UrduPoint:
2025-07-24@02:11:06 GMT
ہمسایہ ملک کی اشتعال انگیزی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہے، اسحق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 مئی2025ء)نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحق ڈار نے کہا ہے کہ ہمارے مشرقی ہمسایہ ملک کی حالیہ بلا اشتعال ، بلاجواز فوجی جارحیت علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہے،جموں و کشمیر کا حل طلب تنازعہ جنوبی ایشیا میں تنازعات کا بنیادی ذریعہ بنا ہوا ہے،سندھ طاس معاہدے جیسے بین الاقوامی معاہدوں کو موخر کرکے نئی اور خطرناک مثالیں قائم کی جا رہی ہیں۔
ثالثی کی بین الاقوامی تنظیم (آئی او ایم ای ڈی) کی دستخطی تقریب سے خطاب میں اسحق ڈار نے کہا کہ ہمسایہ ملک نے بین الاقوامی برادری کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور کشیدگی میں کمی کے مطالبے کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے جارحیت کی، جموں و کشمیر کا حل طلب تنازعہ جنوبی ایشیا میں تنازعات کا بنیادی ذریعہ بنا ہوا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق اس دیرینہ تنازعہ کے فوری حل کی اشد ضرورت ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ ہمارا یقین ہے کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی سختی سے پاسداری، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلوص نیت سے نفاذ، اور بین الاقوامی قانون کے مطابق امن، سلامتی اور عالمی خوشحالی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔اسحق ڈار نے کہا کہ آج نسل نو کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانے کا خواب پہلے سے کہیں زیادہ دور دکھائی دیتا ہے،مقبوضہ جموں و کشمیر سے لے کر مقبوضہ فلسطینی علاقوں تک یہ دیرینہ تنازعات اور غیر ملکی قبضے کی صورتحال علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہے، اس وقت پاپولزم، الٹرا نیشنلزم کی یک طرفہ قوتیں پوری طرح سے متحرک ہیں۔وزیرخارجہ نے کہاکہ مکالمے اور ثالثی کے بجائے تنازعات اور تفرقہ انگیز بیان بازی شہ سرخیوں پر حاوی ہیں، کچھ لوگ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کی بھی بے دریغ خلاف ورزی کر رہے ہیں، یہ لوگ اپنے تنگ انتخابی فوائد اور تسلط پسند علاقائی عزائم کی قربان گاہ پر بین الاقوامی امن کو قربان کرنے کو تیار ہیں۔اسحق ڈار نے کہا کہ حال ہی میں ہم نے سفارتکاری، بین الاقوامی قانون اور ثالثی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے سنگین بحران دیکھے ہیں، 1960ء کے سندھ طاس معاہدے جیسے بین الاقوامی معاہدوں کو موخر کرکے، بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین اور انسانی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، نئی اور خطرناک مثالیں قائم کی جا رہی ہیں۔وزیر خارجہ نے کہاکہ عوامی جمہوریہ چین کے خصوصی انتظامی علاقے ہانگ کانگ میں بین الاقوامی ثالثی تنظیم (آئی او ایم ای ڈی) کے قیام سے متعلق کنونشن پر اس تاریخی دستخطی تقریب میں پاکستان کی نمائندگی میرے لیے باعث فخر ہے، عوامی جمہوریہ چین کو اس سنگ بنیاد تقریب کی میزبانی کرنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں، دستخطی تقریب بین الاقوامی ثالثی اور سفارتکاری کے دائرے میں ایک نئے دور کے آغاز کی علامت ہے۔اسحق ڈار نے کہا کہ پاکستان کو آئی او ایم ای ڈی کے بانی ارکان میں شامل ہونے پر فخر ہے، ہانگ کانگ کو نئی قائم شدہ تنظیم کے صدر دفتر کے طور پر منتخب کرنا بھی قابل تعریف ہے، ہانگ گانگ ایک سپر کنیکٹر اورسپر ویلیو ایڈر کے طور پر، مشرق کو مغرب سے ملانے والا متحرک شہر ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسحق ڈار نے کہا کہ بین الاقوامی
پڑھیں:
پاکستان کا 9 ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ 12.297 ارب ڈالر تک پہنچ گیا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 جولائی ۔2025 )پاکستان کا اپنے 9 قریبی ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ مالی سال 25-2024 میں 29.42 فیصد بڑھ کر 12.297 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو گزشتہ مالی سال میں 9.502 ارب ڈالر تھا رپورٹ کے مطابق اگرچہ پاکستان کی برآمدات میں افغانستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کی جانب قابل ذکر اضافہ دیکھا گیا، جو کہ خطے میں حالیہ سیاسی تبدیلیوں سے منسلک ہے، تاہم ان ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات گزشتہ چند برسوں سے حکومتی پابندیوں اور پالیسیوں کے باعث تناﺅ کا شکار رہے ہیں.(جاری ہے)
برآمدات میں اضافے کے باوجود مجموعی تجارتی خسارہ مزید بڑھ گیا جس کی بنیادی وجہ چین، بھارت اور بنگلہ دیش سے درآمدات میں نمایاں اضافہ ہے مالی سال 24-2023 میں ان ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ 9.506 ارب ڈالر تھا، جو کہ اس سے پچھلے سال 6.382 ارب ڈالر کے مقابلے میں 49 فیصد زیادہ تھا. اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 25-2024 میں جولائی تا جون پاکستان کی افغانستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کو برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا، جبکہ چین کو برآمدات میں کمی کا رجحان رہا افغانستان، چین، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت، ایران، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ سمیت 9 ممالک کو برآمدات کی مجموعی مالیت 1.49 فیصد اضافے سے 4.401 ارب ڈالر رہی، جو گزشتہ سال 4.336 ارب ڈالر تھی. دوسری جانب ان ممالک سے درآمدات 20.66 فیصد اضافے سے 16.698 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال 13.838 ارب ڈالر تھیں چین سے درآمدات 20.79 فیصد اضافے سے 16.312 ارب ڈالر ہو گئیں، جو گزشتہ سال 13.504 ارب ڈالر تھیں، مالی سال24-2023 میں بھی چین سے درآمدات میں 39.78 فیصد اضافہ ہوا تھا، ملک میں درآمدات کا بڑا حصہ چین سے آتا ہے، جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی محدود مقدار میں درآمدات کی جاتی ہیں. پاکستان کی چین کو برآمدات 8.6 فیصد کمی کے بعد 2.476 ارب ڈالر رہیں، جو پچھلے سال 2.709 ارب ڈالر تھیں بھارت سے درآمدات میں 6.61 فیصد اضافہ ہوا، جو 20 کروڑ 68لاکھ 90 ہزار ڈالر سے بڑھ کر مالی سال 25-2024 میں 22 کروڑ 5لاکھ 80 ہزار ڈالر تک پہنچ گئیں، مالی سال 25-2024 میں برآمدات صرف 14لاکھ 30 ہزار ڈالر رہیں، جو گزشتہ سال 36لاکھ 69 ہزار ڈالر تھیں. افغانستان کو برآمدات میں 38.68 فیصد اضافہ ہوا، جو 55 کروڑ 80لاکھ 30 ہزار ڈالر سے بڑھ کر 77 کروڑ 38 لاکھ 90 ہزار ڈالر ہو گئیں، درآمدات بھی 116.47 فیصد اضافے سے 2 کروڑ 58 لاکھ 90 ہزار ڈالر تک پہنچ گئیں، جو پچھلے سال ایک کروڑ 19 لاکھ 60 ہزار ڈالر تھیں، رواں مالی سال میں پاکستان نے افغانستان کو 7لاکھ ٹن سے زائد چینی برآمد کی ہے ایران کے ساتھ تجارت کا بیشتر حصہ غیر رسمی ذرائع سے ہوتا ہے، لہٰذا اس کی مکمل سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں، البتہ ایرانی تیل اور ایل پی جی کی بلوچستان کی سرحد سے اسمگلنگ بڑھنے کے باعث پاکستان نے بارٹر سسٹم کے تحت تجارت شروع کر دی ہے. بنگلہ دیش کو برآمدات میں 19.08 فیصد اضافہ ہو کر 787.35 ملین ڈالر ہو گئیں، جبکہ درآمدات میں 38.47 فیصد اضافہ ہوا جو 56.55 ملین ڈالر سے بڑھ کر 78.31 ملین ڈالر ہو گئیں یہ اضافہ ڈھاکہ میں حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد سامنے آیا، اور پاکستان نے رواں مالی سال میں بنگلہ دیش کو چاول کی برآمدات شروع کی ہیں سری لنکا کو برآمدات 4.14 فیصد کمی کے بعد 37 کروڑ 66لاکھ 10 ہزار ڈالر رہیں جو گزشتہ سال 39کروڑ 28لاکھ 90 ہزار ڈالر تھیں برآمدات میں یہ کمی سری لنکا میں جاری معاشی جمود کی وجہ سے ہوئی مجموعی طور پر اگرچہ کچھ ممالک کو برآمدات میں اضافہ ہوا ہے لیکن درآمدات میں نمایاں اضافے کے باعث خطے کے نو ممالک کے ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے جو پالیسی سطح پر فوری توجہ کا متقاضی ہے.