انڈونیشیا کے ساحل کے نیچے دفن ڈیڑھ لاکھ برس پرانا پراسرار شہر دریافت
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
سائنس دانوں نے انڈونیشیا کے ساحل میں کے نیچے دفن ایک ایسی دریافت کی ہے جو ممکنہ طور پر انسانوں کی تاریخ کو بدل سکتی ہے۔
سائنس دانوں کو جاوا اور مدورا کے جزائر کے درمیان موجود مدورا اسٹریٹ میں ساحل کی ریت میں دفن 1 لاکھ 40 ہزار برس پرانی قدیم انسان کی کھوپڑی دریافت ہوئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جگہ ممکنہ طور پر گمشدہ دنیا ( غرقاب سنڈا لینڈ نامی قبل از تاریخ دور کا وہ خطہ جو جنوب مشرقی ایشیا سے جڑا ہوا تھا) کا پہلا طبعی ثبوت ہوسکتی ہے جو کہ 1 لاکھ 40 ہزار برس قبل دریاؤں کے ساتھ ایک وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا خطہ تھا۔
کھوپڑی کی ہڈیوں کے ساتھ محققین نے 36 انواع کے جانوروں کے 6000 فاسل بھی دریافت کیے جن میں کوموڈو ڈریگن، بھینسے، ہرن اور ہاتھی کی باقیات شامل تھیں۔
ان میں سے کچھ پر جبری کٹ کے نشانات تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتدائی انسان جانوروں کے شکار کے لیے جدید طریقے استعمال کرتے تھے۔
یہ باقیات میری ٹائم سینڈ مائنرز نے 2011 میں دریافت کی تھیں لیکن ماہرین نے حال ہی میں ان کی عمر اور انواع کا تعین کیا ہے جو کہ پیلیو اینتھروپولوجی کے شعبے میں ایک اہم کامیابی ہے۔
تحقیق میں ماہرین سمندر کے نیچے دفن سولو دریا کے وادی کے سسٹم کو دریافت کیا اور ان باقیات کی عمر کا اندازہ 1 لاکھ 62 ہزار سے 1 لاکھ 19 ہزار برس کے درمیان لگایا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دریافت کی
پڑھیں:
سیلاب سے تباہ حال زراعت،کسان بحالی کی فوری ضرورت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-7
لاہور (کامرس ڈیسک)پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری قومی معیشت کا بڑا حصہ کھیتوں سے حاصل ہونے والی اجناس، باغات کی پیداوار اور مویشی پالنے کے نظام پر منحصر ہے۔ دیہات میں بسنے والے لاکھوں خاندان اپنی روزی روٹی انہی کھیتوں سے کماتے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں آنے والے شدید اور تباہ کن سیلاب نے نہ صرف کسانوں کو بلکہ پوری زرعی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پانی کے طوفان نے کھیت کھلیان بہا دیے، تیار فصلیں تباہ کر ڈالیں اور کسان کو بے بسی کے عالم میں کھڑا کر دیا۔ یہ آفت صرف ایک قدرتی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے زرعی ڈھانچے، حکومتی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی کمزوری کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔خیبرپختونخوا وہ صوبہ ہے جہاں سے اس سیلابی تباہی کا آغاز ہوا۔ شدید بارشوں، کلاؤڈ برسٹ اور ندی نالوں میں طغیانی نے بستیاں اجاڑ دیں اور زرعی زمینوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صرف اسی صوبے کے 16 اضلاع میں 31 ہزار 600 ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں اور باغات مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ سب سے زیادہ نقصان بونیر میں ہوا جہاں 26 ہزار 141 ایکڑ پر کھڑی فصلیں پانی میں بہہ گئیں۔ سوات، دیر لوئر اور شانگلہ میں بھی ہزاروں ایکڑ زمین زیرِ آب آ گئی۔ مکئی، چاول، سبزیاں اور پھلدار باغات وہ اجناس ہیں جن پر مقامی معیشت کا انحصار ہے، لیکن یہ سب اس سیلابی ریلے کی نذر ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف کسانوں کا ذریعہ معاش ختم ہوا بلکہ مقامی منڈیوں میں اجناس کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔پنجاب، جو پاکستان کی زرعی پیداوار میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہ ، اس بار سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ 21 لاکھ 25 ہزار 838 ایکڑ زرعی رقبہ سیلاب کی نذر ہوا۔ یہ تباہی صرف زمین یا فصلوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے زرعی آلات، گوداموں، گھروں اور کسانوں کی روزمرہ زندگی کو بھی برباد کر دیا۔ فیصل آباد ڈویڑن سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 3 لاکھ 23 ہزار 215 ایکڑ پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر ضائع ہو گئیں۔ اسی طرح گوجرانوالہ ڈویڑن، گجرات ڈویڑن، بہاولپور ڈویڑن، ساہیوال، ملتان ڈویڑن اور ڈی جی خان میں بالترتیب2 لاکھ 62 ہزار 862 ایکڑ، 2 لاکھ 38 ہزار 416 ایکڑ، 1 لاکھ 45 ہزار 432 ایکڑ، 1 لاکھ 37 ہزار 79 ایکڑ، 58 ہزار 439 ایکڑاور 49 ہزار 165 ایکڑفصلیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئیں۔زرعی تباہی کے ساتھ ساتھ لاکھوں مویشی بھی یا تو پانی کے ریلوں میں بہہ گئے یا خوراک کی کمی اور بیماریوں کے باعث مر گئے۔ دیہات میں کسان کی معیشت صرف فصلوں پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ مویشی اس کا دوسرا بڑا سہارا ہوتے ہیں۔ دودھ، گوشت اور کھال کے ساتھ ساتھ بیل اور بھینس کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سبز چارے کی شدید قلت ہے اور کسان اپنے بچ جانے والے جانوروں کو خوراک دینے سے قاصر ہیں۔ حکومت کی طرف سے ونڈے کی معمولی تقسیم ہو رہی ہے مگر اکثر یہ سہولت ضرورت مند کسان تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایسے حالات میں مرکزی مسلم لیگ، الخدمت فاؤنڈیشن، مرکزی کسان لیگ اور دیگر مذہبی و فلاحی تنظیمیں سائیلج اور توری کی تقسیم کر رہی ہیں، مگر یہ اقدامات وقتی ہیں، مستقل حل نہیں۔درحقیت پاکستان کا کسان ہماری معیشت کی بنیاد ہے۔ اگر کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔ سیلاب نے کسان کو کچل کر رکھ دیا ہے، اس لیے اب یہ حکومت اور ریاست کی آئینی، اخلاقی اور معاشی ذمہ داری ہے کہ وہ کسان کو دوبارہ کھڑا ہونے کا موقع دے۔