امریکی ٹیکس دہندگان کا اعتراض
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکہ نے حماس کیخلاف استعمال کرنے کیلئے اسرائیلی فوج کو لاکھوں کی تعداد میں گولے فراہم کئے ہیں۔ طوفان الاقصیٰ کے فوراً بعد 15 ہزار بم اور 75 ہزار گولے فراہم کئے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور گذشتہ روز آٹھ سواں ہتھیاروں سے لدا جہار تل ابیب پہنچا ہے۔ بہرحال امریکہ کے ٹیکس دینے والے شہری اس بات میں حق بجانب ہیں کہ انکے ٹیکسوں کو غزہ کے بچوں کو قتل کرنے کیلئے کیوں استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ نے بھی جوبائیڈن کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے اسرائیل کے جنگی ساز و سامان میں ذرہ برابر کمی نہیں آنے دی، آئندہ بھی یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
غزہ کی جنگ اپنے 20ویں مہینے میں داخل ہو رہی ہے، امریکہ میں انسانی حقوق کی تنظیمیں صیہونی حکومت کے لیے امریکی حکومت کی مالی اور فوجی مدد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے فلسطینیوں کی نسل کشی کا ایک عنصر قرار دے رہی ہیں۔ ٹیکس پیئرز اگینسٹ جینوسائیڈ (TAG) نے نیشنل بار ایسوسی ایشن کی بین الاقوامی کمیٹی کے ساتھ مل کر بین الامریکن کمیشن برائے انسانی حقوق کے پاس ایک قانونی شکایت درج کرائی ہے، جس میں امریکی حکومت پر غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی نسل کشی کی جنگ کی حمایت کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس تاریخی شکایت میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی نسل پرست حکومت کے لیے امریکی فوجی اور مالی مدد نے غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے قتل میں براہ راست کردار ادا کیا ہے۔ 133 صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں فلسطینی نژاد امریکیوں کی سرکاری شہادتیں شامل ہیں، جنہوں نے غزہ میں جاری نسل کشی کی جنگ کے دوران اپنے خاندان کے افراد کو کھو دیا۔
یہ مسئلہ نہ صرف غزہ میں انسانی بحران پر روشنی ڈال رہا ہے، بلکہ اسرائیل کے کلیدی حامی کے طور پر امریکہ کے کردار اور بین الاقوامی سیاست اور انسانی حقوق پر اس کے اثر و رسوخ کی بھی نشاندہی کر رہا ہے۔ زیادہ تر اسرائیلی حملے امریکی ہتھیاروں سے ہوتے ہیں۔ اسرائیل کے لیے امریکی اسلحے کی امداد، بشمول بنکروں کو تباہ کرنے والے بم اور دیگر فوجی سازوسامان نے حملوں کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔ اسرائیل کے لیے امریکا کی غیر مشروط حمایت سے ملکی حکومت پر تنقید میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ امریکی حکام کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور غزہ میں نسل کشی کی حمایت کرنے پر جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ یہ صورتحال امریکہ میں سیاسی تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے اور حکومت پر اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔
غزہ میں صہیونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکہ کے کردار کی دنیا بھر میں مذمت کی جا ریی ہے۔ فلسطینی عوام کی حالت زار اور امدادی سامان کی فراہمی میں رکاوٹ پر امریکہ کے اندر سے بھی صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے۔ معروف امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے واشنگٹن کی غزہ جنگ سے متعلق پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی شراکت اور غزہ میں ایک خوفناک انسانی المیے میں واشنگٹن کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ انہوں نے امریکی کانگریس سے فوری اقدام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کو چاہیئے کہ وہ فوری طور پر غزہ میں نیتن یاہو کی جنگی مشین کی مالی معاونت بند کرے۔ جنگ کے ابتدائی روز ہی امریکہ نے صہیونی حکومت کے لئے 14 ارب ڈالر کی خطیر امدادی رقم منظور کرلی، جس میں سے 4 ارب ڈالر سے زائد کا آئرن ڈوم اور اور ایک ارب ڈالر سے فضائی دفاع کے دیگر آلات فراہم کئے گئے۔
امریکہ سے ملنے والے 14 ارب ڈالر غزہ کے خلاف جنگ میں اسرائیلی بجٹ کا ایک تہائی فیصد ہے۔ اسرائیل کو غزہ کے خلاف جنگ میں 50 ارب ڈالر کی بجٹ کی ضرورت ہے۔ اس طرح امریکہ نے صہیونی حکومت کی بڑی دفاعی مدد کی ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکہ نے حماس کے خلاف استعمال کرنے کے لئے اسرائیلی فوج کو لاکھوں کی تعداد میں گولے فراہم کئے ہیں۔ طوفان الاقصیٰ کے فوراً بعد 15 ہزار بم اور 75 ہزار گولے فراہم کئے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور گذشتہ روز آٹھ سواں ہتھیاروں سے لدا جہار تل ابیب پہنچا ہے۔ بہرحال امریکہ کے ٹیکس دینے والے شہری اس بات میں حق بجانب ہیں کہ ان کے ٹیکسوں کو غزہ کے بچوں کو قتل کرنے کے لیے کیوں استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ نے بھی جوبائیڈن کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے اسرائیل کے جنگی ساز و سامان میں ذرہ برابر کمی نہیں آنے دی، آئندہ بھی یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیل کے امریکہ نے امریکہ کے ارب ڈالر یہ سلسلہ حکومت کے کے ٹیکس کے خلاف غزہ کے رہا ہے کی جنگ کے لیے کی نسل
پڑھیں:
پاک بھارت تنازعات، امریکی کردار جاری رہے گا : رضوان سعید شیخ نے واضح کردیا
واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن ) امریکہ میں سفیر پاکستان رضوان سعید شیخ نے توقع ظاہر کی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاک بھارت تصفیہ طلب معاملات حل کرنے کیلئے اپنا کردار جاری رکھے گی۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق امریکی تھنک ٹینک سے بات کرتے ہوئے سفیر پاکستان نے کہا کہ حالیہ پاک بھارت جنگ بندی میں امریکہ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جنگ بندی کی شرائط کی تفصیل بتاتے ہوئے سفیر پاکستان نے کہا کہ ان میں کشمیر، دہشت گردی اور سندھ طاس سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر بات چیت پر آمادگی شامل تھی۔
سفیر پاکستان نے کہا کہ بھارتی جارحانہ بیانات کے تسلسل کے سبب پاک بھارت جنگ بندی کمزور ہے اور اس کے برقرار رہنے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔رضوان سعید شیخ نے کہا کہ پاکستان کو توقع ہے کہ امریکی حکومت ان تصفیہ طلب معاملات میں پیش رفت کے حوالے سے توجہ اور کردار جاری رکھے گی۔
ایک سوال پر سفیر رضوان سعید شیخ نے کہا کہ پاکستان “نئے معمول” کے نظریے کو مسترد کرتا ہے۔ جوہری ماحول میں غیر ذمہ دارانہ رویہ تباہ کن اثرات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عوامی دباو¿ کے باوجود پاکستان نے 10 مئی 2025 کو تحمل کا مظاہرہ کیا مگر ایسا صبر ہمیشہ ممکن نہیں ہوگا۔مستقبل میں کسی بھارتی جارحیت کا جواب تحمل سے نہیں بلکہ بھرپور طاقت سے دینا ہوگا تاکہ "نئے معمول" کے تصور ہی کو ختم کردیا جائے۔
یوم تکبیر کا حوالہ دیتے ہوئے سفیر پاکستان کا کہنا تھا کہ جوہری صلاحیت نے روایتی فوجی عدم توازن کو متوازن کرکے تنازعات کی شدت اور امکانات کو کم کیا ہے۔مسئلہ کشمیر سے متعلق سوال پر سفیر پاکستان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کوئی تاریخ تنسیخ نہیں ہوتی۔اقوام متحدہ کی قراردادیں آج بھی اتنی اہم اور مسلمہ ہیں جتنی آج سے 70 سال پہلے تھیں۔بھارت نے 2019 میں آرٹیکل 370 ختم کر کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 122 کی خلاف ورزی کی جو یکطرفہ اقدامات کو رد کرتی ہے۔
رضوان سعید شیخ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت ہے۔ یہی نہیں بھارتی پارلیمنٹ میں "اکھنڈ بھارت" کا نقشہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ، کینیڈا اور دیگر ملکوں میں غیر قانونی دہشت گردانہ کارروائیاں اور مبینہ ہلاکتیں عالمی برادری کی توجہ اور احتساب کی متقاضی ہیں۔ پاکستان اپنی مزاحمتی صلاحیت کو سفارتی طور پر مضبوط کررہا ہے تاکہ بھارت کے بیانیے کو چیلنج کر کے عالمی سطح پر اس کی کارروائیوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔
سفیر پاکستان نے کہا کہ امریکہ اور عالمی برادری بھارت کو بین الاقوامی اصولوں کا پابند بنائے تاکہ خطے کو ممکنہ بحرانوں سے بچایا جا سکے۔
عیدالاضحیٰ کی تعطیلات ، وفاقی بجٹ کی تاریخ میں پھر تبدیلی کا امکان
مزید :