اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیٹکو میں غیر مقامی افراد کی بھرتیوں پر پابندی عائد کر دی
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
عدالت نے سماعت کے بعد غیر مقامی افراد کی بھرتیوں پر پابندی سے متعلق حکم امتناعی کو برقرار رکھا اور نیٹکو انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ ان غیر مقامی افراد کی تفصیلات عدالت میں جمع کرائیں جو اس ادارے میں بھرتی کیے گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن (نیٹکو) میں غیر مقامی افراد کی بھرتیوں پر پابندی عائد کر دی جبکہ کوئی تقرری پہلے سے کی گئی ہے تو وہ عدالت کے حتمی فیصلے سے مشروط ہو گی۔ آل پاکستان پیپلز ورکر یونین نیٹکو کے جنرل سیکرٹری ملک عبادت خان کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نیٹکو گلگت بلتستان حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہے اور اس ادارے میں کسی بھی تقرری گلگت بلتستان آرڈر 2009ء کے تحت ہونی چاہیے جس میں گریڈ 17 سے نیچے پوسٹوں پر مقامی افراد کو ہی بھرتی کیا جانا ہے۔ جہاں تک دیگر عہدوں کا تعلق ہے، ان پر تقرری مقامی آبادی میں سے ہی ہونی چاہیے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے مستان ولی خان ایڈووکیٹ جبکہ نیٹکو کی جانب سے حیدر زمان اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سرفراز رؤف پیش ہوئے۔ عدالت نے سماعت کے بعد غیر مقامی افراد کی بھرتیوں پر پابندی سے متعلق حکم امتناعی کو برقرار رکھا اور نیٹکو انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ ان غیر مقامی افراد کی تفصیلات عدالت میں جمع کرائیں جو اس ادارے میں بھرتی کیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن (نیٹکو) کو 1974ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے قائم کیا تھا۔ اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد شمالی علاقہ جات میں مواصلاتی سہولیات اور سامان کی ترسیل کو بہتر بنانا تھا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائیکورٹ
پڑھیں:
غیرقانونی بھرتیوں کا الزام؛ چیئرمین پی اے آر سی کی درخواستِ ضمانت مسترد
اسلام آباد:
ایف آئی اے کی عدالت نے غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں گرفتار چیئرمین پی اے آر سی ڈاکٹر غلام محمد علی کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔
اسپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند نے ڈاکٹر غلام محمد علی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا۔
قبل ازیں، درخواست پر سماعت کے دوران وکیل ریاست علی آزاد نے دلائل میں کہا کہ وقوعہ 2022 کا ہے جبکہ یف آئی آر 2025 میں ہوئی، 168 ملازمین بغیر اشتہار بھرتی کا الزام ہے اور آفیشل پوزیشن کے غیر قانونی استعمال کا الزام ہے۔ تین سال کے بعد ڈاکٹر غلام محمد علی اور دیگر ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔
وکیل صفائی نے کہا کہ ڈاکٹر غلام محمد علی چیئرمین پی اے آر سی ہیں، مکمل کیریئر میں کوئی کمپلینٹ ڈاکٹر غلام محمد علی پر نہیں ہے۔ ڈاکٹر غلام محمد علی پر پہلے استعفے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، جب وہ نہیں مانے تو ایف آئی درج کروا دی گئی۔ پی اے آر سی کے تمام افیئرز بورڈ آف گورنرز دیکھتا ہے، پراسیکیوشن کی جانب سے کرپشن سے متعلق ایک بھی کاغذ ریکارڈ پر نہیں لایا جا سکا۔
ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ 164 پوسٹوں کا اشتہار دیا اور 332 افراد بھرتی کیے گئے، 70 لوگوں کا ڈائریکٹ تعلق چیئرمین اور پی اے آر سی اور کونسل کے لوگوں کے ساتھ ہے، 70 لوگوں کی بھرتی گھر سے ہی کر لی گئی۔
وکیل ریاست علی آزاد نے کہا کہ چیئرمین پی اے آر سی ممبر سلیکشن کمیٹی نہیں ہیں، کیا چیئرمین کا رشتہ دار ہے تو کیا وہ بھرتی میں حصہ نہیں لے سکتا؟ کیا جعل سازی چیئرمین پی اے آر سی کے خلاف ثابت ہوئی؟ ڈاکٹر غلام محمد علی کا بھرتیوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ عدالت سے استدعا ہے کہ انکوائری کا کیس ہے، ڈاکٹر غلام محمد علی کی ضمانت منظور کی جائے۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ پی اے سی کی ڈائریکشن پر ایف آئی آر درج ہوئی۔
ایف آئی اے کی عدالت نے دلائل سننے کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا، عدالت نے کچھ دیر بعد فیصلہ سناتے ہوئے ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔
Tagsپاکستان