آج ہی ہمیں اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی کی طرف سے ایک نوٹس آیا ہے ، ’’ گرمی کی شدت کی وجہ سے آج کل پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، آپ اس مشکل وقت میں پانی کے استعمال میں کمی کر کے اس بحران پر قابو پانے میں مدد کر سکتے ہیں، براہ کرم اپنی گاڑیاں اور گھروں کی گلیاں دھونے سے گریز کریں، پودوں کو بھی کوشش کریں کہ کم سے کم پانی دیں ۔ ‘‘
کیا یہی کافی ہے کہ ہم اگر اپنی گاڑیاں نہ دھوئیں اور گھروں کی گلیاں نہ دھوئیں تو پانی کی بچت کی جاسکتی ہے؟ میں چند مثالیں ایک درمیانہ طبقے کے گھر کی دیتی ہوں، ایک گھر کے صبح سے رات سونے تک کے معمول میں پانی کا کس طرح اور کتنا زیاں ہوتا ہے ۔ ہم ایک ایسے گھر کی مثال لیتے ہیں جہاں گھر میں چھ لوگ رہتے ہوں جو کہ ہمارے ملک کا ایک محتاط اوسط گھرانے کا سائز ہے۔
ایک گھرمیں میاں بیوی، ان کے والدین یا والدین میں سے کوئی ایک رہتا ہے، دو سے چار تک بچے ہوتے ہیں۔ اگر اس گھر میں نصف لوگ بھی نماز پڑھتے ہوں تو وہ صبح وضو کرتے وقت کتنا پانی ضایع کرتے ہیں، نل کھول دیا جاتا ہے اور وضو کے تمام فرائض پورے کیے جاتے ہیں، جو وضو پانی کی بچت کی نیت کر کے فقط ایک لوٹا پانی سے کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے ہر شخص کم از کم تین لوٹے پانی استعمال کرتا ہے۔
اس کے بعد جب باقی سب افراد جاگتے ہیں تو سب کے ہاتھ منہ دھونے، دانت برش کرنے کے دوران کہ جب ہم نل کھول کر برش کرتے ہوئے اپنے منہ کو کئی کئی زاویوں سے دیکھتے اور پس منظر میں پانی بہنے کی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ٹیلی وژن کے ڈراموں، اشتہاروں اور فلموں میں بھی ایسا ہی دکھایا جاتا ہے ۔ ہمارے ملک میں مرد حضرات کی عادت ہے کہ وہ سارا سال ہر روز سویرے ضرور نہاتے ہیں، ان کے شیو کرنے اور نہانے کے دوران کتنا پانی صرف ہوتا ہے، اندازہ کریں ۔
بعض لوگ فخر سے بتاتے ہیں کہ وہ تو دن میں دو تین بار نہاتے ہیں۔ بچپن میں سنا کرتے تھے کہ پانی اللہ تعالی کی دنیاوی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہے اور روز حشر سب سے کڑا حساب بھی پانی کا ہی ہوگا تو ہم پانی ضایع کرنے سے ڈرتے تھے۔گھروں میں کام والی مائیاں آتی ہیں تو انھیں کہاں احساس ہوتا ہے کہ پانی بچانا ہے یا بے مقصد بہانا ہے۔
وہ کپڑے ، برتن دھوتے وقت اور غسل خانوں کی صفائی کے دوران کتنے لٹر پانی فالتو بہا دیتی ہیں، کیا وہ برتن دھونے والا پانی کسی ٹب میں محفوظ کر کے اس سے گلیاں یا غسل خانے نہیں دھو سکتیں ۔ مجھے دیوانگی کی حد تک پانی کی بچت کرنے کا شوق ہے اور میں اپنے گھر والوں اور ملازموں کو اکثر اس بات پر چیک کرتی ہوں۔ ملازمائیں کچھ اس طرح کی نظر سے دیکھتی ہیں جیسے کہ میرے سر پر سینگ نکلے ہوئے ہوں اور میں کوئی خبطی ہوں جسے پانی بچانے کا مرض لاحق ہے۔
سبزیاں پھل دھونا ہوں یا چاول اور دالیں… میری کوشش ہوتی ہے کہ سنک میں نیچے ٹب رکھ کر اگر یہ سب دھلائی کی جائے تو وہ پانی پودوں کو دینے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ ملازم سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ پانی بچانے کی ایکسر سائز میں مصروف رہیں تو ان کا سارا دن اسی میں گزر جائے گا۔
انھیں اچھا لگتا ہے کہ وہ کھلا پانی بہائیں اور جلدی جلدی کام ختم کریں، اس کے بعد انھیں اپنے ٹیلی فونوں پر بھی مصروف ہونا ہوتا ہے۔ جب وہ خود نہاتے ہیں اور اپنے کپڑے اور برتن دھوتے ہیں تو انھیں کوئی کچھ دیکھنے اور کہنے والا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی کے عطا کردہ وسائل کو احتیاط سے استعمال کرنا اور انھیں اپنی اگلی نسلوں کے لیے بچانا ایک ایسا رجحان ہے جو تعلیم کی وجہ سے آتا ہے یا آپ کو بچپن میں ایسے بزرگوں کے زیر سایہ رہنا نصیب ہو جو یہ جانتے ہوں کہ جب ہم اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے اور ان کے استعمال میں احتیاط نہیں کرتے تو وہ نعمتیں ہم سے چھین لی جاتی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کیا سن اسکرین کا زیادہ استعمال ہڈیاں ٹوٹنے کا سبب بن سکتا ہے؟
بہت زیادہ سن اسکرین کے استعمال کی وجہ سے وٹامن ڈی کی شدید کمی کی شکار ایک چینی خاتون کو ہڈیوں کے فریکچر کا سامنا کرگیا۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین سخت گرمی میں چہرے کی جلد کو صحت مند کیسے رکھ سکتی ہیں؟
چین کے شہر چینگدو میں ایک اسپتال کے ڈاکٹروں نے حال ہی میں ایک 48 سالہ مقامی خاتون کے غیر معمولی کیس کی اطلاع دی ہے جسے بظاہر صرف اتفاقیہ طور پر بستر پر کروٹ بدلنے سے ہڈیوں کے ٹوٹنے کا سامنا کرنا پڑگیا۔
ڈاکٹر لانگ شوانگ کے مطابق اسپتال میں کیے گئے ٹیسٹوں سے معلوم ہوا کہ نامعلوم خاتون کے وٹامن ڈی کی سطح انتہائی کم تھی جس سے ہڈیوں کے ٹوٹنے میں تیزی آئی اور شدید آسٹوپوروسس شروع ہو گیا۔
مزید تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ مریضہ بچپن سے ہی سورج کی روشنی سے گریز کرتی تھیں اور شاذ و نادر ہی چھوٹی بازو والی شرٹ پہن کر گھر سے نکلتی تھیں۔ وہ باہر جاتے وقت ہمیشہ سن اسکرین لگاتی تھیں۔
مزید پڑھیے: چہرے کی جلد صحت مند کیسے؟ لیڈی ڈیانا کی بہو نے سارے راز کھول دیے
خاتون کا کیس دوسرے سن اسکرین کے شوقین افراد کے لیے ایک انتباہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو اس کا زیادہ استعمال کر رہی ہوں اوراپنی ہڈیوں کی صحت متاثر کر رہی ہوں۔
گوانگ ژو میڈیکل یونیورسٹی کے دوسرے منسلک اسپتال کے آرتھوپیڈک اسپائن سرجری کے شعبے کے ڈائریکٹر جیانگ ژاؤ بنگ نے کہا کہ اکثر لوگ خود کو سورج سے بچانے کے لیے اپنے پورے جسم کو سر سے پاؤں تک ڈھانپتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعی غیر صحت بخش عمل ہے۔
جیانگ ژاؤ بنگ نے بتایا کہ ہمارے جسم میں تمام ہڈیوں کی ہر 10 سال بعد تجدید ہوتی ہے لیکن 30 سال کی عمر سے ہر سال 0.5 سے ایک فیصد کی شرح سے ہماری ہڈیوں کا وزن کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
مزید پڑھیں: 3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟
ان کا کہنا تھا کہ کیلشیم کی کم مقدار سورج کی روشنی میں کمی، اور وٹامن ڈی کی کمی یہ سب کیلشیم کے جذب میں رکاوٹ ہیں۔
اگرچہ عام طور پر سن اسکرین اور سورج سے بچاؤ کے اپنے فوائد ہیں جن سے جلد کے کینسر اور صحت کے دیگر سنگین مسائل کے خطرات کم ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ اس معاملے میں زیادتی کربیٹھتے ہیں اور اس طرح خود کو دیگر مسائل کا شکار بنا لیتے ہیں۔
سورج کی روشنی جسم کو وٹامن ڈی کے حوالے سے مدد دینے میں بہت اہم ہے، جو کہ ہڈیوں کی صحت اور کیلشیم کے جذب کے لیے ضروری ہے، اس لیے طویل عرصے تک سورج کی روشنی میں نہ رہنے سے قوت مدافعت اور ہڈیوں کی صحت خراب ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: بدلتے موسم میں جلد کا خیال کیسے رکھا جائے؟
ڈاکٹر لونگ شوانگ کی طرف سے پیش کیا گیا کیس چینی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا جس کی وجہ سے کچھ لوگوں نے یہ قیاس کیا کہ چینی خواتین کی سماجی اصولوں کے مطابق صاف جلد کی خواہش صحت کے سنگین مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سن اسکرین کریم سورج سے بچاؤ سورج کی روشنی کیلشیم وٹان ڈی