جماعت اسلامی کی بنگلہ دیشی سیاست میں واپسی، انتخابی رجسٹریشن بحال کردی گئی
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
ڈھاکہ : بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ملک کی مذہبی سیاسی جماعت جماعتِ اسلامی کی انتخابی رجسٹریشن بحال کر دی ہے۔
اس فیصلے کے بعد جماعت اب دوبارہ الیکشن میں حصہ لینے کی اہل ہو گئی ہے، جبکہ 2013 میں اسے کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
جماعتِ اسلامی کے وکیل شیشیر منیر نے کہا کہ یہ فیصلہ بنگلہ دیش میں جمہوری، جامع اور کثیر الجماعتی نظام کی طرف ایک اہم قدم ہے۔
انہوں نے مزید کہا: "ہم امید کرتے ہیں کہ تمام بنگلہ دیشی، چاہے وہ کسی بھی نسل یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، جماعت کو ووٹ دیں گے، اور پارلیمنٹ تعمیری بحث کا مرکز بنے گی۔"
یہ فیصلہ ایسے وقت آیا ہے جب 27 مئی کو سپریم کورٹ نے جماعت کے رہنما اے ٹی ایم اظہر الاسلام کی سزا کو بھی کالعدم قرار دیا تھا۔ انہیں 2014 میں قتل، ریپ، اور نسل کشی کے الزامات پر سزائے موت سنائی گئی تھی، جو 1971 کی پاک-بنگلہ جنگ سے متعلق تھے۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی نے اُس جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا، جو آج بھی بہت سے بنگلہ دیشیوں میں غصے اور اختلاف کا باعث بنتا ہے۔
سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کے دور میں جماعت پر پابندی لگائی گئی تھی اور اس کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
دوسری جانب، شیخ حسینہ خود اب جرائمِ انسانیت کے مقدمے میں مفرور ہیں۔ ان پر پولیس کے ہاتھوں مظاہرین کے قتل کا الزام ہے، اور ان کے خلاف مقدمہ اتوار سے شروع ہو رہا ہے۔
پراسیکیوشن کے مطابق، حسینہ کے خلاف پانچ الزامات عائد کیے جائیں گے، جن میں قتلِ عام کی سازش، اکسانا، سہولت کاری اور روکنے میں ناکامی شامل ہیں۔
یہ مقدمہ سرکاری ٹی وی چینل پر براہ راست نشر کیے جانے کا امکان ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-6
سید آصف محفوظ
پاکستان کی سیاسی اور فکری تاریخ میں جماعت ِ اسلامی ہمیشہ ایک اصولی اور نظریاتی تحریک کے طور پر نمایاں رہی ہے۔ یہ محض ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک فکری و اخلاقی مدرسہ ہے۔ جس کا نصب العین دینِ اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں غالب کرنا ہے۔
قیام اور نظریاتی بنیاد: 26 اگست 1941ء کو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لاہور میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ اْس وقت برصغیر میں آزادی کی تحریکیں عروج پر تھیں، مگر مولانا مودودی نے ان سب سے ہٹ کر ایک نیا زاویہ فکر پیش کیا: ’’اسلامی انقلاب‘‘۔ ان کے نزدیک سیاست، معیشت، اخلاق اور سماج سب کچھ اسلام کے تابع ہونا چاہیے۔ یہی فکر آگے چل کر جماعت ِ اسلامی کے منشور اور تحریک کی اساس بنی۔
تحریک سے جماعت تک: قیامِ پاکستان کے بعد جماعت اسلامی نے نئے ملک کو ’’نعمت ِ الٰہی‘‘ قرار دیا اور اس کے نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کی جدوجہد شروع کی۔ تعلیمی ادارے، فلاحی تنظیمیں، مزدور و طلبہ ونگ؛ سب اسی فکر کے عملی مظاہر ہیں۔ یہ جماعت ہمیشہ ایک متوازن اور باوقار آواز کے طور پر ابھری۔ آمریت کے خلاف، بدعنوانی کے مقابل، اور آئین میں اسلامی دفعات کے تحفظ کے لیے۔
قیادت کا تسلسل: سید مودودیؒ سے میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، سید منور حسنؒ، سراج الحق اور اب حافظ نعیم الرحمن تک جماعت کی قیادت نے نظریے کو وقت کے تقاضوں کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھایا۔ یہ قیادت محض سیاسی نہیں بلکہ فکری و تربیتی بھی ہے۔ جماعت ہمیشہ کردار کو اقتدار پر مقدم رکھتی آئی ہے۔
اجتماعِ عام 2025: حافظ نعیم الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ جماعت اسلامی کا اجتماعِ عام 21 تا 23 نومبر 2025ء کو مینارِ پاکستان، لاہور میں منعقد ہوگا۔ موضوع ہے: ’’بدل دو نظام‘‘ جو محض نعرہ نہیں بلکہ ایک عزم کا اظہار ہے۔ یہ اجتماع پاکستان کے موجودہ سیاسی و معاشی بحران کے پس منظر میں اسلامی نظامِ عدل و انصاف کی طرف دعوت ہے۔
مقاصدِ اجتماع: 1۔ عوام میں اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا شعور بیدار کرنا۔ 2۔ نوجوانوں کو زمانے کے بدلتے حالات تعلیم، قیادت اور اخلاقی کردار کے لیے تیار کرنا۔ 3۔ پرامن، منظم اور اصولی جدوجہد کی راہ دکھانا۔ 4۔ آئینی و جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے نظامِ زندگی کی اصلاح۔ ملک بھر میں جماعت کے کارکنان اس اجتماع کی تیاری میں مصروف ہیں۔ ہر ضلع، ہر یونٹ، ہر ونگ اپنے حصے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ کارکنوں کے مطابق یہ اجتماع محض ایک سیاسی اجتماع نہیں بلکہ ’’تحریکی تجدید‘‘ ہے، جہاں نظریہ، تنظیم، اور عوامی رابطہ تینوں کا حسین امتزاج دکھائی دے گا۔
جماعت اسلامی کی پوری تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ یہ وقتی مفادات نہیں، اصولوں کی سیاست کرتی ہے۔ اجتماعِ عام ’’بدل دو نظام‘‘ اسی تسلسل کی نئی کڑی ہے۔ ایک اعلان کہ تبدیلی تب آتی ہے جب ایمان، کردار اور قیادت ایک سمت میں چلیں۔ ممکن ہے کہ نومبر 2025 کا یہ اجتماع پاکستان کی سیاست میں ایک نیا باب رقم کرے، وہ باب جہاں سیاست نظریے کی بنیاد پر ہو، نہ کہ مفاد کی۔