امریکا میں جعلی شناخت پر20سال سے مقیم کولمبین خاتون پر جعل سازی‘فلاحی پروگراموں کے فنڈزسے استفعادہ کرنے کے الزامات
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 28 مئی ۔2025 )امریکی محکمہ انصاف نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والی کولمبیا کی ایک خاتون دو دہائیوں سے جعلی شناخت کے ساتھ ملک میں رہ رہی تھی اور اس نے وفاقی قوانین کے تحت شہریوں کے لیے مخصوص فلاحی مراعات فنڈز سے4لاکھ ڈالر سے زیادہ کی رقوم وصول کیں خاتون نے جعلی شناخت پر 2024 کے صدارتی انتخابات میں ووٹ بھی ڈالا.
(جاری ہے)
محکمہ انصاف نے کہا کہ 59 سالہ لینا ماریا اوروویو ہرنینڈز نے فلاحی فوائد حاصل کیے وفاقی پراسیکیوٹرز نے بتایا کہ خاتون نے مبینہ طور پر چوری شدہ شناخت کو جنوری 2023 میں ووٹر رجسٹریشن جمع کرانے کے لیے استعمال کیا اور گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں ووٹ کاسٹ کیاعدالتی دستاویزات کے مطابق خاتون پر سوشل سیکیورٹی نمبر کے غلط استعمال کابھی الزام ہے خاتون پرامریکا میںپاسپورٹ کے لیے درخواست میں غلط بیان دینا‘ شناخت کی چوری؛ چوری شدہ سرکاری رقم یا جائیداد وصول کرنا‘ جعلی ووٹر رجسٹریشن‘ اور جعلی ووٹنگ دینے کے الزامات ہیں. محکمہ انصاف کے مطابق لینا ماریا اوروویو ہرنینڈز کو فروری میں وفاقی حراست میں لیا گیا تھا حکام نے کہا کہ خاتون نے غلط طریقے سے وفاقی فوائد میں4لاکھ ڈالروصول کیئے اور اکتوبر 2011 سے جنوری 2025 تک سیکشن 8 کے تحت کم آمدن والے افراد کے لیے گھرکے کرائے کے پروگرام کے تحت 2لاکھ59ہزار589 ڈالر‘ جولائی 2014 سے جنوری2025 تک سوشل سیکورٹی کے تحت معذوروں کے لیے امدادی پروگرام کے تحت1لاکھ12سو 57 ڈالر خوراک کے پروگرام کے تحت43ہزار358´´ڈالر حاصل کیئے. امریکی اٹارنی لیہ بی فولی نے کہا کہ کولمبیا سے تعلق رکھنے والی خاتون کو20 سال سے زیادہ عرصے سے چوری شدہ شناخت‘ صدارتی انتخابات میں غیر قانونی طور پر ووٹ ڈالنا اور ضرورت مند امریکیوں کے لیے مخصوص فنڈز سے لاکھوں ڈالر کی سرکاری مراعات جمع کرنے سمیت کئی الزامات کا سامنا ہے حکام نے بتایا کہ خاتون نے امریکی پاسپورٹ کے لیے بھی درخواست دی اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ امریکی شہری ہے جو پورٹو ریکو میں پیدا ہوئی تھی .
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خاتون نے کے لیے کے تحت
پڑھیں:
اسرائیل کی حمایت میں امریکا کا ایک بار پھر یونیسکو چھوڑنے کا اعلان
امریکا نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو (UNESCO) سے دوبارہ علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ یونیسکو اسرائیل کے خلاف تعصب رکھتا ہے اور عالمی سطح پر ’’تقسیم پیدا کرنے والے‘‘ سماجی و ثقافتی ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ یونیسکو میں رہنا "امریکی قومی مفاد میں نہیں" ہے۔ یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں بھی کیا تھا، لیکن جو بائیڈن کے دور میں امریکا دوبارہ یونیسکو کا رکن بن گیا تھا۔
اب ٹرمپ کی واپسی کے بعد ایک بار پھر امریکا کا ادارے سے نکلنے کا اعلان سامنے آیا ہے، جو دسمبر 2026 میں مؤثر ہو گا۔
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ملٹی لیٹرلزم (کثیر الجہتی تعاون) کے اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ فیصلہ متوقع تھا اور ادارہ اس کے لیے تیار ہے۔
یونیسکو نے کہا کہ امریکی انخلا کے باوجود ادارے کو مالی طور پر بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ گزشتہ دہائی میں امریکا کی بجٹ میں شراکت 20 فیصد سے کم ہو کر اب 8 فیصد رہ گئی ہے۔
امریکا نے یونیسکو پر الزام لگایا ہے کہ اس نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرکے اسرائیل مخالف بیانیہ بڑھایا ہے اور مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی ثقافتی مقامات کو عالمی ورثہ قرار دینا بھی امریکی پالیسی کے خلاف ہے۔
اسرائیل نے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، جب کہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے یونیسکو کی مکمل حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکا اس سے پہلے بھی 1980 کی دہائی میں ریگن حکومت کے تحت یونیسکو سے نکل چکا ہے، اور 2000 کی دہائی میں صدر بش کے دور میں دوبارہ شامل ہوا تھا۔