے کر عالمی منصوبہ سازوں کو اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔گریٹر اسرائیل کا خواب پورا کرنے کے لیے ہی اسرائیلی فوج ظلم و ستم کی نئی داستان رقم کرتی چلی جا رہی ہے، غزہ میں معصوم فلسطینیوں پر بربریت آج بھی جاری ہے بلکہ اب تو اس کا دائرہ کار لبنان، شام اور یمن تک پھیل چکا ہے۔ ایران کو بھی وہ ڈراتا دھمکاتا رہتا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے حوالے سے اس وقت بھی دوحہ، قطر میں بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں، فریقین کے مابین مذاکرات کا سلسلہ گزشتہ ایک سال سے چل رہا ہے، کبھی شروع ہوتا ہے اور کبھی رُک جاتا ہے۔ حماس کا موقف ہے کہ جب بھی وہ معاہدے کے قریب پہنچتے ہیں اسرائیل کوئی نہ کوئی نئی شرط پیش کر دیتا ہے، نئے الزامات عائد کر دیتا ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ اس وقت بھی اسرائیل جو اپنی ہی مستی میں آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے، اس کے پیچھے امریکا اور اس کے اتحادیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
ایک خبر سامنے آئی تھی کہ امریکا آٹھ ارب ڈالر کا مزید اسلحہ اسرائیل کو فروخت کرے گا، اِس سے قبل گزشتہ سال اگست میں بھی امریکا نے اسرائیل کے لیے 20 ارب ڈالر کے پیکیج کی منظوری دی تھی جس میں جیٹ طیارے، فوجی گاڑیاں، بم اور میزائل شامل تھے جب کہ بعد ازاں نومبر میں بائیڈن انتظامیہ نے 68 کروڑ ڈالر کا بم اور دیگر جنگی ساز و سامان پر مشتمل ایک اور پیکیج اسرائیل کے لیے منظور کیا۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران دنیا میں جاری جنگیں بند کرانے پر زور دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ دِنوں میں یہ کام کر کے دکھائیں گے، لیکن ایسا پانی کا بلبلہ دعویٰ ثابت ہوا۔ یہ بات درست ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں یہودی لابی کی جڑیں بہت گہری ہیں اور ہر سطح تک پھیلی ہوئی ہیں۔ غیر جانبدار ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ متحد ہو جائیں، اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو نکیل ڈالنے کا اہتمام کریں، مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنے کا اسرائیلی خواب شرمندہ تعبیر ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے لیکن اس کے لیے دنیا کو مل کر اقدامات کرنے ہوں گے۔
عالمی ضمیر کتنا ہی خوابیدہ کیوں نہ ہو جائے مگر کچھ نہ کچھ احساس کی رمق تو باقی رہتی ہے۔ ایک بااختیار فلسطینی ریاست ہی مشرقِ وسطیٰ میں امن کی ضمانت فراہم کر سکتی ہے۔ فلسطین سے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے بھی اس تنازع کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ فلسطینی جہاں بھی جائیں گے اپنی تاریخ اور اپنا ورثہ ساتھ لے کر جائیں گے۔
آج جو طاقت کا عالمی توازن موجود ہے ‘ کل یہ توازن تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔آج کے عالمی توازن میں اسرائیل کو تحفظ حاصل ہے ‘کل کے عالمی تنازع میں حالات بدل بھی سکتے ہیں۔ جس طرح یہودیوں نے اسرائیل کو اپنا وطن بنایا ‘کل فلسطینی یہاں سے یہودیوں کو بھی بے دخل کر کے اسے دوبارہ فلسطین کا نام دے سکتے ہیں۔ حالات اور وقت کا دھارا کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتا‘مصر کے فراعنہ ‘یونان کے حکمران اور رومن سلطنت کدھر گئی‘ ایران کی سامانی اور ساسانی سلطنت ختم ہو گئی ‘سوویت یونین کل کی بات ہے ‘آگے کیا ہو گا کسی کو پتہ نہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیل کو اسرائیل کے رہے ہیں کرنے کے کے لیے
پڑھیں:
مالٹا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا
نیویاک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 مئی2025ء)یورپی ملک مالٹا نے اگلے ماہ فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم رابرٹ ابیلا نے اتوار کے روز ایک سیاسی تقریب کے دوران یہ اعلان کیا، جس میں انہوں نے عالمی و مقامی معاملات بالخصوص غزہ میں جاری انسانی بحران پر روشنی ڈالی۔وزیر اعظم رابرٹ ابیلا نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم غزہ میں جاری انسانیت سوز المیے پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتے۔فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا نہ صرف ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ انصاف اور انسانی وقار کے تقاضوں کے بھی عین مطابق ہے۔انہوں نے اعلان کیا کہ مالٹا فلسطینی ریاست کو 20 جون کو ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس کے بعد باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔(جاری ہے)
واضح رہے کہ مالٹا نے اپریل 2023 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطین کو مکمل رکنیت دینے کے حق میں ووٹ دیا تھا، تاہم اس کے باوجود ملک نے تاحال فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا تھا۔اقوام متحدہ کے 193 میں سے 147 رکن ممالک اب تک فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔حالیہ برسوں میں آرمینیا، سلووینیا، آئرلینڈ، ناروے، اسپین، بہاماس، ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو، جمیکا اور بارباڈوس جیسے ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔تاہم اس بڑھتی ہوئی عالمی حمایت کے باوجود امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور جرمنی سمیت کئی اہم مغربی طاقتوں نے اب تک فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ گزشتہ ماہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے عندیہ دیا تھا کہ فرانس آئندہ مہینوں میں اس بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے۔