امریکی ریاست کولوراڈو میں اسرائیل کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں پر حملہ، 6 افراد زخمی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
امریکا کی ریاست کولوراڈو کے شہر بولڈر میں اسرائیل کے حق میں مظاہرہ کرنے والے افراد پر ایک شخص نے پیٹرول بم پھینک دیا جس کے نتیجے میں چھ افراد زخمی ہوگئے۔
ایف بی آئی نے اس واقعے کو منظم دہشت گرد حملہ قرار دیا ہے۔ پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا ہے، تاہم حملے کے محرکات کے بارے میں ابھی تک کوئی واضح معلومات سامنے نہیں آئی ہیں۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق گواہوں نے بتایا کہ یہ حملہ ایک یہودی کمیونٹی کے اجتماع پر کیا گیا۔ حملہ آور نے مظاہرین پر حملہ کرنے سے قبل فلسطین کے حق میں نعرے لگائے۔
ایف بی آئی کے چیف کاشف پٹیل نے کہا ہے کہ ہم اس واقعے کی مکمل تحقیقات کر رہے ہیں اور اس کو ایک دہشت گرد حملہ سمجھتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے بھی اس واقعے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بریفنگ دی ہے۔
بولڈر پولیس کے چیف اسٹیو ریڈفیرن نے میڈیا کو بتایا کہ یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق ڈیڑھ بجے کے قریب پیش آیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر فون کالز میں اطلاع ملی تھی کہ ایک شخص کے پاس ہتھیار تھا اور لوگ جل رہے تھے۔ پ
ولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچنے کے بعد متعدد زخمیوں کو پایا جن کی حالت میں جلنے کے آثار تھے۔
پولیس نے مشتبہ شخص کو فوری طور پر حراست میں لے لیا، اور کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کیا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں اور حملے کے اصل مقصد اور اس کے محرکات کے بارے میں مزید معلومات جلد فراہم کی جائیں گی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اسرائیل کی حمایت میں امریکا کا ایک بار پھر یونیسکو چھوڑنے کا اعلان
امریکا نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو (UNESCO) سے دوبارہ علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ یونیسکو اسرائیل کے خلاف تعصب رکھتا ہے اور عالمی سطح پر ’’تقسیم پیدا کرنے والے‘‘ سماجی و ثقافتی ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ یونیسکو میں رہنا "امریکی قومی مفاد میں نہیں" ہے۔ یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں بھی کیا تھا، لیکن جو بائیڈن کے دور میں امریکا دوبارہ یونیسکو کا رکن بن گیا تھا۔
اب ٹرمپ کی واپسی کے بعد ایک بار پھر امریکا کا ادارے سے نکلنے کا اعلان سامنے آیا ہے، جو دسمبر 2026 میں مؤثر ہو گا۔
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ملٹی لیٹرلزم (کثیر الجہتی تعاون) کے اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ فیصلہ متوقع تھا اور ادارہ اس کے لیے تیار ہے۔
یونیسکو نے کہا کہ امریکی انخلا کے باوجود ادارے کو مالی طور پر بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ گزشتہ دہائی میں امریکا کی بجٹ میں شراکت 20 فیصد سے کم ہو کر اب 8 فیصد رہ گئی ہے۔
امریکا نے یونیسکو پر الزام لگایا ہے کہ اس نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرکے اسرائیل مخالف بیانیہ بڑھایا ہے اور مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی ثقافتی مقامات کو عالمی ورثہ قرار دینا بھی امریکی پالیسی کے خلاف ہے۔
اسرائیل نے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، جب کہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے یونیسکو کی مکمل حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکا اس سے پہلے بھی 1980 کی دہائی میں ریگن حکومت کے تحت یونیسکو سے نکل چکا ہے، اور 2000 کی دہائی میں صدر بش کے دور میں دوبارہ شامل ہوا تھا۔