اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 مئی 2025ء) اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بھوک کا بدترین بحران پھیل چکا ہے جہاں پوری آبادی قحط کے خطرے سے دوچارہے اور اسے امداد فراہم کرنے کی کوششوں کو اسرائیلی حکام کی جانب سے شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے ترجمان جینز لائرکے نے کہا ہے کہ غزہ دنیا میں 'بھوکا ترین علاقہ' بن گیا ہے۔

امدادی کارروائیوں کو جس قدر مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے اس کی نہ صرف دنیا بلکہ حالیہ تاریخ میں بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ Tweet URL

انہوں نے بتایا ہے کہ گزشتہ دنوں کیریم شالوم کی سرحد کھولے جانے پر امدادی سامان کے 900 ٹرک غزہ میں بھیجنے کی اجازت ملی تھی جن میں 600 سے بھی کم علاقے میں پہنچ سکے ہیں۔

(جاری ہے)

جن ٹرکوں سے سامان اتار کر لوگوں میں تقسیم کے لیے بھیجا گیا ہے ان کی تعداد اور بھی کم ہے۔ اسرائیلی حکام نے جن راستوں پر امداد لے جانے کی اجازت دی ہے وہ غیرمحفوظ ہیں جبکہ امدادی کارروائیوں کی منظوری بھی تاخیر سے ملتی ہے۔بھوک، مایوسی اور لوٹ مار

جینز لائرکے نے کہا ہے کہ امداد کی جتنی مقدار غزہ میں پہنچ رہی ہے وہ لوگوں کی ضروریات کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہے۔

بھوکے اور مایوس لوگ امدادی ٹرکوں کو راستے میں ہی روک کر امدادی سامان اتار لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ امداد انہی لوگوں کے لیے لائی جاتی ہے لیکن اسے تمام لوگوں کی ضروریات مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کے تحت تقسیم ہونا چاہیے۔

بدھ کو بھوکے ہجوم نے دیرالبلح میں عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے امدادی گودام سے آٹا لوٹ لیا تھا۔

اس دوران دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔غزہ کی سرحد پر امداد کے ڈھیر

ترجمان نے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ اور امدادی شراکت داروں کی جانب سے فراہم کردہ امداد کے ہزاروں صندوق غزہ کی سرحد پر پڑے ہیں جنہیں اجازت ملنے پر مختصر وقت میں غزہ کے لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ یہ امداد عالمی عطیہ دہندگان نے مہیا کی ہے جو اسے ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کیے جانے کی توقع رکھتے ہیں۔

امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے نجی ادارے 'غزہ امدادی فاؤنڈیشن' کے زیراہتمام امداد کی فراہمی بھی شروع ہو گئی ہے جس میں اقوام متحدہ کا کوئی کردار نہیں۔ منگل کو اس ادارے کی جانب سے امداد کی تقسیم کے موقع پر ہنگامہ آرائی میں 47 افراد زخمی ہو گئے تھے۔

'متبادل' امدادی طریقہ ناکام

مقبوضہ فلسطینی علاقے میں 'اوچا' کے سربراہ جوناتھن ویٹل نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے اس منصوبے میں دانستہ بہت قلیل مقدار میں امداد تقسیم کی جا رہی ہے۔

لوگوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے وسطی و جنوبی غزہ میں چار مراکز قائم کیے ہیں جن کی حفاظت امریکہ کے نجی سکیورٹی ادارے کرتے ہیں۔ جو فلسطینی ان مراکز تک پہنچ جاتے ہیں انہیں خوراک مل جاتی ہے اور دیگر محروم رہتے ہیں۔

جینز لائرکے نے کہا ہے کہ امداد کی تقسیم کا یہ 'متبادل طریقہ' ناکام ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں، اس میں امداد کی فراہمی کے حوالے سے غیرجانبداری کے اصول کو بھی نظرانداز کیا گیا ہے جس کے تحت سبھی کو بلاتفریق مدد پہنچائی جانی چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے ابتری اور انتہائی خطرناک حالات نے جنم لیا ہے۔ اگر کوئی شخص امدادی مرکز سے مدد لینے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اسے باہر نکلتے ہی لوٹ لیا جاتا ہے۔

انہوں نے امدادی برادری کے مطالبے کو دہراتے ہوئے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کے تمام راستے کھول کر لوگوں کو بڑے پیمانے پر مدد پہنچانے کی اجازت دے تاکہ ضرورت مند اپنے ٹھکانوں پر خوراک اور دیگر اشیا حاصل کر سکیں۔

ترجمان نے بتایا ہے کہ اس وقت غزہ کے 80 فیصد سے زیادہ علاقے میں اسرائیل کی عسکری کارروائیاں جاری ہیں اور 18 مارچ کو جنگ بندی ختم ہونے کے بعد تقریباً 635,000 لوگوں کو دوبارہ نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کی جانب سے امداد کی کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

کلاسیکی غلاموں کی تشویش

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250919-03-6

 

باباالف

پاگل کتا لوگوں کو کاٹتا پھررہا ہو تو اس مسئلے کا حل انفرادی اور اجتماعی سطح پر کتے کی مذمت نہیں ہے۔ اس مسئلے کا حل کتے کے شکار لوگوں سے محض ہمدردی بھی نہیں ہے، اس مسئلے کاحل زخمیوں کی مرہم پٹی، ویکسی نیشن اور ان کی امداد تک بھی محدود نہیں ہے بلکہ کتے کا خاتمہ ہے۔ یہودی ریاست کے باب میں مسلم حکمرانوں کا خواب آور لاشعور ایسے ہی حل تجویز کرتا ہے۔ انفرادی اور ریاستی سطح پر اسرائیل کی مذمت، اقوام متحدہ میں قراردادیں اور او آئی سی کے اجلاس یا پھر اسرائیل کے شکار ممالک اور لوگوں سے اظہار ہمدردی اور ان کی مالی امداد۔ پاگل کتے کے خاتمے کی بات تو درکنار کوئی اسے پٹا ڈالنے پر بھی تیار نہیں ہے۔

پاگل کتا ہی نہیں اگر کوئی انسان بھی پر امن نہتے شہریوں پر حملہ کررہا ہو، انہیں زندگی سے محروم کررہا ہو تو وہ اسی وقت اپنی زندگی کے حق سے دستبرار اور لوگوں کے درمیان رہنے کی سہولت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ افراد ہی نہیں اقوام اور ریاستوں کے معاملے میں بھی یہی کلیہ نافذ ہے۔ اسرائیل ایک قابض ریاست ہے جو جبر اور ظلم سے اپنے قبضے اور توسیع پسندی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر قبضے کے پہلے دن سے اس کی حالت ایک پاگل کتے کی سی ہے۔ جو اپنے سامنے آنے والے مظلوم انسانوں پر حملے کررہا ہے، انہیں کاٹ رہا ہے، بھنبھوڑ رہا ہے، زخمی اور قتل کررہا ہے۔ اس کے مجروحین کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ انسانیت کے خلاف کون سا ظلم ہے اسرائیل نے جس کا ارتکاب نہ کیا ہو۔

انسانیت کے مقابلے میں اسرائیل ’’توسیع ہی سب کچھ ہے‘‘ پر یقین رکھتا ہے خواہ اس مقصد کے لیے فلسطین کے مسلمانوں کی نسل کشی کا ارتکاب کرنا پڑے، ان کی عورتوں اور بچوں کو آگ کے شعلوں میں بھسم کرنا پڑے یا پھر ان کی آبادیوں پر دن رات وحشی فوجی قوت سے بمباری کرنا پڑے۔ یہ لڑائی نہیں ہے، یہ جنگ بھی نہیں ہے۔ جنگ میں فوجوں کا مقابلہ فوجیں کرتی ہیں۔ یہ نہتے انسانوں پر حملے ان کا قتل عام اور نسل کشی ہے۔ جس کی اجازت نہ کسی ریاست کودی جاسکتی ہے، نہ کسی فوج کو، نہ کسی انسان کو اور نہ کسی پا گل کتے کو۔

ان حالات میں انسانیت کے قبرستان میں کھڑے ہوکر اجتماعات منعقد نہیں کیے جاتے، کانفرنسیں طلب نہیں کی جاتیں، قراردادیں پاس نہیں کی جاتیں، گولی کا جواب گولی سے دیا جاتا ہے۔ جہاد کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ہمارے بزدل مسلم اور عرب حکمران! اللہ کی آخری کتاب نے ان ہارے ہوئے بے شرموں کی کیا ہی خوب منظر کشی کی ہے: ’’اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا؟ جب تم سے کہا جائے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو زمین کے ساتھ لگ جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کے بجائے دنیا کی زندگی پر راضی ہو گئے؟ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کا سازو سامان بہت ہی تھوڑا ہے‘‘۔ (التوبہ: 38)

یہودی ریاست سے جنگ جائز ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔ اس وقت انسانیت کی اس سے بڑی خدمت نہیں ہوسکتی کہ یہودی وجود کے ظالم بھیڑیوں اور پاگل کتوں کے خون سے صفحہ ہستی کو سرخ کردیا جائے۔ ان شیطانوں اور مفسدوں کے شرسے اللہ کے مظلوم اور بے کس بندوں کو نجات دلائی جائے۔ یہ انسان نہیں، انسانوں کے بھیس میں درندے اور انسانیت کے دشمن ہیں، یہ شیطان کی امت ہیں جو انسانوں پر ہرطرح کی تباہی اور مصیبتیں نازل کررہی ہیں۔

’’جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، انہیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے؛ کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے اور اللہ ان کی مدد پر یقینا قدرت رکھتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں، جو اپنے گھروں سے بے قصور نکالے گئے، ان کا قصور صرف یہ تھاکہ یہ اللہ کو اپنا پروردگار کہتے تھے‘‘۔ (الحج: 39-40)

ایسے مواقع پر جنگ کی اہمیت، ضرورت اور فرضیت! اللہ کی آخری کتاب کی صدا آفرینی کا رنگ اور قول فیصل ملاحظہ فرمائیے: ’’جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنہوں نے کفر اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا ہے وہ ظلم وسرکشی کی خاطر لڑتے ہیں، پس شیطان کے دوستوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں‘‘۔ (النساء: 76) قرآن شیطان کے دوستو سے لڑنے کا حکم دیتا ہے لیکن مسلم اور عرب حکمرانوں نے شیطان کے دوستو ں کو اپنا دوست ہی نہیں آقا بنا رکھا ہے۔ قطر نے امریکا اور اسرائیل کو دوست بنانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا لیکن اس کے باوجود شیطان کے دوستوں کی نظر میں ان کی اوقات؟ محض ٹوائلٹ پیپر، ضرورت پوری کرو اور پھینک دو۔ اسرائیل کو کھلی اجازت تھی کہ قطر کے دارالحکومت پر حملہ کرے اور مزے مزے سے ٹہلتا ہوا واپس چلا جائے۔

قطر کی لیوش فائیو اسٹار ائر فورس کا اب کیا کیا جائے؟ سوائے ٹکٹ لگا کر کسی میوزیم کی زینت بنانے کے۔ وہ قطر کی حفاظت تو نہ کرسکی کسی میوزیم میں پڑی قطری شیخوں کے مہنگے داموں خریدے گئے کھلونوں کی داستان عبرت ہی بیان کرسکے گی کہ تیل کے خزانے لٹا کر خریدی گئی ائر فورس دس منٹ بھی اپنے ملک کادفاع نہ کرسکی۔ کسی رن وے پر طیاروں کے فیشن شو میں بھی اس ائر فورس کو عیاشی کے منفی مظہر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے جیسے پہلے شاہی محلوں میں ہاتھی جھو متے تھے۔ ائر کنڈیشنڈ ہینگروں سے کبھی باہر نہ نکلنے والے یہ طیارے فضا کے شاہین نہیں پنجروں کے توتے ہیں۔ اس لیوش ائر فورس سے تو فلسطینی بچوں کے ہاتھوں میں دبے ہوئے وہ پتھر زیادہ باوقعت تھے جو یہودی وجود کے خلاف نفرت، حقارت اور احتجاج کے مظہر تھے۔

دیگر عرب ممالک کی نمائشی فوجی قوت بھی اسرائیل کے مقابلے میں ڈیکوریشن پیس سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔ ان کی افواج بھی نیشنل آرمی کے بجائے ریمپ پر چلنے والی ماڈل کے سوا کچھ نہیں۔ یہ افواج اپنے بادشاہوں اور ان کے محلات کی حفاظت کرتی ہیں اور بس۔ اس سے پہلے کہ یہ چو کیدار اپنی گنیں سیدھی کرنے کا سوچیں اسرائیلی طیارے اپنا کام کرکے واپس چلے جاتے ہیں۔ قطر پر حملے کے بعد واضح ہو گیا کہ اربوں ڈالر کے مٹی کے کھلونوں کے انبار کھڑے کرلینے اور نمائشی فوج ترتیب دینے اور امریکا سے دفاعی معاہدے کرلینے سے بھی عربوں کا دفاع ناقابل شکست نہیں بن سکتا جب تک امریکا اور اسرائیل کے ایجنٹ حکمران ان ممالک پر قابض ہیں۔

یہ حکمران امریکا اور اسرائیل کے خلاف کوئی حقیقی پر خطر قدم اٹھانا تو درکنار اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ان کا اقتدار امریکا اور اسرائیل کی مخبریوں اور انٹیلی جنس معلومات کا مرہون منت ہے جو انہیں محلاتی سازشوں سے آگاہ کرتے ہیں، ان کے رقیبوں اور حکومت کے دعویداروں کا صفایا کرکے ان کے اقتدار کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ یہ حکمران امریکا اور اسرائیل سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر سابقین سے زیادہ ان کے وفادار اور غلام رہیں گے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ قطر پر حملے نے ان کلاسیکی غلاموں کو خوف ناک تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ آقائوں پر ان کا اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • کلاسیکی غلاموں کی تشویش
  • بلوچستان کو 2021-22ء میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت 11 ارب 15 کروڑ کم ملنے کا انکشاف
  • غزہ: بھوکے اور پیاسے لوگوں کو اسرائیلی بمباری اور جبری انخلاء کا سامنا
  • حالیہ بارشوں کے متاثرین سمیت 1540 مستحق افراد میں ان کی دہلیز پر امدادی سامان تقسیم
  • پی ٹی آئی کے اندر منافق موجود ہیں، پارٹی کی اندرونی تقسیم عمران خان سے ملاقاتوں میں رکاوٹ ہے، علی امین گنڈا پور
  • نٹالی بیکر کا دورہ قصور، سیلاب متاثرین سے ملاقاتیں
  • غزہ: اسرائیلی عسکری کارروائی میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری، یو این کی مذمت
  • امریکی ناظم امور کا قصور کا دورہ، سیلاب میں ایک جان بھی ضائع نہ ہونے دینے پر انتظامیہ کی تعریف
  • غزہ: امداد تقسیم کرنے والی کمپنی میں مسلم مخالف ‘انفیڈلز’ گینگ کے کارکنوں کی بھرتی کا انکشاف
  • بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا گھٹیا حرکت، اسرائیل کا محاسبہ ناگزیر ہوگیا ہے، محمود عباس