اسلام آباد:

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ مودی خطے کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے اور وہ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو جنوبی ایشیا کے لیے غیر متوقع اور خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سیاسی فائدے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

خواجہ آصف نے واضح کیا کہ نریندر مودی کی موجودگی میں پورا خطہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ مودی کا حالیہ طرز عمل صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے امن کو داؤ پر لگا رہا ہے۔

وزیر دفاع نے بھارتی فوجی مشقوں کو محض ایک سیاسی تماشا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان اقدامات کا حقیقی مقصد بھارتی عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا اور مودی کی گرتی ہوئی مقبولیت کو وقتی سہارا دینا ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کی کسی غیر جانبدار تحقیقات کا عندیہ تک نہیں دیا، بلکہ الزامات کا رخ براہ راست پاکستان کی جانب موڑ دیا گیا۔

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ حالیہ تناؤ کے بعد پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف بیانیہ عالمی سطح پر مزید مستحکم ہوا ہے۔ انہوں نے دفاعی بجٹ کے حوالے سے کہا کہ ملک کی سکیورٹی کو درپیش چیلنجز کے پیش نظر ہماری مسلح افواج کو وسائل کی اشد ضرورت ہے اور اسی لیے دفاعی بجٹ میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

سابق اور موجودہ فوجی قیادت کے حوالے سے سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور موجودہ آرمی چیف کے طرز قیادت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

انہوں نے بھارت کی پانی بند کرنے کی دھمکیوں پر ردعمل دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کا پانی روکنا بھارت کے لیے اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھتا ہے۔ یہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر قانونی اور سیاسی طور پر بھارت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔

خواجہ آصف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کشمیر سے متعلق بات کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ٹرمپ کے صرف ایک بیان نے بھارت کو تلملا کر رکھ دیا تھا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر ایک ایسا تنازع ہے جو دبایا نہیں جا سکتا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خواجہ آصف نے نے بھارت کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

ایران جوہری پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتا، ایرانی وزیر خارجہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جولائی 2025ء) ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکی میڈیا ادارے فاکس نیوز کو بتایا کہ تہران اپنے یورینیم افزودگی کے پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتا جسے گزشتہ ماہ اسرائیل ایران لڑائی کے دوران شدید نقصان پہنچا تھا۔

لڑائی سے قبل تہران اور واشنگٹن نے عمان کی ثالثی میں جوہری مذاکرات کے پانچ دور منعقد کیے لیکن اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا کہ ایران کو یورینیم افزودہ کرنے کی کس حد تک اجازت دی جائے۔

اسرائیل اور امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران افزودگی کے اس سطح تک پہنچنے کے قریب ہے جو اسے فوری طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت دے گا، جبکہ تہران کا کہنا ہے کہ اس کا افزودگی کا پروگرام صرف پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔

(جاری ہے)

وزیر خارجہ نے پیر کو نشر ہونے والے ایک کلپ میں فاکس نیوز کے شو ''بریٹ بائر کے ساتھ خصوصی رپورٹ‘‘ کو بتایا، ''اسے (جوہری پروگرام کو) روک دیا گیا ہے کیونکہ، ہاں، نقصانات سنگین اور شدید ہیں۔

لیکن ظاہر ہے کہ ہم افزودگی ترک نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ہمارے اپنے سائنسدانوں کا کارنامہ ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ قومی فخر کا سوال ہے۔‘‘

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد ایران میں جوہری تنصیبات کو پہنچنے والا نقصان سنگین تھا اور اس کا مزید جائزہ لیا جا رہا ہے۔

عباس عراقچی نے کہا، ''یہ درست ہے کہ ہماری تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے، شدید نقصان پہنچا ہے، جس کی اب ہماری جوہری توانائی کی تنظیم کی طرف سے جانچ کی جا رہی ہے۔

لیکن جہاں تک میں جانتا ہوں، انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔‘‘ ’بات چیت کے لئے تیار ہیں‘

عراقچی نے انٹرویو کے آغاز میں کہا کہ ایران امریکہ کے ساتھ ''بات چیت کے لیے تیار ہے‘‘، لیکن یہ کہ وہ ''فی الحال‘‘ براہ راست بات چیت نہیں کریں گے۔

عراقچی کا کہنا تھا، ''اگر وہ (امریکہ) حل کے لیے آ رہے ہیں، تو میں ان کے ساتھ مشغول ہونے کے لیے تیار ہوں۔

‘‘

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ''ہم اعتماد سازی کے لیے ہر وہ اقدام کرنے کے لیے تیار ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن ہے اور ہمیشہ پرامن رہے گا، اور ایران کبھی بھی جوہری ہتھیاروں کی طرف نہیں جائے گا، اور اس کے بدلے میں ہم ان سے پابندیاں اٹھانے کی توقع رکھتے ہیں۔‘‘

’’لہذا، میرا امریکہ کو پیغام ہے کہ آئیے ایران کے جوہری پروگرام کے لیے بات چیت کے ذریعے حل تلاش کریں۔

‘‘

عراقچی نے کہا، ''ہمارے جوہری پروگرام کے لیے بات چیت کے ذریعے حل موجود ہے۔ ہم ماضی میں ایک بار ایسا کر چکے ہیں۔ ہم اسے ایک بار پھر کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

مشرق وسطیٰ میں جوہری طاقت

امریکہ کے اتحادی اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر حملہ کیا جس کے بعد مشرق وسطیٰ کے حریف 12 دن تک فضائی حملوں میں مصروف رہے، جس میں واشنگٹن نے ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری بھی کی۔

جون کے آخر میں فائر بندی ہوئی تھی۔

ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا فریق ہے جبکہ اسرائیل نہیں۔ اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ایران میں ایک فعال، مربوط ہتھیاروں کے پروگرام کے بارے میں ''کوئی قابل اعتماد اشارہ‘‘ نہیں ہے۔ تہران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف اور صرف پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔

اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف اس کی جنگ کا مقصد تہران کو اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • جب تم رفال اڑا ہی نہیں سکتے تو نئے جہاز کس لعنت کے لیے خرید رہے ہو؟ڈمی خواجہ آصف
  • ٹرمپ کے پاک بھارت سیز فائر کے مسلسل بیانات، راہول گاندھی مودی پر برس پڑے
  • اربعین پالیسی 2025 ایران کی زائرین کے لیے خدمات قابل تحسین ہیں۔ خواجہ رمیض حسن
  • موجودہ مون سون سسٹم کراچی کومتاثر نہیں کرے گا: ڈی جی محکمۂ موسمیات
  • ٹرمپ انتظامیہ کی پاک بھارت کشیدگی میں کردار کا دعویٰ، مودی سرکار کا ہزیمانہ ردعمل
  • دیامر‘ بوسرٹاپ جاں بحق ‘ 15سیاھ لاپتہ ؛ بھارت نے پانی چھوڑدیا ‘ آزاد کشمیر کے کئی علاقے زیرآب 
  • ملک بھر میں بارشوں سے ہلاکتیں 233 تک جاپہنچیں، شہری علاقوں میں اربن فلڈنگ کا خطرہ
  • بھارت کا پے در پے حادثات کے بعد میگ 21 طیاروں کو ہمیشہ کیلیے غیرفعال کرنے کا فیصلہ
  • بھارت میں مذہبی پابندیاں
  • ایران جوہری پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتا، ایرانی وزیر خارجہ