حکومت کی واٹس ایپ کی طرز پر بیپ ایپلی کیشن کی لانچنگ سیکیورٹی کلیئرنس چیلنج بن گئی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
اسلام آ باد:
وفاقی حکومت کیلئے وٹس ایپ کی طرز پر بیپ ایپلی کیشن کی لانچنگ، سیکیورٹی کلیئرنس چیلنج بن گئی، ایپلی کیشن لانچنگ کی ڈیڈلائن ختم ہونے میں صرف ایک ماہ باقی ہے تاہم اب تک سیکیورٹی کلیئرنس تاحال نہیں ہوسکی۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس پیر کو پلوشہ خان کی زیرِ صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں سیکرٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی اے نے قائمہ کمیٹی کو ایل ڈی آئی لائسنس کی تجدید سے متعلق بریفنگ دی۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ محفوظ سرکاری رابطوں کیلئے ملک کے پہلے مقامی پلیٹ فارم بیپ کا سیکیورٹی آڈٹ بدستور جاری ہے، بیپ کی سیکیورٹی کلیئرنس نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کیلئے بڑا چیلنج بن گئی، وزارت آئی ٹی نے بیپ ایپلی کیشن کو 30 جون سے پہلے لانچ کرنے کی ڈیڈلائن دے رکھی ہے، رپورٹ کے مطابق علاقائی سیکیورٹی چیلنجوں کے تناظر میں بیپ کا عالمی معیار کے مطابق ہونا لازم قرار دیا گیا ہے۔
این آئی ٹی بی نے تحریری طور پر قائمہ کمیٹی آئی ٹی کو آگاہ کردیا کہ بیپ اب وفاقی حکومت میں مکمل طور پر رول آوٴٹ کیلئے تیار ہے بیپ ایپلی کیشن کی نیشنل سائبر سیکیورٹی معیارات کے مطابق جانچ جاری ہے، محفوظ اور خودمختار کمیونی کیشن انفرا اسٹرکچر انتہائی ضروری ہے نیشنل آئی ٹی بورڈ نے مزید کہا ہے کہ اعلیٰ سطح کی کمیٹی کی جانب سے بیپ کی سیکیورٹی جانچ جاری ہے، کمیٹی میں ڈائریکٹر جنرل نیشنل سرٹ، ڈائریکٹر آف گورننس، رسک اور کمپلائنس شامل ہیں، انٹیلی جنس بیورو این ٹی آئی ایس بی، نیکوپ کے نمائندے بھی کمیٹی کا حصہ ہیں۔
این آئی ٹی بی کا کہنا ہے کہ بیپ کو نیشنل سرٹ کے ذریعے جامع انٹرپرائز لیول سیکیورٹی تشخیص سے بھی گزارا جائے گا، سیکیورٹی معیار کا جائزہ مکمل ہونے کے بعد بیپ کو وفاقی حکومت میں نافذ کردیا جائے گا۔
سیکرٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی اے نے قائمہ کمیٹی کو ایل ڈی آئی لائسنس کی تجدید سے متعلق بریفنگ دی۔ اس موقع پر سیکرٹری آئی ٹی نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ نے سارے ایل ڈی آئی کے کیسز پی ٹی اے کو واپس بھیج دیے تھے بہت ساری میٹنگ ایل ڈی آئی کے ساتھ پی ٹی اے میں ہوچکی ہیں آئندہ چند ہفتوں میں اس حوالے سے فیصلہ متوقع ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ سات ایل ڈی آئی کو شوکاز بھیجے تھے ایل ڈی آئی کیسز کی سماعتیں مکمل ہوچکی ہیں آئندہ چند ہفتوں تک اس پر فیصلہ ہو جائے گا قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی نے ہدایت کی تھی کہ ایل ڈی آئی کمپنیوں کو ایک ماہ تک انہیں وقت دیں یا پھر فیصلہ کریں پی ٹی اے تو چاہتا ہے کہ جو متنازع رقم ہے اسے جمع کیا جائے۔
سیکرٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا کہنا تھا کہ جو بھی ہوگا اس حوالے سے عید کے بعد فیصلہ ہو جائے گا، چیئرمین پی ٹی اے ڈیپ پراجیکٹ کے تحت ڈیٹا ایکسچینج لیئر بننا ہے پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی ایک ریگولیٹری باڈی ہے نیشنل ڈیجیٹل کمیشن ماسٹر پلان کی منظوری دے گا نیشنل ڈیجیٹل کمیشن میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلی شامل ہیں۔
رکن کمیٹی سینیٹر کامران مرتضی نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ صوبوں کے اختیارات میں مداخلت نہیں ہوگی؟
سینیٹر سیف اللہ خان نیازی نے کہا کہ اگر اتفاق رائے نہ ہو تو صوبے پر یہ چیزیں تھوپی نہیں جائیں گی۔ سیکرٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے کہا کہ نیشنل فنائنس کمیشن اور دیگر کمیشنز میں اتفاق رائے سے ہی کام آگے بڑھتا ہے۔ اجلاس میں وفاقی وزیر آئی ٹی ی عدم شرکت پر چیئرپرسن کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ وفاقی وزیر آئی ٹی کہاں ہیں، انہیں اس اجلاس میں ہونا چاہیے تھاآج بجٹ فائنل ہورہا ہے، وفاقی وزیر وہاں مصروف ہیں یہ تیسرا مسلسل اجلاس ہے وہ شرکت نہیں کررہیں یہ اس کمیٹی اور سینیٹ کی توہین ہے وفاقی وزیر یہاں موجود ہوتیں تو اس چیز کی بہتر وضاحت ہوسکتی تھی آئندہ اجلاس میں وفاقی وزیر آئی ٹی کی شرکت یقینی بنائیں چیئرپرسن کمیٹی نے ایجنڈا وفاقی وزیر کی موجودگی تک ملتوی کردیا۔
سیکریٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کی کرپٹو کونسل پر کمیٹی کو بریفنگ دی۔ اس دوران ارکان کمیٹی کی جانب سے کرپٹو کونسل کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا۔ سیکرٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے شرکاء کو بتایا کہ وزیر اعظم نے نیشنل کرپٹو کونسل کے قیام کی منظوری دی اور وزیر خزانہ کو کرپٹو کونسل کا سربراہ لگایا گیا پاکستان کرپٹو کونسل ایک ایڈوائزری باڈی ہے۔
اس پر رکن کمیٹی سینیٹر کامران مرتضی سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان کرپٹو کونسل کے قیام کی پارلیمان سے منظوری لی گئی؟ جبکہ دیگر اراکین کمیٹی کا کہنا تھا کہ یہ ایک نئے فراڈ کی راہ ہموار کی جارہی ہے کچھ عرصے بعد پتہ چلے گا بہت سے لوگوں کے ساتھ فراڈ ہوگیا۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ کیا پارلیمان کا کوئی کردار نہیں ہے؟ اس پر سیکرٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے کہا کہ جب کوئی چیز منظور ہوگی تو تمام قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ کامران مرتضیٰ نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیسا نظام ہے بچے پہلے ہوگئے شادی بعد میں ہوگی۔
سینیٹر کامران مرتضی کے ریمارکس پر کمیٹی میں قہقہے شروع ہوگئے سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ کیا پاکستان کرپٹو کونسل بغیر قانون کے ایگزیکٹو آرڈر سے بن سکتی ہے جس کے جواب میں سیکرٹری آئی ٹی نے کہا کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں ہے۔ چیئرپرسن کمیٹی کا کہنا تھا کہ ٹی او آرز وزارت آئی ٹی کا بہت بڑا اہم رول ہے کیا یہ ٹی او آرز وزارت آئی ٹی کی رضامندی سے بنے ہیں؟ اس پر سیکرٹری آئی ٹی نے کہا کہ ٹی او آرز بنانے میں وزارت آئی ٹی کا کا کوئی رول نہیں ہے ٹی او آرز وزارت خزانہ کے نوٹی فکیشن میں درج ہیں۔
سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ وزارت آئی ٹی سے تمام چیزیں لی جارہی ہیں ڈیجیٹل اتھارٹی بن گئی، ٹیلی کام اتھارٹی پہلے ہی کابینہ کے پاس ہے کرپٹو کونسل آپ نے وزارت خزانہ کو دے دی کرپٹو کونسل میں وزارت آئی ٹی کو لیڈ کرنا چاہیے سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ کل اگر کوئی بڑا فراڈ ہوگیا تو ذمہ دار کون ہوگا کیا وزارت آئی ٹی نے اپنی سیف سائیڈ رکھی ہے اس کے پیچھے قانونی جواز کیا ہے؟ سینیٹرافنان اللہ نے کہا کہ ایف آئی اے نے ملین ڈالرز کے بٹ کوائن پکڑے ہیں۔
سیکرٹری آئی ٹی نے کہا کہ پاکستان کرپٹو کونسل میں سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری قانون شامل ہیں۔ سینیٹر سیف اللہ نیازی نے کہا کہ کیا وزارت آئی ٹی بند کرنی ہے؟ کیا کرنا ہے جبکہ دیگر ارکان کمیٹی کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ سے اپنا کام نہیں ہوتا وہ آپ کا کام کیسے کریں گے؟ جس پر سیکریٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے کہا کہ کرنسی کو ڈیل کرنا اسٹیٹ بینک کا کام ہے وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام ریگولیٹری باڈی نہیں بن سکتی سینٹر افنان اللہ نے کہا کہ سوشل میڈیا وزارت داخلہ کو دیدیا، وزارت آئی ٹی سرنڈر کرتی جارہی ہے جس کے جواب میں سیکرٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے کہا کہ سوشل میڈیا، سائبر کرائمز وزارت داخلہ، ایف آئی اے کا کام ہے وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام اپنے دیگر منصوبوں پر فوکس کریں گے وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کہیں بھی دستبردار نہیں ہورہی ہے۔
قائمہ کمیٹی نے پاکستان کرپٹو کونسل پر بریفنگ کیلئے آئندہ اجلاس میں وزارت قانون اور وزارت خزانہ حکام کو طلب کرلیا ہے کمیٹی کا کہنا تھا کہ دونوں وزارتوں کے حکام پاکستان کرپٹو کونسل پر بریفنگ دیں۔
وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کے حکام نے ذہانت اے آئی پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ذہانت اے آئی وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا منصوبہ نہیں ہے وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کے دعوے کو غلط طور پر لیا گیا۔
سی ای او این آئی ٹی بی نے اپنی مدت ملازمت ختم ہونے سے پہلے ایک بیان دیا جس پرچیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ سی ای او این آئی ٹی بی نے وزارت کے اس دعوے کو نہیں جھٹلایا۔
سینیٹر سیف اللہ نیازی نے سوال اٹھایا کہ کیا سی ای او این آئی ٹی کی مدت اس بیان کے بعد ختم ہوگئی جبکہ رکن کمیٹی سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ یا اس بیان کے بعد ان کی مدت ختم کردی گئی وزارت آئی ٹی حکام نے کہا کہ وزارت نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ ذہانت اے آئی پاکستان کا پہلا چیٹ جی پی ٹی ہے۔
چیئرپرسن نے کہا کہ وفاقی وزیر نے پرائیوٹ کمپنی کے حکام کی موجودگی میں دعوی کیا وفاقی وزیر نے اپنے دعوے کی بعد میں تردید کی جس پر حکام وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے جواب دیا کہ ہمارے علم میں اس طرح کی تردید نہیں ہے جبکہ کمیٹی نے ذہانت اے آئی سے متعلق ایجنڈا آئندہ اجلاس تک موخر کردیا۔
چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ وفاقی وزیر آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام خود کمیٹی میں آکر اس کی وضاحت دیں، اگر آئندہ اجلاس میں وفاقی وزیر نہیں آئیں تو ہم وزیراعظم کو لکھیں گے۔
وزارت آئی ٹی حکام نے کہا کہ آئی ٹی برآمدات اس مالی سال کے آخر تک 3.
ڈیجیٹل فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کانفرنس سے متعلق قائمہ کمیٹی کو بریفنگ میں وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام حکام نے بتایا کہ مختلف ممالک نے ڈی ایف ڈی آئی کانفرنس میں شرکت کی۔ چیئرپرسن کمیٹی پلوشہ خان نے کہا کہ اربوں ڈالرز کے مختلف ممالک کے درمیان آئی ٹی سیکٹر میں ایم او یو کے معاہدے ہوئے۔ وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام حکام جنگ کے دوران ملک کیخلاف سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈہ جاری رہاپی ٹی اے نے اس حوالے سے کیا اقدامات کیے کیا پی ٹی اے کی جانب سے کوئی یوٹیوب چینلز بلاک کیے گئے۔
اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ پی ٹی اے کے پاس دو راستے ہیں، چینل بلاک کرلینا، یا مواد بلاک کرلینا اورپی ٹی اے دیکھتا ہے کہ اسے کس قسم کی شکایات موصول ہوتی ہیں کسی کے اکاؤنٹ بلاکنگ کی براہ راست درخواست نہیں آئی، پی ٹی اے کے پاس مواد بلاک کی روزانہ 300 درخواستیں آتی ہیں پی ٹی اے نے سرکاری اداروں کیلئے ایک پورٹل بنایا ہے گزشتہ پانچ ماہ 45 ہزار سے زائد شکایات پی ٹی اے کو موصول ہوئی ہیں فیسبک 72 فیصد، ٹک ٹاک 76 فیصد اور یوٹیوب کی 90 فیصد سے شکایات ہیں۔
اس پر رکن کمیٹی سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ ان سوشل کمینوں نے کہا جائے کہ پاکستان میں اپنے دفاتر بنائیں سوشل میڈیا کمپنیاں پہلے پاکستان کو پوٹیشنل مارکیٹ نہیں سمجھتے تھیں۔ چیئرمین پی ٹی اے کا کہنا تھا کہجب ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست مخالف مواد ہے تو کارروائی کرتے ہیں سوشل میڈیا کمپنیاں سیاسی مواد کو نہیں ہٹاتیں، سیاسی مواد کو ہٹانے کا پی ٹی اے کہے بھی تو کمپنیاں انکار کردیتی ہیں انفرادی شکایت پر سوشل میڈیا کمپنیاں صارف کو خود رسپانس دیتی ہیں۔
اجلاس میں وفاقی وزیر آئی ٹی کی عدم شرکت پر چیئرپرسن کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر آئی ٹی کہاں ہیں، انہیں اس اجلاس میں ہونا چاہیے تھا آج بجٹ فائنل ہورہا ہے وفاقی وزیر وہاں مصروف ہیں یہ تیسرا مسلسل اجلاس ہے وہ شرکت نہیں کرہے ہیں یہ اس کمیٹی اور سینیٹ کی توہین ہے وفاقی وزیر یہاں موجود ہوتیں تو اس چیز کی بہتر وضاحت ہوسکتی تھی آئندہ اجلاس میں وفاقی وزیر آئی ٹی کی شرکت یقینی بنائیں چیئرپرسن کمیٹی نے ایجنڈا وفاقی وزیر کی موجودگی تک ملتوی کردیا جبکہ کمیٹی نے پاکستان کرپٹو کونسل پر بریفنگ کیلئے بھی وزارت قانون اور وزارت خزانہ حکام کو طلب کرلیا۔
اجلاس میں پی ٹی اے کی جانب سے یوٹیوب چینلز بلاک کرنے سے متعلق اراکین کے سوالات کے جواب میں چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ پی ٹی اے کے پاس دو راستے ہیں، چینل بلاک کرلینا، یا مواد بلاک کرلینا اورپی ٹی اے دیکھتا ہے کہ اسے کس قسم کی شکایات موصول ہوتی ہیں کسی کے اکاؤنٹ بلاکنگ کی براہ راست درخواست نہیں آئی پی ٹی اے کے پاس مواد بلاک کی روزانہ 300 درخواستیں آتی ہیں پی ٹی اے نے سرکاری اداروں کیلئے ایک پورٹل بنایا ہے گزشتہ پانچ ماہ 45 ہزار سے زائد شکایات پی ٹی اے کو موصول ہوئی ہیں فیس بک 72 فیصد، ٹک ٹاک 76 فیصد اور یوٹیوب کی 90 فیصد سے شکایات ہیں ۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اجلاس میں وفاقی وزیر آئی ٹی وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کمیٹی کا کہنا تھا کہ پاکستان کرپٹو کونسل سینیٹر کامران مرتضی چیئرمین پی ٹی اے نے چیئرپرسن کمیٹی نے سیکیورٹی کلیئرنس سیکرٹری آئی ٹی نے کہا کہ وفاقی وزیر رکن کمیٹی سینیٹر آئندہ اجلاس میں نے کہا کہ وفاقی آئی ٹی برآمدات کرپٹو کونسل پر پی ٹی اے کے پاس آئی ٹی بی ذہانت اے آئی قائمہ کمیٹی وفاقی حکومت بلاک کرلینا ٹی نے کہا کہ میں سیکرٹری سوشل میڈیا کی جانب سے ایل ڈی آئی مواد بلاک پر بریفنگ بریفنگ دی آئی ٹی کی ٹی او آرز کمیٹی کو حوالے سے نہیں ہے حکام نے جائے گا ٹی اور کے بعد کہ کیا ہیں یہ
پڑھیں:
حکومت کا 2600 ارب کے قرضے قبل از وقت واپس اور سود میں 850 ارب کی بچت کا دعویٰ
اسلام آباد:حکومت نے 2600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کرنے اور سود میں 850 ارب روپے کی بچت کا دعویٰ کیا ہے۔
وفاقی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح 74 سے کم ہوکر70 فیصد ہوگئی ہے اور حکومت نے پہلی بار ملکی تاریخ میں 2,600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کیے، جس سے قرضوں کے خطرات کم ہوئے اور سیکڑوں ارب روپے کی سود کی بچت ہوئی ہے، لہٰذا محض اعداد و شمار پر قرضوں کی صورتحال کا اندازہ لگانا درست نہیں۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ آج پاکستان کی قرض صورتحال پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ پائیدار ہے۔ حکومت کا قرض و معیشت کے متوازن تناسب پر توجہ دینا، قبل از وقت قرضوں کی ادائیگیاں، سود کی لاگت میں کمی اور بیرونی کھاتوں کا استحکام، ملکی معیشت کو سنبھالا دینے، خطرات کم کرنے اور ذمہ دارانہ مالی نظم و ضبط کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔
وزارت خزانہ کی جانب سے منگل کو جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ جی ڈی پی کے تناسب سے قرض، ری فنانسنگ، رول اوور خطرات میں کمی اور سود ادائیگیوں میں بچت قرض حکمتِ عملی کے کلیدی اجزا ہیں۔
وزارتِ خزانہ کا مزید کہناہے کہ حکومت کی قرض حکمتِ عملی کا مقصد قومی قرضوں کو معیشت کے حجم کے مطابق رکھنا، قرضوں کی ری فنانسنگ، رول اوور کے خطرات کم کرنا اور سود کی ادائیگیوں میں نمایاں بچت یقینی بنانا ہے تاکہ ملکی مالی استحکام کو پائیدار بنایا جا سکے۔
وزارت خزانہ نے واضح کیا ہے کہ صرف قرضوں کی کل رقم دیکھ کر ملکی قرضوں کی پائیداری کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ افراطِ زر کے ساتھ کل رقم کا بڑھنا فطری ہے۔ قرضوں کی پائیداری کا درست پیمانہ یہ ہے کہ انہیں معیشت کے حجم کے تناسب (ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی) سے جانچا جائے جو عالمی سطح پر بھی معیار مانا جاتا ہے۔
اس پیمانے پر پاکستان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ مالی سال 2022 میں قرضوں کی شرح 74 فیصد تھی جو مالی سال 2025 میں کم ہو کر 70 فیصد رہ گئی ہے۔ اس دوران حکومت نے قرضوں کے خطرات کم کیے اور عوام کے اربوں روپے سود کی ادائیگیوں سے بچائے ہیں۔
وزارتِ خزانہ نے بتایا کہ حکومت نے پہلی بار ملکی تاریخ میں 2,600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کیے جس سے قرضوں کے خطرات کم ہوئے اور سینڑوں ارب روپے کی سود کی بچت ہوئی۔ مالی نظم و ضبط کے باعث مالی سال 2025 میں وفاقی خسارہ کم ہو کر 7.1 ٹریلین روپے رہا جو گزشتہ سال 7.7 ٹریلین روپے تھا۔ معیشت کے حجم کے حساب سے خسارہ 7.3 فیصد سے گھٹ کر 6.2 فیصد پر آ گیا ہے جبکہ مسلسل دوسرے سال 1.8 ٹریلین روپے کا تاریخی پرائمری سرپلس بھی حاصل کیا گیا۔
اس دوران مجموعی قرضوں میں سالانہ 13 فیصد اضافہ ہوا جو پچھلے 5 سال کے اوسط 17 فیصد سے کم ہے۔ وزارت خزانہ نے مزید بتایا کہ محتاط قرض مینجمنٹ اور شرح سود میں کمی کے نتیجے میں مالی سال 2025 میں سود کی مد میں بجٹ کے مقابلے میں 850 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
رواں مالی سال کے بجٹ میں سود کی ادائیگی کے لیے 8.2 ٹریلین روپے رکھے گئے ہیں جو گزشتہ سال 9.8 ٹریلین روپے تھے۔ قبل از وقت قرضوں کی واپسی سے قرضوں کی میچورٹی مدت بہتر ہوئی ہے، جس سے قرضوں کے خطرات کم ہوئے ہیں۔ مالی سال 2025 میں پبلک قرضوں کی اوسط میچورٹی 4 سال سے بڑھ کر ساڑھے 4 ہو گئی ہے، جبکہ ملکی قرضوں کی اوسط میچورٹی بھی 2.7 سال سے بڑھ کر 3.8 سال سے زائد ہو گئی ہے۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ بہتر مالی نظم و ضبط کا اثر بیرونی شعبے پر بھی مثبت پڑا ہے اور مالی سال 2025 میں 14 سال بعد پہلی بار 2 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاوٴنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا ہے، جس سے بیرونی مالی دباوٴ میں کمی آئی ہے۔
بیرونی قرضوں میں جزوی اضافہ ادائیگیوں کے توازن کے لیے حاصل سہولیات مثلاً آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ پروگرام اور سعودی آئل فنڈ جیسی نان کیش سہولیات کی وجہ سے ہوا، جن کے لیے روپے میں ادائیگی نہیں کرنی پڑتی۔ تقریباً 800 ارب روپے کا اضافہ صرف زرمبادلہ کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہوا ہے، نہ کہ نئے قرض لینے سے۔