بلوچستان کی صحافی خواتین: ہمت، جدوجہد اور تبدیلی کی کہانی
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
بلوچستان میں صحافت سے وابستہ خواتین نہ صرف میدان میں کام کے چیلنجز کا سامنا کرتی ہیں بلکہ اداروں کے اندر صنفی امتیاز، معاشرتی دباؤ اور تحفظات کی کمی ان کے سفر کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔
ہراسانی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے مؤثر نظام کی عدم موجودگی اکثر خواتین کو خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
سعدیہ جہانگیر گزشتہ 15 برس سے کوئٹہ میں صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور اس وقت ’پبلک نیوز‘ میں بطور بیورو چیف خدمات انجام دے رہی ہیں، کہتی ہیں:
’میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کو روز یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ انہیں کام کرنا آتا ہے‘۔
تعلیمی چیلنجز اور پیشہ ورانہ سفربلوچستان میں خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنا ہمیشہ ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ 2024 کے سینیٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق:
پاکستان میں شرح خواندگیصوبہ | شرح |
پنجاب | 66. 3% |
سندھ | 61.8% |
خیبر پختونخوا | 55.1% |
بلوچستان | 54.5% |
جنس کی بنیاد پر شرح خواندگی
جنس | شرح |
مرد (مجموعی) | 73.4% |
خواتین (مجموعی) | 51.9% |
بلوچستان میں مرد | 69.5% |
بلوچستان میں خواتین | 36.8% |
بلوچستان میں تعلیم نسواں
زمرہ | شرح |
مجموعی تعلیم نسواں | 18% |
دیہی علاقوں میں تعلیم نسواں | 2%+ |
سعدیہ کہتی ہیں کہ انہوں نے صحافت کا انتخاب اس لیے کیا تاکہ وہ ان لوگوں کی آواز بن سکیں جن کی آوازیں اکثر دب جاتی ہیں۔ لیکن قبائلی جھگڑوں، بم دھماکوں کی کوریج اور معاشرتی پابندیوں نے ان کے حوصلے کو کئی بار آزمایا۔
میدان کی خطرناک کوریجسعدیہ 2019 کے ایک بم دھماکے کی رپورٹنگ کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں:
’پولیس نے علاقے کو محفوظ قرار نہیں دیا تھا، پھر بھی ہمیں بھیجا گیا۔ جیسے ہی ہم پہنچے، ایک اور دھماکہ ہوا۔ اُس لمحے لگا کہ شاید یہ میری زندگی کا آخری لمحہ ہے‘۔
صنفی امتیاز اور ادارتی رویےسعدیہ کا کہنا ہے کہ صحافتی اداروں میں خواتین کو اکثر مرد ساتھیوں سے کم تنخواہ دی جاتی ہے، اور ان کی رپورٹس نظرانداز کر دی جاتی ہیں۔
’بلوچستان کے 32 اضلاع میں صرف 2 خواتین بیورو چیف ہیں۔ آج بھی ہمیں برابر مواقع نہیں دیے جاتے‘۔
معاشرتی رکاوٹیںبلوچ معاشرہ خواتین کو گھر سے باہر کام کرنے پر شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ سعدیہ کہتی ہیں:
’لوگ کہتے ہیں کہ مجھے گھر میں ہونا چاہیے، لیکن میں آج بھی انہی کے ساتھ کھڑی ہوں جو معاشرے کی بہتری چاہتے ہیں‘۔
ذہنی دباؤ اور خطراتعطیہ اکرم، جو گزشتہ 19 سال سے اے آر وائے میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، کہتی ہیں:
’جب ہم عوامی مقامات پر رپورٹنگ کرتے ہیں تو لوگ ہمیں غیر سنجیدہ اور غیر پیشہ ور سمجھتے ہیں‘۔
عطیہ کہتی ہیں کہ انہیں خواتین کی صحت پر رپورٹنگ کی وجہ سے مقامی حکام اور گروہوں کی جانب سے دباؤ اور دھمکیاں دی گئیں۔
’کئی بار کہا گیا کہ رپورٹنگ روک دوں، لیکن میں نے اپنا کام جاری رکھا‘۔
صحافتی دائرہ محدوداقصیٰ میر، جنہوں نے بلوچستان میں ماحولیاتی مسائل پر رپورٹنگ کی، کہتی ہیں کہ غیر قانونی کان کنی اور ماحولیاتی نقصان کو اجاگر کرنے پر انہیں مافیا کی جانب سے دھمکیاں ملیں، جس کے بعد انہوں نے صحافت چھوڑ دی۔
جنسی ہراسانی اور قانونی تحفظ کی کمی‘Protection against Harassment of Women at Workplace Act, 2010’ کے مطابق ہر ادارے میں ہراسانی کے خلاف کمیٹی قائم ہونا لازم ہے، لیکن بیشتر میڈیا ادارے اس قانون پر عملدرآمد نہیں کرتے، جس کی وجہ سے خواتین کے لیے محفوظ ماحول کی فراہمی ممکن نہیں ہو پاتی۔
عرفان سعید، ایک سینئر صحافی کے مطابق:
’ویج ایوارڈ کے تحت مرد و خواتین کی یکساں تنخواہیں ہونی چاہییں، لیکن اصل میں پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں‘۔
صحافتی جدوجہد اور دباؤسعدیہ جہانگیر کہتی ہیں کہ انہیں خواتین کے مسائل پر رپورٹنگ کی وجہ سے نہ صرف مقامی قبائل بلکہ سماجی حلقوں کی طرف سے بھی دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے اہل خانہ کو بھی نشانہ بنایا گیا، مگر وہ ڈٹی رہیں۔
ماہرین کی تجاویزشہزادہ ذوالفقار، سینئر صحافی اور سابق صدر بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کہتے ہیں:
’بلوچستان میں صحافت کرنے والی خواتین کی تعداد 20 سے 22 کے درمیان ہے، لیکن وہ تمام اہم موضوعات پر بہترین کام کر رہی ہیں‘
ان کے مطابق:
خواتین صحافیوں کے لیے تربیتی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے۔ میڈیا ہاؤسز میں ہراسانی کے خلاف مؤثر کمیٹیاں قائم کی جائیں۔ آن لائن ہراسانی کے خلاف الگ ڈیسک بنایا جائے۔ صحافیوں کی ذہنی صحت کے لیے معاونت مراکز قائم کیے جائیں۔ڈاکٹر غلام رسول، سربراہ شعبہ نفسیات بولان میڈیکل کالج:
’صحافیوں کی ذہنی صحت کے لیے حکومت کو تربیتی مراکز اور مشاورت کی سہولیات مہیا کرنی چاہیے‘۔
بلوچستان میں خواتین صحافیوں کو نہ صرف ادارتی اور معاشرتی رکاوٹوں کا سامنا ہے بلکہ وہ جان کے خطرات اور ذہنی دباؤ کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ ان کی بہادری قابل تحسین ہے، مگر اس شعبے میں ان کے تحفظ، ترقی اور برابری کے لیے مؤثر اور فوری اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان خواتین صحافی بلوچستان میں میں خواتین پر رپورٹنگ خواتین کو دباؤ اور کے مطابق رہی ہیں کام کر کے لیے
پڑھیں:
ارض کشمیر جنت نظیر کے عظم فرزند غنی بھٹ قضائے الٰہی سے وفات پا گئے
سٹی42: کشمیر کی آزادی کے لئے زندگی بھر بھارتی سامراج سے لڑنے اور طویل ترین جدوجہد کرنے والے ارض کشمیر جنت نظیر کے عظم فرزند غنی بھٹ قضائے الٰہی سے وفات پا گئے۔
پروفیسر غنی بھٹ کشمیر کی آزادی کی تحریک کے نا قابلِ شکست سرخیل تھے، انہوں نے بچپن سے مرتے دم تک آزادی کی جدوجہد میں پہلی صف میں رہ کر عدم تشدد کی تلاور سے پر امن لڑائی لری اور غاصب کو بد ترین شکستوں سے دوچار کئے رکھا۔
بلاول بھٹو زرداری کا اپنی سالگرہ سیلاب زدگان کے نام کرنے کا فیصلہ
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
ارضِ کشمیر اپنے جاں نثار اور جری فرزند سے محروم ہو گئی اورتحریکِ آزادیٔ کشمیر آج ایک عظیم کارکن سےمحروم ہو گئی، تحریک آزادی کے کارکن انتھک محنت کرنے اور کبھی سمجھوتہ نہ کرنے والے اوللعزم رہنما سے محروم ہوگئے۔
غنی بھٹ پہشہ کے لحاظ سے پروفیسر تھے، انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی جدوجہد کے کارزار میں قدم رکھ دیا تھا اور زندگی کے آخری دم تک غاصب کو سخت جدوجہد سے ناکوں چنے چبوائے۔
ایشیا کپ ٹی ٹوینٹی ٹورنامنٹ؛ پاکستان متحدہ عرب امارات میچ کا ٹاس ہو گیا
پروفیسر غنی بھٹ کل جماعتی حریت کانفرنس کے متحدہ پلیٹ فارم پر مادرِ وطن کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے تمام کشمیریوں کو متحد رکھنے والی عظیم قوتِ محرکہ تھے۔ وہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چئیر مین بھی رہے اور دوسری پوزیشنوں مین بھی خدمت کرتے رہے۔
پروفیسر عبدالغنی بھٹ کا انتقال سوپور میں ان کے گھر پر ہوا۔
پروفیسر بھٹ نے بے پناہ جدوجہد کر کے کشمیریوں کی کئی جنریشنوں میں آزادی کے شعور کو پروان چڑھایا، ان کی اپنی زندگی کے ساتھ ان کے سارے گھرانے کی زندگیاں کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی جدوجہد کے لیے وقف ہیں۔
سندھ اسمبلی کے سابق اسپیکر کی اچانک طبیعت ناساز ،آئی سی یو میں داخل
کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کے کارکنوں نے پروفیسر غنی بھٹ کی وفات پر کہا ہے کہ ان کی بلند سوچ، جرات مندانہ موقف اور سیاسی بصیرت کشمیری عوام کے لیے مشعلِ راہ رہے گی۔
پروفیسر غنی بھٹ کی وفات نہ صرف کشمیر ی قوم اور تحریکِ آزادی کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے بلکہ یہ پاکستان کے لئے بھی بہت بھاری نقصان ہے۔ پروفیسر غنی بھٹ پاکستان کے دیرینہ رفیق تھے،۔
Waseem Azmet