نیروبی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 29 مئی ۔2025 )کینیا کی سپریم کورٹ نے عمر قید کی سزا پانے والے 6 پاکستانی شہریوں کی رہائی کے احکامات جاری کر دیے ہیں رپورٹ کے مطابق 6 پاکستانی شہری ’’امین دریا“ نامی بحری جہاز میں سفید سیمنٹ لے کر ایران سے زنجبار، تنزانیہ جا رہے تھے، جب کینیا کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے 2 جولائی 2014 کو کھلے سمندر میں انہیں روک لیا، شبہ تھا کہ وہ جہاز میں منشیات لے جا رہے ہیں.

(جاری ہے)

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چند دن بعد جب یہ جہاز کینیا کی قانون نافذ کرنے والی اتھارٹیز کی تحویل میں تھا، اسے سمندر میں دھماکے سے اڑا دیا گیا تاکہ کسی بھی ثبوت کو ختم کیا جا سکے، اس اقدام کی وجہ سیاسی بتائی گئی یہ کیس ان 6 پاکستانی شہریوں سے متعلق ہے جنہیں 2 جولائی 2014 کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور وہ آج تک قید ہیں.

کینیا ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ان 6 پاکستانیوں کو 10 مارچ 2023 کو کریمنل کیس نمبر 1255/2014 میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اس کے علاوہ ہر ایک کو 30 کروڑ ڈالر جرمانہ بھی کیا گیا سزا پانے والے پاکستانی شہریوں میں 59 سالہ یوسف یعقوب ، 59 صالح محمد، 88 سالہ یعقوب ابراہی، 57 سالہ غفور بھٹی، 61 سالہ سلیم محمد اور 53 سالہ مولابخش شامل تھے، جن کا تعلق کراچی سے ہے.

ذرائع کے مطابق یہ کیس دراصل سیاسی نوعیت کا تھا، مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان تناﺅ جس کی وجہ بنا، زبان کی رکاوٹ، وقت پر مترجم کی عدم دستیابی اور وکلاءکی غیر سنجیدگی کی وجہ سے ملزمان کو جیل میں قید رہنا پڑا اور وہ نیروبی میں عمر قید کی سزا کاٹتے رہے پاکستان میں کینیا کے لیے ہائی کمشنر ابرار حسین خان کی ذاتی کاوشوں اور کوششوں کے نتیجے میں سپریم کورٹ آف کینیا نے آج ان قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری کر دیے ہیں.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستانی شہریوں عمر قید کی سزا کینیا کی

پڑھیں:

سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے بجائے اصل مجرموں کو گرفتار کیا جائے، ملک معتصم خان

جماعت اسلامی کے نائب امیر نے عدالتی نظام میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 19 سال کے بعد بے قصوروں کی رہائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشتگردی کے مقدمات کی تفتیش میں کتنی سنگین کوتاہیاں موجود ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے 2006ء کے 7/11 ممبئی ٹرین دھماکوں کے مقدمے میں تمام 12 ملزمان کو بری کئے جانے کے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے مہاراشٹر حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے جس کے تحت وہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ 21 جولائی 2025ء کو سنایا گیا جس میں 2015ء کی سزا کو کالعدم قرار دیا گیا اور عدالت کی طرف سے تفتیش میں سنگین کوتاہیوں اور ناقص شواہد کی بنیاد پر شدید سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ملک معتصم خان نے کہا کہ عدالت کی طرف سے جو سوال اٹھائے گئے ہیں وہ ہمارے فوجداری نظام انصاف پر سنجیدہ غوروفکر کے متقاضی ہیں۔

 میڈیا کو دئے گئے اپنے بیان میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ ہم 7/11 ممبئی دھماکوں کے مقدمے میں 12 بے گناہ افراد کو بری کرنے کے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں جنہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک جیل میں ظلم و جبر کا سامنا کیا۔ عدالت کے ریمارکس نے واضح کر دیا ہے کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا اور جو شواہد عدالت میں پیش کئے گئے وہ ناقابل اعتبار تھے۔ کورٹ کے مطابق مہاراشٹر اے ٹی ایس بم دھماکوں میں استعمال ہونے والے بارود کی قسم تک معلوم نہ کر سکی اور مشکوک گواہیوں اور غلط طریقے سے جمع کئے گئے شواہد پر انحصار کیا۔ یہ صرف اے ٹی ایس کی ناکامی نہیں بلکہ پورے نظام انصاف کی ناکامی ہے جس نے ملزمان اور ان کے خاندانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

ملک معتصم خان نے اس شدید ناانصافی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ افراد 19 سال جیل میں رہے جہاں ان پر تشدد ہوا اور انہیں نفسیاتی طور پر ہراساں کیا گیا، خود عدالت نے بھی ان باتوں کا مشاہدہ کیا ہے، بے قصور افراد کے خاندان بدنامی کا شکار ہوئے اوران کی زندگیاں تباہ ہو گئیں۔ انہون نے کہا کہ اب بجائے اس کے کہ حکومت ان مظلوموں کو انصاف دے اور ان کے نقصانات کا ازالہ کرے وہ سپریم کورٹ میں اپیل کر کے ایک ناقص اور بلاجواز فیصلہ کرنے جارہی ہے۔ اس طرح کے اقدام سے اصل مسئلہ پس پشت چلا جائے گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ  7/11 بم دھماکوں کے اصل مجرم اب بھی قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ ان دھماکوں میں 189 افراد جاں بحق اور 800 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متاثرین کے ساتھ انصاف کرے۔ ان دھماکوں میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ کو انصاف اور سکون چاہیئے جو 19 سال بعد بھی میسر نہیں آسکا ہے۔ ہائی کورٹ کے 671 صفحات پر مشتمل فیصلے نے استغاثہ کی مکمل ناکامی کو ظاہر کر دیا ہے۔ اس کے بعد اب یہ سوال بدستور قائم ہے کہ اس خوفناک جرم کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپنا وقت اور وسائل سپریم کورٹ میں اپیل کرکے ضائع نہ کرے بلکہ دھماکوں کی ازسرنو اور سنجیدہ تفتیش کرے تاکہ اصل مجرموں کو گرفتار کیا جا سکے۔ یہی قانون کی بالادستی اور عوام کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ ملک معتصم خان نے عدالتی نظام میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 19 سال کے بعد بے قصوروں کی رہائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی تفتیش میں کتنی سنگین کوتاہیاں موجود ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • نومئی کیس میں 10، 10سال کی سزا پانے والے پی ٹی آئی رہنماوں کا ردعمل سامنے آگیا
  • 9 مئی کیس میں 10، 10 سال کی سزا پانے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کا ردعمل سامنے آگیا
  • جنوبی ایشیا میں زندان میں تخلیق پانے والے ادب کی ایک خاموش روایت
  • سپریم کورٹ: چیف لینڈ کمشنر پنجاب بنام ایڈمنسٹریٹو اوقاف ڈیپارٹمنٹ بہاولپور کیس کا فیصلہ جاری
  • ’’پی ٹی آئی رہنماؤں کو سزائیں قانون کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر دی گئیں‘‘
  • نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر
  • پانی کے ریلے میں بہہ جانے والے کرنل (ر) اسحاق، ان کی  25 سالہ بیٹی کی تلاش کے لیے آپریشن جاری
  • روسی سپریم کورٹ کی چیف جسٹس 72 برس کی عمر میں چل بسیں
  • کسی اپیل کے زیر التوا ہونے سے چیلنج شدہ فیصلے پر عملدرآمد رک نہیں جاتا، سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے بجائے اصل مجرموں کو گرفتار کیا جائے، ملک معتصم خان