پختونخوا؛ لا یونیورسٹی کے قیام کے احکامات پر عمل نہ ہونے کیخلاف توہینِ عدالت کی درخواست
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
پشاور:
خیبر پختونخوا میں لا یونیورسٹی کے قیام کے لیے عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے کے معاملے پر پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے توہین عدالت درخواست دائر کردی ۔
درخواست سیکرٹری جنرل پشاور ہائیکورٹ بار کی توسط سے دائر کی گئی ہے ، جس میں چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ، صوبائی حکومت اور دیگر کو فریقین بنایا گیا ہے ۔
درخواست کے مطابق 2012 میں پشاور ہائیکورٹ نے صوبائی حکومت کو لا یونیورسٹی کے قیام کے لیے احکامات دیے تھے ۔ 2015 میں سپریم کورٹ نے فریقین کو لا یونیورسٹی کے قیام کے لیے ڈائریکشنز دی ہیں اور فریقین نے عدالت میں یقین دہانی کرائی تھی کہ خیبر لا کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیں گے۔
فریقین نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ عدالتی ہدایات کو سفارشات میں تبدیل کرکے عمل درآمد کریں گے، تاہم 9سال سے زائد عرصہ ہوگیا عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ لا یونیورسٹی نہ ہونے کے باعث قانون کے طلبہ کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت 2012 اور 2015 کے فیصلوں پر عمل درآمد یقینی بنائے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لا یونیورسٹی کے قیام کے
پڑھیں:
لندن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والا ملعون عدالت سے مجرم قرار
لندن : برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ترک قونصل خانے کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والے ملعون شخص کو عدالت نے مجرم قرار دے کر 240 پاؤنڈ (تقریباً 325 ڈالر) جرمانہ کر دیا ہے۔
ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ عدالت میں مقدمہ اس وقت درج کیا گیا جب فروری میں ملعون نے عوامی مقام پر قرآن پاک کے نسخے کو جلایا اور اس عمل کو سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ اگرچہ مذہبی کتاب جلانا بعض افراد کے لیے توہین آمیز ہو سکتا ہے، مگر اس کیس میں ملزم کا رویہ، زبان اور مخصوص مقام پر یہ عمل بدنظمی کے زمرے میں آتا ہے۔
ملعون نے عدالت میں اپنے دفاع میں کہا کہ وہ ترک حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور ہاتھ میں پکڑی کتاب کو لہرا رہے تھے، جس دوران ان پر ایک شخص نے حملہ بھی کیا۔
جج نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی بدزبانی، قرآن پاک کو اسلام کے ساتھ جوڑ کر نذر آتش کرنا، اور نفرت انگیز رویہ اس جرم کو بدنظمی اور اشتعال انگیزی میں بدل دیتا ہے۔
ملعون کے وکیل نے کہا کہ یہ کارروائی 2008 میں منسوخ شدہ توہین مذہب کے قانون کو دوبارہ زندہ کرنے کے مترادف ہے، تاہم عدالت نے پراسیکیوشن کے اس موقف کو تسلیم کیا کہ یہ مقدمہ مذہب کی توہین پر نہیں بلکہ عوامی بدانتظامی پر مبنی تھا۔