بیجنگ :نیوزی لینڈ کی سابق وزیراعظم جینیفر میری شپلی نے گزشتہ 30 سالوں میں 100 سے زائد مرتبہ چین کا دورہ کیا ہے اور چین کی اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسیوں کو قریب سے دیکھا ہے۔

ہفتہ کے روز انہوں نے سی ایم جی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو  کے دوران چین کی ترقی کے بارے میں کہا کہ چین کی ترقی  معاصر تاریخ میں سب سے متاثر کن واقعات میں سے ایک ہے۔ چین مزید کھلے پن کی جانب گامزن ہے،اور  دنیا کے ساتھ مشترکہ ترقی کے لیے پرعزم ہے۔ یہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرے گا اور کاروباری رہنماؤں کو نہ صرف چین پر اعتماد دے گا بلکہ پڑوسی ممالک کی مارکیٹوں اور اینڈ روڈ ” اقدام میں شامل معیشتوں کے لیے بھی امیدیں روشن کرے گا۔ان کا کہنا تھا چین نے ثابت کیا ہے کہ وہ بیرونی ٹیکنالوجی  کے بجائے  اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر انحصار کرتا ہے ۔ چین کی ترقی پسندانہ سوچ عالمی ترقی میں معاون ہے۔انھوں نے کہا کہ میں نے گزشتہ 30 سالوں میں 100 سے زائد مرتبہ چین کا دورہ کیا ہے۔ چین کی کامیابیاں سب کے سامنے ہیں۔ میرے بچوں اور پوتے پوتیوں نے بھی یہاں کا دورہ کیا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میری نسلیں مستقبل کی تعمیر میں حصہ لیں۔

صدر شی جن پھنگ کے پیش کردہ  متعدد عالمی اقدامات  کے بارےمیں انہوں نے کہا کہ   چین نے عالمی ترقیاتی اقدام پیش کیا ہے۔ چین کی کامیابیاں دوسروں کے لیے قابل تقلید ہیں۔ چین اپنے تجربات اور علم کو شیئر کرتا ہے۔ سماجی ترقی اور پائیدار ترقی کے میدان میں کوئی بھی ملک چین کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ چین کی حکمت عملیوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، کیونکہ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ تعلیم تک رسائی، روزگار کے مواقع، رہائشی سہولیات اور معاشرتی بہتری جیسے منصوبوں کے ذریعے غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ چین کی ترقیاتی حکمت عملیوں میں ممالک کے درمیان علوم کا تبادلہ، تجربات کی شیئرنگ، غیر ملکی سرمایہ کاری اور ہنر مند افرادی قوت کی مناسب انداز میں شمولیت، نیز کھلے تعلیمی پلیٹ فارمز کی تشکیل اور نوجوانوں کے بین الاقوامی تعلیمی تبادلوں کی حوصلہ افزائی شامل ہے۔ یہ عملی اقدامات یقینی طور پر مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گے۔

صدر شی جن پھنگ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ  صدر شی کی دور اندیشی نہ صرف چینی عوام کے لیے فائدہ مند ہے، بلکہ  دنیا بھر کے لوگوں کے درمیان باہمی رابطوں کو مضبوط کرتی ہے۔ میں ان کی اسٹریٹجک بصیرت کی بہت قدر کرتی ہوں۔  میرا خیال ہے کہ صدر شی  نے تمام صوبوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کر کے پورے چین کو باہم جوڑ دیا ہے۔ یہ “کسی کو پیچھے نہ چھوڑنے” والا فلسفہ خاص طور پر قابل تعریف ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ اسٹریٹجک منصوبہ بندی چین کی ترقی کے فوائد کو تمام شہریوں تک مساوی طور پر پہنچائے گی اور میں جانتی ہوں کہ یہ صدر شی جن پھنگ کے اہداف میں سے ایک ہے، اسی لیے میں ان کی بہت قدر کرتی ہوں۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: چین کی ترقی انہوں نے ترقی کے کہا کہ کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک ذمہ دار ریاستوں سے ہرجانے کے حقدار ہیں، عالمی عدالت انصاف کا اہم فیصلہ

اقوام متحدہ کی سب سے بڑی عدالت، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس  (آئی سی جے) نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک فوری اور وجودی خطرہ ہے اور جو ممالک اس سے متاثر ہو رہے ہیں وہ قانونی طور پر ہرجانے کے مستحق ہو سکتے ہیں۔

بدھ کے روز جاری اپنے مشاورتی رائے میں عدالت نے کہا کہ وہ ممالک جو ماحولیاتی آلودگی میں ملوث ہیں اور کرہ ارض کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کرتے، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: لاہور ہائیکورٹ کا اسموگ کیس میں تحریری حکم نامہ جاری، درختوں کے تحفظ اور ماحولیاتی بہتری پر زور

یہ پہلا موقع ہے کہ آئی سی جے نے ماحولیاتی بحران پر باقاعدہ مؤقف اختیار کیا ہے۔ عدالت سے 2 اہم سوالات پر رائے مانگی گئی تھی کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ممالک کی ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور ان ممالک کے لیے کیا قانونی نتائج ہوں گے جو ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں؟

عدالت کے صدر یوچی ایواساوا نے کہا کہ ایک صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کا انسانی حق دیگر انسانی حقوق کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

حالیہ دنوں امریکا اور پاکستان سمیت دنیا کے متعدد علاقوں میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والے سیلاب اور بارشوں سے سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی ریاست ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات نہیں کرتی تو یہ بین الاقوامی طور پر ایک غیر قانونی عمل قرار دیا جا سکتا ہے۔

عدالتی رائے میں کہا گیا کہ تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ اس کے علاوہ جو ریاستیں ماحولیاتی تبدیلی کے سبب نقصان اٹھا رہی ہیں، انہیں مخصوص حالات میں معاوضہ ملنے کا حق حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیے: موسمیاتی تبدیلی کوئی مفروضہ نہیں، انسانیت کے لیے خطرناک حقیقت ہے، احسن اقبال

واضح رہے کہ حالیہ دنوں امریکا اور پاکستان سمیت دنیا کے متعدد علاقے شدید سیلاب اور تباہ کن بارشوں کی زد میں رہے جس سے سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

یاد رہے کہ اس معاملے کا آغاز 2019 میں فجی کے چند قانون کے طلبا نے کیا تھا جن کی مہم کو بحر الکاہل کی ایک چھوٹی مگر متاثرہ ریاست، وانواتو، نے اپنایا اور 2021 میں آئی سی جے سے باضابطہ درخواست کی کہ وہ ماحولیاتی ذمہ داریوں پر مشاورتی رائے دے۔ دسمبر میں 2 ہفتے تک جاری رہنے والی سماعتوں میں 100 سے زائد ممالک اور عالمی تنظیموں نے شرکت کی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آلودگی سیلاب عالمی عدالت انصاف ماحولیات موسمیاتی تبدیلی

متعلقہ مضامین

  • پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا:یوسف رضاگیلانی
  • سبی: بختیار آباد کے قریب ریلوے ٹریک دھماکے سے تباہ، بولان میل متاثر
  • امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کل اپنی والدہ کے آبائی ملک سکاٹ لینڈ کا نجی دورہ کریں گے
  • ٹیکس نظام کو بہتر بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے، وزیراعظم
  • موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک ذمہ دار ریاستوں سے ہرجانے کے حقدار ہیں، عالمی عدالت انصاف کا اہم فیصلہ
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا باراک اوباما پر غداری کا الزام، سابق صدر نے ردعمل میں کیا کہا؟
  • خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری ملکی معیشت کی بہتری اور ترقی کے لئے ناگزیر ہے، وزیراعظم شہباز شریف کا سرکاری ملکیتی اداروں کی نجکاری کی پیشرفت سے متعلق جائزہ اجلاس سے خطاب
  • نائب وزیراعظم محمد اسحاق ڈار کی نیویارک میں تاجروں اور سرمایہ کاروں سے ملاقات
  • نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی تھائی لینڈ کے وزیر خارجہ ماریس سے ملاقات
  • سابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ سے نئی وفاقی جیل منتقلی کادعویٰ