امن کاری: صنفی اختیار اجاگر کرنے پر دو خواتین افسر ایوارڈ کی حقدار قرار
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 29 مئی 2025ء) 2024 میں موسم گرما کے آغاز پر گھانا کی سکواڈرن لیڈر شیرون سیمی سوڈان اور جنوبی سوڈان کے درمیان متنازع علاقے ابیی کے شمالی حصے میں گئیں جہاں وہ اقوام متحدہ کی عبوری امن فورس (یونیسفا) کے ساتھ صنفی افسر کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔
وہاں اپنے غیرفوجی عملے کے چند ارکان کے ساتھ ان کی ملاقات مقامی مردوخواتین سے ہوئی۔
اس دوران انہیں کچھ عجیب سی صورتحال کا احساس ہوا۔ انہوں نے یو این نیوز کو اپنے اس دورے کے بارے میں بتایا کہ ان لوگوں میں شامل خواتین کوئی بات نہیں کر رہی تھیں۔ بعد میں انہیں اندازہ ہوا کہ مقامی رواج کے تحت خواتین لوگوں کے درمیان بات نہیں کرتیں۔ Tweet URLشیرون نے ایک الگ ملاقات میں ان سے کہا وہ بھی انہی جیسی خاتون ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہتی ہیں لیکن انہیں یہ علم نہیں کہ یہ مدد کیسے کی جائے۔
(جاری ہے)
انہوں نے ان خواتین سے یہ بھی پوچھا کہ ان کے مسائل کیا ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ انہیں کیسی مدد کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ آج منائے جانے والے امن کاری کے عالمی دن پر مقامی لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے اور صنفی مساوات و اختیار کو فروغ دینے کے غیرمتزلزل عزم پر دو خواتین امن کاروں کو اعزاز دے رہا ہے جنہوں نے اس کام میں قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے امن و استحکام کے لیے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
امسال یہ اعزاز پانے والی خواتین میں شیرون سیمی بھی شامل ہیں جنہیں اقوام متحدہ کی 'ملٹری جینڈر ایڈووکیٹ' قرار دیا گیا ہے۔
امن کاری کے لیے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل ژاں پیئر لاکوا نے کہا ہے کہ سیمی کی لگن نے ناصرف 'یونیسفا' کی کارروائیوں کو مزید موثر بنایا بلکہ یہ یقینی بنانے میں بھی مدد دی کہ مشن ان لوگوں کی ضروریات اور خدشات کو بہتر طور پر سمجھ سکے جن کے لیے وہ خدمات انجام دیتا ہے۔
یہ اعزاز پانے والی دوسری خاتون سیرالیون سے تعلق رکھنے والی محکمہ پولیس کی چیف سپرنٹنڈنٹ زینب مبالو گبلا ہیں جنہیں 'یونیسفا' کے لیے ان کی خدمات پر سال کی بہترین پولیس افسر قرار دیا گیا ہے۔
انڈر سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ چیف سپرنٹنڈنٹ گبلا نے زندگیوں میں بہتر لانے اور مستقبل متشکل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے کام کی بہترین مثال پیش کی ہے۔
صنف اور امن کاریاقوم متحدہ کی جانب سے سال کی بہترین پولیس افسر کا اعزاز دیے جانے کا سلسلہ 2011 میں شروع ہوا اور اس سے پانچ برس کے بعد 'ملٹری جینڈر ایڈووکیٹ' کا اعزاز دینے کا اعلان کیا گیا۔
یہ دونوں اعزازات ایسے امن کاروں کی خدمات کے اعتراف میں دیے جاتے ہیں جن کے کام سے امن کاری میں صنفی نقطہ نظر اور خواتین کی بااختیاری کو نمایاں طور سے شامل کرنے میں مدد ملی ہو۔
2000 میں سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں امن کاری اور امدادی اقدامات میں خواتین کے اہم کردار کی توثیق کی گئی۔ اس کے بعد اقوام متحدہ نے امن کاری میں صنفی نقطہ نظر کو پوری طرح شامل کرنے کے لیے بہت سا کام کیا۔
شیرون سیمی کےمطابق، تمام امن کاروں کو قیام امن کی کارروائیوں میں روزانہ کی بنیاد پر صنفی پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
جس جگہ قیام امن کی کارروائی جاری ہو وہاں صںفی حرکیات کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ بصورت دیگر درست سمت میں اقدامات کرنا ممکن نہیں ہوتا۔عالمگیر میراثگبلا کو اپنے ملک سیرالیون میں تباہ کن جنگ کے بعد شہری کی حیثیت سے امن کاری کے اثرات کا خود تجربہ ہو چکا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس دوران انہوں نے دنیا بھر کے ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنے ملک میں آ کر قیام امن کا کام کرتے دیکھا اور عزم کیا کہ ایک دن وہ خود بھی یہی کام کریں گی۔
'یونیسفا' میں صنفی افسر کے طور پر کام کرتے ہوئے انہوں نے ایک سکول پروگرام اور خواتین کی رہنمائی کا ایک نیٹ ورک شروع کیا۔ علاوہ ازیں، وہ فنون لطیفہ اور بصری نمونوں کے ذریعے اس کام کو دلچسپ بنانے کے لیے بھی انتھک محنت کرتی رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہےکہ ابیی کی خواتین کام کرنے اور امن قائم ہونے کی صورت میں عملی زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں۔
مسلح تنازع ختم ہو جائے تو بچے بھی سکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ابیی میں کامیاب طبی مہمابیی کے شمالی حصے میں خواتین کے ساتھ شیرون سیمی کی ملاقات علاقے میں ایک کامیاب طبی مہم کا نقطہ آغاز تھی جس میں نوعمری کی شادی اور لڑکیوں کے جنسی اعضا کی بریدگی جیسے مسئلےپر بات کی گئی۔ اس مہم میں مرد و خواتین دونوں کو شامل کیا گیا۔
شیرون کہتی ہیں کہ وہ مقامی لوگوں کے مرد رہنماؤں کے ردعمل سے بے حد متاثر ہوئیں جنہیں اس مہم کے ذریعے ادراک ہوا کہ یہ دونوں مسائل خواتین اور لڑکیوں کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں۔ ان رہنماؤں نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی ثقافتی رسوم و رواج پر نظرثانی اور ان کا خاتمہ کریں گے۔
یہ مہم جون 2024 میں شروع کی گئی اور اس کے نتیجے میں 'یونیسفا' کے ساتھ کام کرنے والے 1,500 سے زیادہ اہلکاروں کو صنفی تناظر میں امن کاری کی تربیت دی گئی۔
امن کاری اور خواتین کی بااختیاریسیمی اور گبلا دونوں یہ سمجھتی ہیں کہ مستقبل میں امن کاری اور سلامتی کے کام کو صنفی تناظر اور خواتین کی بااختیاری سے علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر امن کاروں کو کسی جگہ کی صنفی حرکیات کا اندازہ نہ ہو، اگر کسی کو علم نہ ہو کہ وہاں سرکردہ لوگ کون ہیں اور کوئی یہ نہ جانتا ہو کہ آپ کے کام سے کسے کیا فائدہ ہو گا تو امن کاری موثر نہیں ہو گی۔
گبلا نے یہ اعزاز ملنے پر اقوام متحدہ کی امن کار خواتین کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کام میں شامل ہر خاتون کو الگ طرح کے مسائل کا سامنا رہتا ہے لیکن ان کا اجتماعی مقصد ایک ہی ہے یعنی امن کا فروغ اور کمزور لوگوں کا تحفظ۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اور خواتین کی اقوام متحدہ امن کاروں انہوں نے کاروں کو امن کاری متحدہ کی کے ساتھ امن کا کے لیے کے کام ہیں کہ
پڑھیں:
علیمہ خان کا انڈوں سے حملہ کرنے والی خواتین کے بارے میں بڑا انکشاف
بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان کا کہنا ہے کہ مجھ پر انڈوں سے حملہ کرنے کا واقعہ اسکرپٹڈ تھا، جن 2 خواتین نے مجھ پر انڈا پھینکا ان کو پولیس نے بچایا۔ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولیس نے کہا کہ دونوں خواتین کو حراست میں لیا گیا ہے بعد میں دونوں کو چھوڑ دیا گیا۔ علیمہ خان کا کہنا تھا کہ دو سال سے ہم جیل آتے ہیں کبھی کوئی بدتمیزی کا واقعہ پیش نہیں آیا، دو چار لوگوں کو باقاعدہ طور پر اب ماحول خراب کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پولیس نے بتایا 4 بندے بدتمیزی کرنے کے لیے آپ کے پیچھے ہیں، کسی کی بھی ماں بیٹی پر اس طرح حملہ ہوگا کوئی برداشت نہیں کرے گا، ہمارا معاشرہ اور دین خواتین سے اس طرح کی بدتمیزی کی اجازت نہیں دیتا۔ ان کا کہنا تھا کہ کل بھی ہمارے ساتھ جیل کے باہر اسی خاتون نے بدتمیزی کی کوشش کی جس نے انڈا پھینکا، جیل کے باہر کل ہمارے اوپر کسی نے پتھر بھی مارے، پہلے انڈا پھینکا، پھر بدتمیزی کی، کل پتھر مارے اب چھرا بھی مار سکتے ہیں۔ علیمہ خان نے کہا کہ ہمارا کام بانی پی ٹی آئی کا پیغام پہنچانا ہے وہ ہم پہنچائیں گے، ہم پر حملہ ہوا ہماری ایف آئی آر پولیس درج نہیں کر رہی۔ ہمارے وکلاء جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل اے ٹی سی منتقل کرنے کے نوٹیفکیشن کو چیلنج کریں گے۔ قانون اور انصاف تو یہاں ہے نہیں، یہ بانی پی ٹی آئی کی آواز بند کرنا چاہتے ہیں۔