Islam Times:
2025-07-25@12:02:57 GMT

امریکی ٹیکس دہندگان کا اعتراض

اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT

امریکی ٹیکس دہندگان کا اعتراض

اسلام ٹائمز: امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکہ نے حماس کیخلاف استعمال کرنے کیلئے اسرائیلی فوج کو لاکھوں کی تعداد میں گولے فراہم کئے ہیں۔ طوفان الاقصیٰ کے فوراً بعد 15 ہزار بم اور 75 ہزار گولے فراہم کئے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور گذشتہ روز آٹھ سواں ہتھیاروں سے لدا جہار تل ابیب پہنچا ہے۔ بہرحال امریکہ کے ٹیکس دینے والے شہری اس بات میں حق بجانب ہیں کہ انکے ٹیکسوں کو غزہ کے بچوں کو قتل کرنے کیلئے کیوں استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ نے بھی جوبائیڈن کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے اسرائیل کے جنگی ساز و سامان میں ذرہ برابر کمی نہیں آنے دی، آئندہ بھی یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

غزہ کی جنگ اپنے 20ویں مہینے میں داخل ہو رہی ہے، امریکہ میں انسانی حقوق کی تنظیمیں صیہونی حکومت کے لیے امریکی حکومت کی مالی اور فوجی مدد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے فلسطینیوں کی نسل کشی کا ایک عنصر قرار دے رہی ہیں۔ ٹیکس پیئرز اگینسٹ جینوسائیڈ (TAG) نے نیشنل بار ایسوسی ایشن کی بین الاقوامی کمیٹی کے ساتھ مل کر بین الامریکن کمیشن برائے انسانی حقوق کے پاس ایک قانونی شکایت درج کرائی ہے، جس میں امریکی حکومت پر غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی نسل کشی کی جنگ کی حمایت کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس تاریخی شکایت میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی نسل پرست حکومت کے لیے امریکی فوجی اور مالی مدد نے غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے قتل میں براہ راست کردار ادا کیا ہے۔ 133 صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں فلسطینی نژاد امریکیوں کی سرکاری شہادتیں شامل ہیں، جنہوں نے غزہ میں جاری نسل کشی کی جنگ کے دوران اپنے خاندان کے افراد کو کھو دیا۔

یہ مسئلہ نہ صرف غزہ میں انسانی بحران پر روشنی ڈال رہا ہے، بلکہ اسرائیل کے کلیدی حامی کے طور پر امریکہ کے کردار اور بین الاقوامی سیاست اور انسانی حقوق پر اس کے اثر و رسوخ کی بھی نشاندہی کر رہا ہے۔ زیادہ تر اسرائیلی حملے امریکی ہتھیاروں سے ہوتے ہیں۔ اسرائیل کے لیے امریکی اسلحے کی امداد، بشمول بنکروں کو تباہ کرنے والے بم اور دیگر فوجی سازوسامان نے حملوں کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔ اسرائیل کے لیے امریکا کی غیر مشروط حمایت سے ملکی حکومت پر تنقید میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ امریکی حکام کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور غزہ میں نسل کشی کی حمایت کرنے پر جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ یہ صورتحال امریکہ میں سیاسی تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے اور حکومت پر اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔

غزہ میں صہیونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکہ کے کردار کی دنیا بھر میں مذمت کی جا ریی ہے۔ فلسطینی عوام کی حالت زار اور امدادی سامان کی فراہمی میں رکاوٹ پر امریکہ کے اندر سے بھی صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے۔ معروف امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے واشنگٹن کی غزہ جنگ سے متعلق پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی شراکت اور غزہ میں ایک خوفناک انسانی المیے میں واشنگٹن کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ انہوں نے امریکی کانگریس سے فوری اقدام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کو چاہیئے کہ وہ فوری طور پر غزہ میں نیتن یاہو کی جنگی مشین کی مالی معاونت بند کرے۔ جنگ کے ابتدائی روز ہی امریکہ نے صہیونی حکومت کے لئے 14 ارب ڈالر کی خطیر امدادی رقم منظور کرلی، جس میں سے 4 ارب ڈالر سے زائد کا آئرن ڈوم اور اور ایک ارب ڈالر سے فضائی دفاع کے دیگر آلات فراہم کئے گئے۔

امریکہ سے ملنے والے 14 ارب ڈالر غزہ کے خلاف جنگ میں اسرائیلی بجٹ کا ایک تہائی فیصد ہے۔ اسرائیل کو غزہ کے خلاف جنگ میں 50 ارب ڈالر کی بجٹ کی ضرورت ہے۔ اس طرح امریکہ نے صہیونی حکومت کی بڑی دفاعی مدد کی ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکہ نے حماس کے خلاف استعمال کرنے کے لئے اسرائیلی فوج کو لاکھوں کی تعداد میں گولے فراہم کئے ہیں۔ طوفان الاقصیٰ کے فوراً بعد 15 ہزار بم اور 75 ہزار گولے فراہم کئے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور گذشتہ روز آٹھ  سواں ہتھیاروں سے لدا جہار تل ابیب پہنچا ہے۔ بہرحال امریکہ کے ٹیکس دینے والے شہری اس بات میں حق بجانب ہیں کہ ان کے ٹیکسوں کو غزہ کے بچوں کو قتل کرنے کے لیے کیوں استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ نے بھی جوبائیڈن کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے اسرائیل کے جنگی ساز و سامان میں ذرہ برابر کمی نہیں آنے دی، آئندہ بھی یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیل کے امریکہ نے امریکہ کے ارب ڈالر یہ سلسلہ حکومت کے کے ٹیکس کے خلاف غزہ کے رہا ہے کی جنگ کے لیے کی نسل

پڑھیں:

اسرائیل کی حمایت میں امریکا کا ایک بار پھر یونیسکو چھوڑنے کا اعلان

امریکا نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو (UNESCO) سے دوبارہ علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ 

امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ یونیسکو اسرائیل کے خلاف تعصب رکھتا ہے اور عالمی سطح پر ’’تقسیم پیدا کرنے والے‘‘ سماجی و ثقافتی ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ یونیسکو میں رہنا "امریکی قومی مفاد میں نہیں" ہے۔ یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں بھی کیا تھا، لیکن جو بائیڈن کے دور میں امریکا دوبارہ یونیسکو کا رکن بن گیا تھا۔ 

اب ٹرمپ کی واپسی کے بعد ایک بار پھر امریکا کا ادارے سے نکلنے کا اعلان سامنے آیا ہے، جو دسمبر 2026 میں مؤثر ہو گا۔

یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ملٹی لیٹرلزم (کثیر الجہتی تعاون) کے اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ فیصلہ متوقع تھا اور ادارہ اس کے لیے تیار ہے۔

یونیسکو نے کہا کہ امریکی انخلا کے باوجود ادارے کو مالی طور پر بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ گزشتہ دہائی میں امریکا کی بجٹ میں شراکت 20 فیصد سے کم ہو کر اب 8 فیصد رہ گئی ہے۔

امریکا نے یونیسکو پر الزام لگایا ہے کہ اس نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرکے اسرائیل مخالف بیانیہ بڑھایا ہے اور مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی ثقافتی مقامات کو عالمی ورثہ قرار دینا بھی امریکی پالیسی کے خلاف ہے۔

اسرائیل نے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، جب کہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے یونیسکو کی مکمل حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

یاد رہے کہ امریکا اس سے پہلے بھی 1980 کی دہائی میں ریگن حکومت کے تحت یونیسکو سے نکل چکا ہے، اور 2000 کی دہائی میں صدر بش کے دور میں دوبارہ شامل ہوا تھا۔

 

متعلقہ مضامین

  • دنیا  امریکہ کی اداروں اور معاہدوں سے’’ دستبرداری‘‘کی عادی ہو گئی ہے، سی جی ٹی این کا سروے
  • کینیڈا کا فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرنے کا فیصلہ
  • اسحٰق ڈار واشنگٹن پہنچ گئے، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے آج اہم ملاقات طے
  • امریکہ و اسرائیل امن کیبجائے فلسطین کی نابودی کے درپے ہیں، سید عبدالمالک الحوثی
  • امریکہ کو اب فینٹانل کا سیاسی تماشہ بند کرنا چاہیے ، چینی میڈیا
  • سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا سکردو میں "حسین سب کا" کانفرنس سے خطاب
  • یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے
  • امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا
  • اسرائیل کی حمایت میں امریکا کا ایک بار پھر یونیسکو چھوڑنے کا اعلان
  • امریکہ کی ایکبار پھر ایران کو براہ راست مذاکرات کی پیشکش