عام لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے اکثر کاموں کو عمومی طور پر انجام دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے روزمرہ کے کاموں کو کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں لوگوں کی اکثریت اپنے کاموں کو کرنے کے لئے اپنے دماغ کو خود کار طریقے سے استعمال کرتی ہے یعنی زیادہ تر لوگ اپنے دماغ کو آٹو (Auto) پر لگا دیتے ہیں جیسے وہ خود اپنے ہی دماغ کے لئے کام کرنے کے عادی یا غلام ہوں۔
زندگی کے اس خود کار نظام کے زیر اثر ہی ہم روزانہ صبح سویرے اٹھتے ہیں، نہاتے دھوتے ہیں، ناشتہ کرتے ہیں اور پھر سکول کالج جاتے ہیں، کھیتی باڑی کرتے ہیں یا نوکری اور کاروبار کرنے کے لیئے گھر سے نکل جاتے ہیں۔ ہماری سماجی زندگی بھی ایسی ہی ہے کہ ہم تہوار منانے ہیں، خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ کھیل کود کرتے ہیں۔ دنیا میں بہت کم لوگ ہیں جو صرف سوچتے ہیں یا لیبارٹریوں میں بیٹھ کر سائنسی تجربات انجام دیتے ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو صرف گیان کرتے ہیں یا بدھا کی طرح تخت و تاج چھوڑ کر محض سادھو بن کر زندگی گزارتے ہیں۔
ہماری دنیا میں سماجی خدمت گار بھی زیادہ نہیں ہیں جو اپنی ضروریات کو ترک کر کے اپنی زندگیوں کو دوسروں کی حاجات پوری کرنے کے لیئے وقف کر دیتے ہیں۔ متوازن زندگی بہترین اور کامیاب نظام حیات ہے جس میں انسان ماحول اور معاشرے کے لئے ہمیشہ سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسی مجرد زندگی انسان کو دماغ میں آنے والے آزاد اور گمراہ خیالات سے بھٹکنے سے بھی روکے رکھتی ہے۔
خیر کسی کی غلامی سے اپنے دماغ کی غلامی کرنا کوئی اتنی بری بات نہیں ہے مگر اس کے عادی ہو جانے کا ایک بنیادی نقصان یہ ہے کہ ایک بار آپ کو اس کی عادت پڑ جائے تو پھر آپ زندگی بھر اپنی ہی غلامی میں ایک مشین بن کر کام کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے اور مشینوں کے درمیان ’’اختیار‘‘ اور’’ارادے‘‘ کا بنیادی فرق ہے۔ اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ ہم کیا کر رہے ہیں تو اس سے کرنے یا نہ کرنے کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ انسان کے ’’اشرف المخلوقات‘‘ یا ’’احسن تقویم‘‘ ہونے سے مراد کاموں کے انجام دینے کے مثبت یا منفی نتائج سے آگاہی ہے۔ ہم انسانوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم ایک بیالوجیکل یا بائیو مخلوق (Bio Creature) ہیں۔ ورنہ کام تو مشینیں بھی کرتی ہیں۔ اس لئے بطور انسان ہمیں صرف ارادی اور شعوری کاموں کو کرنے کا طریقہ سیکھنا چایئے تاکہ ان کے نتائج ہمیں یا دوسرے انسانوں کو نقصان دینے کا باعث نہ بن سکیں۔
دماغی کارکردگی کے اعتبار سے ہمارے دماغ کے دو بڑے حصے ہیں جن کے تحت ہم شعوری اور لاشعوری طور پر کام انجام دیتے ہیں۔ قبل از وقت کاموں کے نتائج سے آگاہی کارخیر کے ضمرے میں آتی ہے۔ جدید نفسیات کے مطابق ہم زندگی کے 95 فیصد کام لاشعوری طور پر کرتے ہیں۔ اول ہمارے جسم کا سارا اندرونی نظام خودکار طریقے سے کام کرتا یے۔ دوم ہمارے جسم کے تمام داخلی نظامات جیسا کہ دل اور دماغ کا کام کرنا، نظام انہضام کا چلتے رہنا، دل کا تسلسل سے ڈھڑکنا، بالوں اور ناخنوں کا اگنا یا نظام تنفس وغیرہ کا چلنا، یہ سارے کام ایک خودکار نظام کے تحت ہوتے ہیں۔ ہم اپنے دل کی دھڑکن یا خون کی گردش کو اپنی مرضی سے روک سکتے ہیں اور نہ ہی چلا سکتے ہیں۔ گو کہ ہم سوچتے ہیں، بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں اور اپنے بیرونی جسم کو روزانہ استعمال میں بھی لاتے ہیں۔ لیکن کاموں کے سو فیصد درست نتائج ہمارے اختیار میں نہیں ہوتے ہیں۔
عملی زندگی کے اس پورے نظام میں لکھی تقدیر (Written Destiny) کا یہی مطلب ہے کہ بنی نوع انسان ایک ذیلی یا جزوی طور پر خود مختار مخلوق ہے جس نے سوشل اینیمل (Social Animal) ہونے کے باوجود انسانی تہذیب جیسی عظیم الشان منزل کو عبور کیا ہے اور اب وہ اس سے آگے کی منازل طے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس معاملے میںبہت سے لوگ اپنے شخصی رجحان اور زہنی فکر پر نظر رکھتے ہیں اور اپنے اعمال میں مرضی کی بہتری لا کر خود کو بدل لیتے ہیں۔ اپنی پسند اور مرضی کی کامیابیاں انہی کو نصیب ہوتی ہیں جن کو اپنے دماغ میں آنے والے خیالات پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل ہوتا ہے، بصورت دیگر لوگوں کی اکثریت بھٹک جاتی ہے۔
ہمارے دماغ کے منفی خیالات ہمیں غیر منافع بخش چیزوں کی طرف مائل رکھتے ہیں۔ اگر ہم خود پر نظر رکھیں اور دماغ میں آنے والے نقصان دہ خیالات سے گمراہ نہ ہوں تو ہم اپنی زندگی میں انقلاب لا سکتے ہیں۔ کامیاب زندگی آگاہی ذات سے شروع ہوتی ہے۔ اسی کے پیش نظر دنیا کے عظیم اور کامیاب لوگ خود کو ارادی اور شعوری زندگی گزارنے کا عادی بناتے ہیں۔
شعوری زندگی گزارنے کا یہ مقام و مرتبہ انہی لوگوں کے نصیب میں آتا ہے جو اپنے ذہن اور اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں۔ تجزیہ و تزکیہ نفس اس کا بہترین حل ہے۔ انسان خود پر نظر رکھے اور اسے اپنی نفسانی خواہشات کو روکنا آتا ہو تو اسے وہی درجہ و عزت حاصل ہوتی ہے جو اولیا ء اللہ کے نصیب میں لکھی ہوتی ہے۔ شعوری زندگی کا یہ مرحلہ پیدائشی طور پر اور محنت دونوں طریقوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: شعوری زندگی اپنے دماغ کاموں کو دیتے ہیں کرتے ہیں کرنے کے ہیں اور
پڑھیں:
پارٹی بڑی تحریک کی تیاری کرے( ساری زندگی جیل میں رکھ لیں نہیں جھکوں گا، عمران خان)
جو بھی ٹارچر کرلیں غلامی تسلیم نہیں کروں گا، لوگوں کو اسلام آباد نہیں بلاؤں گا، پورے پاکستان میں تحریک چلائیں گیِ عام قیدی کے جو حقوق ہیں وہ بھی نہیں دئیے جارہے،بانی پی ٹی آئی
8 ماہ میں صرف ایک بار بچوں سے بات کرائی،جیل انتظامیہ کتابیں روک لیتی ہیں، بشریٰ بی بی کو مجھ پر دباؤ ڈالنے کے لیے جیل میں رکھا گیا،علیمہ خان کی اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ جو بھی ٹارچر کرلیں غلامی تسلیم نہیں کروں گا، ساری زندگی جیل میں بھی رکھ لیں نہیں جھکوں گا، پارٹی بڑی تحریک کی تیاری کرے۔علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج بانی نے تین نکاتی پوائنٹس بھیجے ہیں، عمران خان نے کہا کہ عام قیدی کے جو حقوق ہیں وہ بھی نہیں دئیے جارہے، 8 ماہ میں صرف ایک بار بچوں سے بات کرائی ہیں، میری بہنوں کو ملاقات نہیں کراتے۔علیمہ خان نے کہا کہ ہم ان کو کتابیں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جیل انتظامیہ کتابیں روک لیتی ہیں بانی کے ذاتی ڈاکٹرز سے چیک اَپ نہیں کرایا جارہا، توہین عدالت کی درخواستوں پر ججز کا حکم نہیں مانتے، عمران خان نے کہا جو بھی فرعونیت یا یزدیت کا نظام ہے جو بھی ٹارچر کرلیں میں غلامی تسلیم نہیں کروں گا۔علیمہ خان کے مطابق عمران خان نے کہا ہے کہ بشریٰ بی بی کو مجھ پر دباؤ ڈالنے کے لیے جیل میں رکھا گیا، ساری زندگی جیل میں بھی رکھ لیں نہیں جھکوں گا۔علیمہ خان نے کہا کہ یوٹیوبر کہتے ہیں بانی باہر نکلنے والے ہیں، ڈیل ہوگی، امریکن آگئے، اب سمجھ آرہی ہے کہ عوام کا ٹیمپریچر ٹھنڈا رکھنے کے لیے ایسے وی لاگ بنائے جاتے ہیں۔علیمہ خان کے مطابق عمران خان نے پارٹی کے لیے پیغام بھیجا ہے کہ یہ نظرئیے کی جماعت ہے بانی کے علاوہ بہت سے نوجوان جیل کاٹ رہے ہیں یہ الیکٹیبلز کی پارٹی نہیں ہے، یہ ہمیں نظرئیے کا ووٹ ملا ہے، میں نے سب پر نظر رکھی ہوئی ہے جو بھی اس نظرئیے کے ساتھ نہیں ہے ان کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے، جو ووکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں ان کی بھی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔علیمہ خان نے کہا کہ یہ باتیں کرتے وقت وہ غصے میں تھے اب ججز کا حال دیکھیں القادر کا کیس تین مہینے سے نہیں لگ رہا، 9 مئی اور دیگر ضمانتوں کے کیس بھی ہیں، ججز نے زبان دی کہ کیس لگادیں گے لیکن انھوں نے نہیں لگائے، عمران خان نے واضح کردیا ہے کہ پارٹی تیاری کرے بڑی تحریک کی، لوگوں کو اسلام آباد نہیں بلاؤں گا، پورے پاکستان میں تحریک چلائیں گے۔علیمہ خان نے کہا کہ ہم فیملی کے لوگ کل ہائی کورٹ جائیں گے ہم کہہ رہے ہیں ججز کو سپورٹ کریں گے،آج تمام ممبران اسمبلی پنجاب کے لاہور ہائی کورٹ جائیں گے اور یہاں تمام ایم این ایز اور پشاور کے ایم پی ایز ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ آئیں گے اور ہم ججز کو سپورٹ کریں گے۔