جنگ بندی کی ضمانتوں کے بغیر اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہیں کرینگے، حماس کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
اپنے تازہ ترین اقدام میں قابض اسرائیلی رژیم نے امریکی ثالث کیجانب سے پیش کردہ معاہدے کو ماننے سے بھی انکار کر دیا کہ جس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا کہ قابض و سفاک صیہونی رژیم، غزہ میں جنگ کو روکنے سے مکمل طور پر انکاری ہے! اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے مرکزی رہنما محمود المرداوی نے اعلان کیا ہے کہ قابض صیہونی رژیم نے جنگ بندی کی اس تجویز کو قبول نہیں کیا کہ جس پر فلسطینی مزاحمت اور امریکی ثالث نے اتفاق کیا تھا۔ اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اس اقدام سے اسرائیل کا مقصد "اپنے اندرونی مسائل کو سلجھانا" ہے، محمود المرداوی نے کہا کہ ہماری قوم کو بھوک سے مار ڈالنے پر مبنی اسرائیل کی گھناؤنی پالیسی آزاد دنیا کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے حماس کے مرکزی رہنما نے تاکید کی کہ اسرائیل جنگ بندی کے پہلے ہی دن اپنے 10 قیدیوں کو رہا کروانے کا مطالبہ کر رہا ہے، وہ بھی معاہدے کی دیگر شقوں کے نفاذ کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی ضمانت فراہم کئے بغیر!
اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اسرائیل انسانی ہمدردی کے پروٹوکول کی کم سے کم شقوں کو بھی قبول کرنے پر تیار نہیں، محمود المرداوی نے کہا کہ ہم وہ معاہدہ چاہتے ہیں کہ جو ہم نے امریکی ثالث کے ساتھ کیا تھا، لیکن کافی ضمانتوں کے بغیر اس معاہدے کی کوئی اہمیت نہ ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی ثالث اسٹیو وٹکاف نے قبل ازیں جنگ بندی کے لئے پیش کردہ ہماری تجاویز کے ساتھ مکمل طور پر اتفاق کیا تھا لیکن آخر کار اسرائیلی فریق کی خواہش کے باعث وہ اس متفقہ مسودے سے پیچھے ہٹ گیا۔ حماس کے رہنما نے غاصب صیہونی رژیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم جنگ بندی کی خاطر خواہ ضمانتوں کے بغیر، 10 اسرائیلی قیدیوں کو کسی بھی صورت رہا نہیں کریں گے!!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکی ثالث
پڑھیں:
امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیسکو سے علیحدگی کی وجہ ادارے کی جانب سے ''تفریق کرنے والے سماجی و ثقافتی نظریات کو فروغ دینا‘‘ ہے۔
بروس نے کہا کہ یونیسکو کا فیصلہ کہ وہ ’’فلسطین کی ریاست‘‘ کو رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرتا ہے، امریکی پالیسی کے منافی ہے اور اس سے ادارے میں اسرائیل مخالف بیانیہ کو فروغ ملا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی اسسٹنٹ پریس سیکرٹری اینا کیلی نے کہا، ''یونیسکو ایسے تقسیم پسند ثقافتی و سماجی مقاصد کی حمایت کرتا ہے جو ان عام فہم پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتیں جن کے لیے امریکی عوام نے نومبر میں ووٹ دیا۔
(جاری ہے)
‘‘
یونیسکو کا ردِعملیونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے واشنگٹن کے فیصلے پر ''گہرے افسوس‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ اس صورتحال کے لیے پہلے سے تیار تھا۔
انہوں نے اسرائیل مخالف تعصب کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا، ''یہ دعوے یونیسکو کی اصل کوششوں کے برخلاف ہیں۔‘‘
اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں یونیسکو کے لیے ''غیر متزلزل حمایت‘‘ کا اعلان کیا اور کہا کہ امریکہ کا فیصلہ فرانس کی وابستگی کو کمزور نہیں کرے گا۔
یونیسکو کے اہلکاروں نے کہا کہ امریکی علیحدگی سے ادارے کے کچھ امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبوں پر محدود اثر پڑے گا، کیونکہ ادارہ اب متنوع مالی ذرائع سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کا صرف 8 فیصد بجٹ ہی امریکہ سے آتا ہے۔
اسرائیل کا ردعملاسرائیل نے امریکہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے یونیسکو پر ''مسلسل غلط اور اسرائیل مخالف جانبداری‘‘ کا الزام عائد کیا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں امریکہ کی ''اخلاقی حمایت اور قیادت‘‘ کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’اسرائیل کو نشانہ بنانے اور رکن ممالک کی سیاسی چالوں کا خاتمہ ضروری ہے، چاہے وہ یونیسکو ہو یا اقوام متحدہ کے دیگر پیشہ ور ادارے۔
‘‘ امریکہ پہلے بھی یونیسکو چھوڑ چکا ہےیونیسکو طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان ایک بین الاقوامی محاذ رہا ہے، جہاں فلسطینی عالمی اداروں اور معاہدوں میں شمولیت کے ذریعے اپنی ریاستی حیثیت تسلیم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسرائیل اور امریکہ کا مؤقف ہے کہ فلسطین کو اس وقت تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے میں شامل نہیں ہونا چاہیے جب تک وہ اسرائیل کے ساتھ ایک مکمل امن معاہدے کے تحت ریاستی درجہ حاصل نہ کر لے۔
امریکہ نے پہلی بار 1980 کی دہائی میں یونیسکو پر سوویت نواز جانبداری کا الزام لگا کر اس سے علیحدگی اختیار کی تھی، لیکن 2003 میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی۔ لیکن سابق صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں دو سال قبل امریکہ نے یونیسکو میں دوبارہ شمولیت اختیار کی تھی ۔
ادارت: صلاح الدین زین