Daily Ausaf:
2025-09-17@23:22:42 GMT

شعوری زندگی کا مرحلہ

اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT

عام لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے اکثر کاموں کو عمومی طور پر انجام دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے روزمرہ کے کاموں کو کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں لوگوں کی اکثریت اپنے کاموں کو کرنے کے لئے اپنے دماغ کو خود کار طریقے سے استعمال کرتی ہے یعنی زیادہ تر لوگ اپنے دماغ کو آٹو (Auto) پر لگا دیتے ہیں جیسے وہ خود اپنے ہی دماغ کے لئے کام کرنے کے عادی یا غلام ہوں۔
زندگی کے اس خود کار نظام کے زیر اثر ہی ہم روزانہ صبح سویرے اٹھتے ہیں، نہاتے دھوتے ہیں، ناشتہ کرتے ہیں اور پھر سکول کالج جاتے ہیں، کھیتی باڑی کرتے ہیں یا نوکری اور کاروبار کرنے کے لیئے گھر سے نکل جاتے ہیں۔ ہماری سماجی زندگی بھی ایسی ہی ہے کہ ہم تہوار منانے ہیں، خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ کھیل کود کرتے ہیں۔ دنیا میں بہت کم لوگ ہیں جو صرف سوچتے ہیں یا لیبارٹریوں میں بیٹھ کر سائنسی تجربات انجام دیتے ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو صرف گیان کرتے ہیں یا بدھا کی طرح تخت و تاج چھوڑ کر محض سادھو بن کر زندگی گزارتے ہیں۔
ہماری دنیا میں سماجی خدمت گار بھی زیادہ نہیں ہیں جو اپنی ضروریات کو ترک کر کے اپنی زندگیوں کو دوسروں کی حاجات پوری کرنے کے لیئے وقف کر دیتے ہیں۔ متوازن زندگی بہترین اور کامیاب نظام حیات ہے جس میں انسان ماحول اور معاشرے کے لئے ہمیشہ سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسی مجرد زندگی انسان کو دماغ میں آنے والے آزاد اور گمراہ خیالات سے بھٹکنے سے بھی روکے رکھتی ہے۔
خیر کسی کی غلامی سے اپنے دماغ کی غلامی کرنا کوئی اتنی بری بات نہیں ہے مگر اس کے عادی ہو جانے کا ایک بنیادی نقصان یہ ہے کہ ایک بار آپ کو اس کی عادت پڑ جائے تو پھر آپ زندگی بھر اپنی ہی غلامی میں ایک مشین بن کر کام کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے اور مشینوں کے درمیان ’’اختیار‘‘ اور’’ارادے‘‘ کا بنیادی فرق ہے۔ اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ ہم کیا کر رہے ہیں تو اس سے کرنے یا نہ کرنے کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ انسان کے ’’اشرف المخلوقات‘‘ یا ’’احسن تقویم‘‘ ہونے سے مراد کاموں کے انجام دینے کے مثبت یا منفی نتائج سے آگاہی ہے۔ ہم انسانوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم ایک بیالوجیکل یا بائیو مخلوق (Bio Creature) ہیں۔ ورنہ کام تو مشینیں بھی کرتی ہیں۔ اس لئے بطور انسان ہمیں صرف ارادی اور شعوری کاموں کو کرنے کا طریقہ سیکھنا چایئے تاکہ ان کے نتائج ہمیں یا دوسرے انسانوں کو نقصان دینے کا باعث نہ بن سکیں۔
دماغی کارکردگی کے اعتبار سے ہمارے دماغ کے دو بڑے حصے ہیں جن کے تحت ہم شعوری اور لاشعوری طور پر کام انجام دیتے ہیں۔ قبل از وقت کاموں کے نتائج سے آگاہی کارخیر کے ضمرے میں آتی ہے۔ جدید نفسیات کے مطابق ہم زندگی کے 95 فیصد کام لاشعوری طور پر کرتے ہیں۔ اول ہمارے جسم کا سارا اندرونی نظام خودکار طریقے سے کام کرتا یے۔ دوم ہمارے جسم کے تمام داخلی نظامات جیسا کہ دل اور دماغ کا کام کرنا، نظام انہضام کا چلتے رہنا، دل کا تسلسل سے ڈھڑکنا، بالوں اور ناخنوں کا اگنا یا نظام تنفس وغیرہ کا چلنا، یہ سارے کام ایک خودکار نظام کے تحت ہوتے ہیں۔ ہم اپنے دل کی دھڑکن یا خون کی گردش کو اپنی مرضی سے روک سکتے ہیں اور نہ ہی چلا سکتے ہیں۔ گو کہ ہم سوچتے ہیں، بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں اور اپنے بیرونی جسم کو روزانہ استعمال میں بھی لاتے ہیں۔ لیکن کاموں کے سو فیصد درست نتائج ہمارے اختیار میں نہیں ہوتے ہیں۔
عملی زندگی کے اس پورے نظام میں لکھی تقدیر (Written Destiny) کا یہی مطلب ہے کہ بنی نوع انسان ایک ذیلی یا جزوی طور پر خود مختار مخلوق ہے جس نے سوشل اینیمل (Social Animal) ہونے کے باوجود انسانی تہذیب جیسی عظیم الشان منزل کو عبور کیا ہے اور اب وہ اس سے آگے کی منازل طے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس معاملے میںبہت سے لوگ اپنے شخصی رجحان اور زہنی فکر پر نظر رکھتے ہیں اور اپنے اعمال میں مرضی کی بہتری لا کر خود کو بدل لیتے ہیں۔ اپنی پسند اور مرضی کی کامیابیاں انہی کو نصیب ہوتی ہیں جن کو اپنے دماغ میں آنے والے خیالات پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل ہوتا ہے، بصورت دیگر لوگوں کی اکثریت بھٹک جاتی ہے۔
ہمارے دماغ کے منفی خیالات ہمیں غیر منافع بخش چیزوں کی طرف مائل رکھتے ہیں۔ اگر ہم خود پر نظر رکھیں اور دماغ میں آنے والے نقصان دہ خیالات سے گمراہ نہ ہوں تو ہم اپنی زندگی میں انقلاب لا سکتے ہیں۔ کامیاب زندگی آگاہی ذات سے شروع ہوتی ہے۔ اسی کے پیش نظر دنیا کے عظیم اور کامیاب لوگ خود کو ارادی اور شعوری زندگی گزارنے کا عادی بناتے ہیں۔
شعوری زندگی گزارنے کا یہ مقام و مرتبہ انہی لوگوں کے نصیب میں آتا ہے جو اپنے ذہن اور اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں۔ تجزیہ و تزکیہ نفس اس کا بہترین حل ہے۔ انسان خود پر نظر رکھے اور اسے اپنی نفسانی خواہشات کو روکنا آتا ہو تو اسے وہی درجہ و عزت حاصل ہوتی ہے جو اولیا ء اللہ کے نصیب میں لکھی ہوتی ہے۔ شعوری زندگی کا یہ مرحلہ پیدائشی طور پر اور محنت دونوں طریقوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: شعوری زندگی اپنے دماغ کاموں کو دیتے ہیں کرتے ہیں کرنے کے ہیں اور

پڑھیں:

سیلاب کے نقصانات کا مکمل تخمینہ لگنے کے بعد بحالی کے کاموں کی حکمت عملی بنائی جائے گی، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب کے نقصانات کا مکمل تخمینہ لگنے کے بعد بحالی کے کاموں کی حکمت عملی بنائی جائے گی تاکہ عوام کو کم وقت میں بھرپور ریلیف دیا جائے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت حالیہ بارشوں اور سیلاب کے پیش نظر ملک بھر میں جانی و مالی نقصانات سمیت ، فصلوں اور لائف سٹاک  کے خسارہ کے تخمینہ پر جائزہ اجلاس پوا۔

شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ تمام صوبے اور متعلقہ ادارے ملک میں سیلابی صورتحال اور حالیہ بارشوں کے پیش نظر نقصانات کا تفصیلی تخمینہ لگائیں تاکہ بحالی کے لیے واضح اور موثر لائحہ عمل اختیار کیا جا سکے۔

وزیراعظم نے اجلاس کے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام وزرائے اعلی نے بارشوں اور حالیہ سیلاب کے پیش نظر صورتحال کو  بروقت اور موثر طریقے سے حل کرنے  کے لیے بھرپور اقدامات کیے جو قابل تحسین ہیں۔

انہوں نے ہدایت کی کہ وفاقی اور  بین الصوبائی ادارے  نقصانات کے تخمینے میں ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کریں، بارشوں اور حالیہ سیلاب کی نقصانات کے جائزہ میں  جانی و مالی نقصان کے علاوہ فصلوں کی تباہ کاری اور مال مویشی کے نقصانات کو بھی شمار کیا جائے۔

وزیراعظم نے کاہ کہ سپارکو سے سیٹلائٹ اسسمنٹ میں مدد لی جائے، فصلوں کو سیلاب کے بعد مختلف امراض سے بچانے کے لئے فوری  اقدامات کئے جائیں جبکہ سیلاب زدہ علاقوں میں موزوں فصلوں کی کاشت کے لیے بھی خصوصی اقدامات کیے جائیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ذرائع مواصلات کی بحالی اور متاثرہ سڑکوں کی تعمیر و مرمت کو اولین ترجیح دی جائے، تمام وزراء اور متعلقہ ادارے سیلاب زدہ علاقوں اور لوگوں کی بحالی کے مرحلے میں عوام کے شانہ بشانہ موجود رہیں۔

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے تمام متعلقہ اداروں کو سیلاب اور بارش زدہ علاقوں میں جانی و مالی نقصانات اور فصلوں، ذرائع مواصلات اور لائف سٹاک میں ہونے والے نقصانات کا جامع اور حقیقت پسندانہ تخمینہ لگانے کی ہدایت کی۔

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ مکمل تخمینے کے بعد ہی حکومت بحالی کے کاموں کی جامع حکمت عملی مرتب کرے گی تاکہ موثر انداز میں متاثرہ علاقوں اور لوگوں کی بحالی پر کام کیا جا سکے۔

وزیراعظم نے تمام وفاقی اور متعلقہ صوبائی اداروں کو باہمی ہم آہنگی اور بھرپور تعاون سے کام کرنے کی ہدایت کی.اجلاس میں وزیراعظم کو چیئرمین این ڈی ایم اے سمیت دیگر متعلقہ اداروں کی طرف سے سیلابی صورتحال میں اب تک کیے جانے والے  تعمیر و بحالی کے کاموں پر بریفنگ دی گئی۔

بریفنگ میں وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ گنے، کپاس اور چاول کی فصلوں کے نقصانات کے تخمینے پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے، اور آئندہ دس سے پندرہ دنوں پانی کی مقدار کم ہونے پر اس پر کام مکمل کرلیا جائے گا۔

اجلاس میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار، وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق ملک، وفاقی وزیر برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ احسن اقبال،  وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ، وفاقی وزیر برائے اکنامک افیئرز ڈیویژن احد خان چیمہ،  تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز، چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک اور دیگر متعلقہ سرکاری اداروں کے عہدے داران نے شرکت کی۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کا پہلا مرحلہ ناکام
  • ’اب خود کو انسان سمجھنے لگا ہوں‘، تیز ترین ایتھلیٹ یوسین بولٹ نے خود سے متعلق ایسا کیوں کہا؟
  • بھارت: کیرالا میں دماغ کھانے والے امیبا سے عوام میں دہشت
  • ملک میں عاصم لا کے سوا سب قانون ختم ہو چکے،عمران خان
  • سیلاب کے نقصانات کا مکمل تخمینہ لگنے کے بعد بحالی کے کاموں کی حکمت عملی بنائی جائیگی، وزیراعظم
  • سیلاب کے نقصانات کا مکمل تخمینہ لگنے کے بعد بحالی کے کاموں کی حکمت عملی بنائی جائے گی، وزیراعظم
  • چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا کا ٹی چوک فلائی اوور منصوبے کا دورہ،تعمیراتی کاموں کا معائنہ
  • اسرائیل کی معاشی تنہائی شروع
  • اکثر افراد کو درپیش ’دماغی دھند‘ کیا ہے، قابو کیسے پایا جائے؟
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟