ہمایوں سعید کی اہلیہ نے ماہرہ خان کو کیوں حیران کردیا؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
ہمایوں سعید کی اہلیہ نے ماہرہ خان کو حیران کردیا ہے۔
ہمایوں ماہرہ خان کے ساتھ اپنی فلم ’لو گرو‘ کی تشہیر میں مصروف ہیں۔ یہ جوڑی 10 سال بعد دوبارہ پردے پر ایک ساتھ آرہی ہے، جس پر ان کے مداح پرجوش ہیں۔
ہمایوں سعید اور ان کی اہلیہ ثمینہ ہمایوں سعید خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں،۔اس جوڑی کو شوبز انڈسٹری کا پاور کپل کہا جاتا ہے۔ وہ کامیاب پروڈیوسر ہیں اور وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’طلاق کیوں لی‘، سابق شوہر سے اچھے تعلقات کے بیان پر ماہرہ خان تنقید کی زد میں
ثمینہ اپنے شوہر کے کام کی بڑی حامی رہی ہیں اور جب بھی وہ کچھ نیا کرتے ہیں تو وہ ان کی تعریف کرتی ہیں، تاہم ہمایوں سعید نے اب ایسا بیان دیا ہے جس نے ماہرہ خان کو بھی چونکا دیا ہے۔
ایک حالیہ انٹرویو میں ماہرہ خان اور ہمایوں سعید سے پوچھا گیا کہ وہ محبت میں تحفے کے طور پر کیا چاہتے ہیں؟ ماہرہ خان کا کہنا تھا کہ چوڑیاں جیسی چھوٹی چھوٹی چیزیں انہیں خوش کرتی ہیں لیکن ہمایوں سعید نے ایسا جواب دیا جس نے ماہرہ خان کو چونکا دیا۔
انہوں نے کہا ’مجھے صرف اجازت چاہیے، مجھے اجازت چاہیے کہ میں جاؤں اور جو چاہوں کروں کیونکہ میں آخر میں واپس آؤں گا۔‘ ہمایوں سعید کے جواب پر ماہرہ خان حیران رہ گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: لندن میں فلمائی گئی’لوو گرو‘ کا ٹریلر جاری، فلم کب ریلیز ہوگی؟
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے ہمایوں سعید نے کہا کہ رشتے میں اعتماد سب سے اہم ہوتا ہے۔ اس پر ماہرہ خان نے کہا کہ پہلے آپ کو اجازت چاہیے تھی اور اب آپ اعتماد کی بات کر رہے ہیں، ہمایوں نے ایک بار پھر مزید کہا کہ انہیں مجھ پر بھروسہ ہے کہ میں کہیں نہیں جاؤں گا۔
ہمایوں سعید کی اہلیہ کی جانب سے اپنے شوہر پر بھروسے نے ماہرہ خان کو بھی حیران کردیا، ماہرہ خان نے کہا کہ ہمایوں سعید نے کہا کہ ان کی اہلیہ کو ان پر اعتماد ہے اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news ثمینہ ہمایوں سعید لووگرو ماہرہ خان ہمایوں سعید.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ثمینہ ہمایوں سعید ماہرہ خان ہمایوں سعید نے ماہرہ خان کو ہمایوں سعید نے نے کہا کہ کی اہلیہ
پڑھیں:
معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔
کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟
کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔
کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟
اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟
یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !
بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔
قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔
تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔
افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔
نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟
یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں