غزہ : اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (OHCHR) نے غزہ میں اسرائیل کے فوجی طرز کے امدادی نظام کی شدید مذمت کی ہے، جسے انہوں نے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

الجزیرہ کے مطابق، اقوام متحدہ نے کہا کہ حالیہ دنوں میں 27 مئی سے 31 مئی کے درمیان رفح اور نیٹزاریم کاریڈور کے قریب امدادی مراکز پر حملوں میں کم از کم 19 فلسطینی جاں بحق اور 80 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی تقسیم کو عسکری رنگ دینا بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ہے اور اس سے عام شہریوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو رہا ہے۔

مزید کہا گیا کہ خوراک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا، یا عوام کی زندگی بچانے والی سہولتوں تک رسائی روکنا نہ صرف جنگی جرم ہے بلکہ یہ نسل کشی جیسے بین الاقوامی جرائم کے زمرے میں بھی آ سکتا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ

پڑھیں:

غزہ میں امریکا کے خوراک کے تقسیم کے مراکز فلسطینیوں کیلیے موت کا پھندا بن گئے

اسرائیلی فوج نے غزہ کے علاقے رفح میں امریکی حمایت یافتہ امدادی مراکز پر خوراک کے حصول کے لیے جمع ہزاروں فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کی تھی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جنوبی غزہ کے جن 2 امدادی مراکز پر فائرنگ کی گئی وہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیش (GHF) کے زیر انتظام تھے۔

خیال رہے کہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیش (GHF) امریکا اور اسرائیل کی حمایت امدادی تنظیم ہے جس کے مراکز کو سب سے محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔

اس واقعے سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کو ٹریپ کیا گیا اور جن مراکز کو وہ محفوظ سمجھ کر امداد کے لیے جمع ہوئے۔ وہیں اُن پر گولیاں برسائی گئیں۔

عینی شاہدین نے میڈیا کو بتایا کہ فائرنگ اسرائیلی فوجی ٹینکوں سے کی گئی جس میں 32 فلسطینی شہید اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

اسرائیلی فوج کی فائرنگ میں شہید اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ زخمیوں میں سے 10 سے زائد کی حالت نازک ہے۔

دوسری جانب اسرائیلی حکومت نے امدادی مراکز پر فائرنگ کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نقاب پوش حملہ آوروں نے شہریوں کو نشانہ بنایا تھا۔

ادھر امریکی ادارہ "غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن" نے تو سرے سے ہی فائرنگ کے واقعے کی تردید کرتے ہوئے اسے "من گھڑت رپورٹنگ" قرار دیا۔

خیال رہے کہ اس تنظیم GHF نے غزہ میں 26 مئی سے اپنی امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا لیکن ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق امریکی فوجی جیک ووڈز نے امداد کی تقسیم شروع ہونے سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ انسانی اصولوں بشمول غیر جانبداری، انسانیت اور آزادی کے مطابق قابل عمل نہیں ہے۔

اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے بھی GHF کو اسرائیل کے فوجی مقاصد کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کسی قسم کی معاونت سے صاف انکار کر دیا تھا۔

اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزین ادارے کے سربراہ فلپ لازارینی نے کہا کہ امدادی مراکز اب فلسطینیوں کے لیے موت کا پھندا بن چکے ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹر ہند خضری نے بتایا کہ فلسطینی یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ امدادی مراکز متنازع اور قابل بھروسہ نہیں ہیں، صرف ایک وقت کے کھانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

رپورٹر نے مزید بتایا کہ ان علاقوں میں فلسطینیوں کے پاس اور کوئی چارہ نہیں بچا۔ خوراک کی شدید قلت ہے اور ایک کلو آٹے کی قیمت 20 امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔

یاد رہے کہ GHF کی تقسیم کردہ راشن کٹس میں صرف ایک کلو آٹا، چند پیکٹ پاستا، اور چند ڈبے فاوہ بینز کے شامل ہیں جو ایک خاندان کے لیے ناکافی اور غیرمتوازن غذا ہے۔

فلسطینی میڈیکل ریلیف سوسائٹی کے رہنما بَسّام زقوط نے بتایا کہ پرانی امدادی تقسیم کا نظام 400 مقامات پر مشتمل تھا، جو اب گھٹ کر صرف چار تک محدود کر دیا گیا ہے جہاں معمر افراد اور معذوروں کی ضروریات کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔

 

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں امداد کی تقسیم کے دوران اسرائیلی حملے، اقوام متحدہ نے تحقیقات کا مطالبہ کردیا
  • غزہ میں امدادی سامان کی تقسیم کے مراکز پر حملے، اقوام متحدہ کی تنقید
  • غزہ میں امداد لیتے افراد پر اسرائیل کی بمباری، مزید 40 فلسطینی شہید
  • چھ بچیوں کیلئے روٹی لینے امدادی مرکز آنے والے باپ کو اسرائیلی فوج نے گولیوں سے بھون ڈالا
  • غزہ: حصول امداد کی کوشش میں ہلاکتوں کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ
  • غزہ، امدادی مرکز کے قریب حملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ
  • غزہ میں امریکا کے خوراک کے تقسیم کے مراکز فلسطینیوں کیلیے موت کا پھندا بن گئے
  • اسرائیل امداد کی آڑ میں فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کر رہا ہے، ضیاالدین انصاری
  • اسرائیل کا غزہ میں امریکی امدادی مرکز پر حملہ! 31 فلسطینی شہید