Daily Ausaf:
2025-06-05@04:36:32 GMT

سیاست کا بوجھ اہل سیاست خود اٹھائیں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT

پاک بھارت جنگ کےدوران قومی یکجہتی کی جو فضاء بنی ہےاس کابرقرار رہنا ملکی استحکام کےلئےبہت ضروری ہےحکومت اور اپوزیشن کے درمیان لیکن جب تک تنائو کی کیفیت رہے گی ملک میں سیاسی عدم استحکام رہے گا اور قومی یکجہتی بھی یقینی طور پر متاثر ہوگی۔ دریں حالات حکومت کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔
پاکستانی سیاست کا المیہ ہے کہ یہاں حکومت نے اپوزیشن کو کبھی اس وقت انگیج نہیں کیاجب یہ مضبوط ہوتی ہے۔ ہرحکومت اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت تب دیتی ہے جب اس کی نائو ڈوبنے لگتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اپوزیشن حکومت کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیتی ہے کیونکہ ’’گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو‘‘ کا نعرہ مستانہ اس کی زبان پر ہوتا ہے اور وہ حکومت کے کفن میں آخری کھیل ٹھونکنے کے لئے بےتاب ہوتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اور غلطیوں سے عبارت ہے۔ اہل سیاست خاص طور پر وہ جو حکومت میں ہوتے ہیں انہیں ہوش تب آتا ہے جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے۔90کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا طرز سیاست ہمارے سامنے آہے۔ پاور پالٹیکس کے سہارے وہ ایک دوسرے کی حکومتیں گراتے رہے۔ اصول، قاعدے اور ضابطے سب کتابی باتیں تھیں جس کا جدھر دائو لگا اس نے اپنےحریف کے گرانے میں دیر نہ لگائی۔ یکے بعد دیگرے دونوں صدارتی اختیار 58-2B کاشکار ہوئے۔ نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کو ہوش اس وقت آیاجب جنرل مشرف فوجی وردی پہنےجلوہ افروز ہوئے اور ان دونوں رہنمائوں کو سیاست سے آئوٹ کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں جلاوطن ہوئےتو احساس ہواکہ وہ کیاکرتے آئے ہیں۔ دریں حالات سنجیدہ سیاست کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا جب دونوں رہنمائوں کی کوششوں سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین ’’میثاق جمہوریت‘‘ طے پایا اور مستقبل کی سیاست کے زریں اصول کئے گئے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم اسی میثاق جمہوریت کا تحفہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے بعدازں غلطی یہ کی کہ انہوں نے تحریک انصاف کو ابھرتی ہوئی سیاسی قوت تسلیم کرنے سے انکار کیا اور چشم پوشی اختیار کی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد بھی تحریک انصاف کو انگیج کرنے کی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی حالانکہ انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کو صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت ملی اور قومی اسمبلی میں یہ تگڑی اپوزیشن بن کر سامنے آئی۔ آج ایک مرتبہ پھر یہ غلطی دہرائی جارہی ہے۔ حکومت اسٹیبلشمنٹ کے سہارے اپنے آپ کو مضبوط سمجھ رہی ہے چنانچہ یہ پھر اس راستے پر چلنے سے گریزاں ہے جو پائیدار سیاسی استحکام کا راستہ ہے۔ وقت اور حالات کی ایک ٹھوکر لگے گی اور یہ تنکوں کے سہارے قائم نام نہاد راج محل گر جائے گا۔ حیرانی ہوتی ہے کہ سیاسی لوگ غیرسیاسی انداز سے کیونکر سوچتے ہیں اور وہ بھی جب وہ بہت سے نشیب و فراز سے گزرچکےہوتے ہیں۔اب نوازشریف یاشہباز شریف اورآصف زرداری کوکیا سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا؟
سب باخبر ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سہارا ہمیشہ نہیں رہتا، ترجیحات بدلتی ہیں تو سیاسی چہرے اور کردار بھی بدل جاتے ہیں کل تک یہ سہارا عمران خان کو حاصل تھا آج ان کی جگہ شہباز شریف نے لے لی ہے۔ اگر صاحبان سیاست نے سیاسی مہرے ہی بن کر رہنا ہے پھر تو ٹھیک ہےلیکن اگر وطن عزیزمیں سیاست کوپائیدار بنیادوں پر استوار کرنا ہے اور جمہوریت کو دوام بخشنا ہے تو انہیں روایتی طاقت کے کھیل سے ہٹ کر راستہ اختیار کرنا ہوگا۔
آج پاکستان میں سیاسی محاذ پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ عمران خان کے لئے تو ایک نیا تجربہ ہے لیکن حکومت میں بیٹھے لوگ تو کئی بار ان گھن چکروں سے گزرے ہیں۔ اپنے تجربات کی روشنی میں انہیں ایک نیا سیاسی لائحہ عمل دینے کے لئے آگے بڑھنا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی شخصیات اپنے عمل اور اپنے بیانیے کی وجہ سے مقبول اور غیر مقبول ہوتے ہیں۔ درست سمت میں اٹھایاگیاکوئی قدم حکومت میں شامل جماعتوں کو غیرمقبول سے مقبول بنا سکتاہےتو دوسری طرف اپوزیشن غلط سمت میں سفرکرنا اسے مقبولیت سے غیر مقبولیت کی طرف لے کرجاسکتا ہے۔ یہ سطور لکھتے وقت میرے پیش نظر وہ تمام ایکشنز(Action) ہیں جنہوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو عوام کی نظروں میں غیر مقبول بنایا جبکہ دوسری طرف عمران خان اور تحریک انصاف کو عوام میں پذیرائی ملی۔ پاکستان کے عوام سیاسی طور پر بڑے باشعور ہیں، وہ بخوبی جان لیتے ہیں کہ تاریخ کی درست سمت میں کون کھڑا ہےاورکون ہےجو غلط راہ کا مسافر ہے۔حکومت وقت پر الزام ہےکہ یہ فارم 47 کی پیداوار ہے لیکن اس زمینی حقیقت سے بھی مفر نہیں ہے کہ جیسے تیسے یا صاف لفظوں میں کہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے سہارے زمام اقتدار اب ان کے ہاتھ آچکا ہے۔ اب اپوزیشن کو حکومت سےبات کئےبناکوئی اورچارہ نہیں کہ اصلاح احوال کادوسرا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ حکومت کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیےکہ جتنی جلد وہ اپوزیشن کو انگیج کرلے تو وہ اس کے حق میں بہتر رہےگا ورنہ پاکستان میں حالات کب پلٹا کھالیں کچھ کہانہیں جاسکتا۔ ایک ایسے وقت میں جب عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کا عندیہ دےچکے ہیں حکومت کو چاہیے کہ یہ خود سے آگے بڑھے اور بات چیت کا روڈمیپ دےعمران خان حکومت سے بات کرنے کے لئے کیوں تیار نہ ہوں گے جب سیاسی قیادت کی جانب سے 2024ء کے انتخابات کی دھاندلی کی تحقیقات، الیکشن ٹریبونلز کےجلد فیصلوں سمیت نئے مڈٹرم انتخابات جیسی پیشکش بات چیت کے ایجنڈے میں شامل ہوں گے۔ علاوہ ازیں عمران خان پربنائے جانے والے بے بنیاد مقدمات کا خاتمہ اور عمران خان کی رہائی کی پیشکش بھی موجودہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کا راستہ ہموار کرسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت دلیری دکھائے اور ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے وطن عزیز میں سیاسی استحکام کے لئے اپنا ناگزیر کردار ادا کرے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: تحریک انصاف کو اپوزیشن کو کے سہارے کے لئے

پڑھیں:

عمران خان کے بیٹے پاکستان آئیں گے ان پر سیاست کرنے پر کوئی پابندی نہیں، سلمان اکرم راجا

پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ ہماری تحریک جاری رہے گی، عمران خان کے بیٹے پاکستان آئیں گے ان پر سیاست کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔

یہ بات انہوں نے لاہور میں اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھچر اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ووٹ چوری کا سانحہ جس سے پاکستان گزر رہا ہے ریاست اور عام آدمی کے درمیان ووٹ رشتہ ہے، ہم ایسے ملک میں تو نہیں جہاں ڈکٹیٹر بیٹھا ہو، آٹھ فروری کو آئین پر حملہ ہوا اور کل پھر ڈاکا ڈالا گیا، ووٹ پر ڈاکا عوام اور ریاست پر حملہ ہے، پاکستان میں جمہوریت نہیں ڈھونگ ہے، ڈکٹیٹر شپ نے لبادہ اوڑھ رکھا ہے عدلیہ آزاد نہیں ہے کوئی جج آزاد نہیں ہے، سچ کو دیکھنے کی ہمت نہیں اس نظام میں۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حق کی آواز بلند کرنا ہمارا فریضہ اس کو ہم ادا کر رہے ہیں، کل ڈاکا سمبڑیال کے عوام پر نہیں بلکہ پورے ملک کے عوام پر تھا، آج اسپتالوں میں صحت کی سہولیات نہیں ہیں، ہماری قوم کو علم سے دور رکھ کر مفلوج کیا گیا، یہی وجہ پاکستان میں جمہوریت بہت تھوڑے وقت کے لئے آئی، بانی پی ٹی آئی جیل میں اصول کی جنگ کے لیے جیل میں ہیں میری پوری قوم سے درخواست جہدوجہد کا حصہ بنیں۔

انہوں نے کہا کہ آٹھ فروری کے الیکشن میں یہ دھاندلی کا طریقہ سیکھ رہے تھے، اب فارم 45 پہلے سے جیب میں ڈال رکھے تھے، ہمارے پولنگ ایجنٹ کو اندر سے نکال دیا گیا، 26ویں آئینی ترمیم میں ہمیں عدلیہ سے کوئی توقعات نہیں ہے، ہماری تحریک شروع ہے اور جاری رہے گی، بانی پی ٹی آئی کے بیٹے پاکستان آئیں گے ان پر سیاست کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔

ملک احمد خان بچھر نے کہا کہ کل کا ایک الیکشن ٹیسٹ تھا اس حکومت کا، کل پولیس گردی اور فسطائیت کی انتہا ہوگئی، کل ہمارے لوگوں کو گھسیٹ کر باہر نکالا گیا، کل انہوں نے بوگس ووٹ ڈالے ہیں، کل میں 3 پولنگ اسٹیشنز پر تھا جہاں ہمارا ریشو 20 فیصد تھا، نتیجہ آیا تو بی بی نے اپنے فوت ہونے والے والد سے بھی 20 ہزار زائد ووٹ لیے، کل پوری کوشش کی گئی کے فساد کروایا جائے، ہم پر لاٹھی چارج ہوا، کل پنجاب کے تمام اسٹیک ہولڈرز وہاں موجود تھے ہم نے بتایا کے ہم ایک منظم جماعت ہیں۔

ریجنل پریزیڈنٹ پی ٹی آئی احمد چٹھا نے کہا کہ کل جو الیکشن ہوا اس سے ثابت ہوا کے بندے عوام نہیں چن رہی، جب بندے عوام نہیں چن رہی تو یہ خدمت کیسے کریں گے؟ 2024ء سے 20 ہزار ووٹ زیادہ ڈالے گئے یہ کیسے ممکن ہے، دھاندلی کی شروعات وہیں سے ہوجاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب پنجاب حکومت اپنے ملازم آر او لگاتی ہے، پہلے ہی بیلٹ پیپر الگ کر لئے جاتے ہیں، جس پر ٹھپے لگے ہوتے ہیں، الیکشن سے کئی دن پہلے بیلٹ باکس بھروا کر رکھے جاتے ہیں، پولیس کا کام ہوتا ہے ہمیں ڈرانا اور الیکشن تھوڑی دیر کے لئے روکنا، 
اس تھوڑی دیر میں یہ بیلٹ باکس تبدیل کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • منظور مانیکاخاندان کا پاکپتن کی سیاست میں اہم مقام ہے‘ گورنر 
  • الیکشن کی ساکھ ختم ہو چکی ، لگتا ہے اب کھلی بولی لگے گی. مصطفی نواز کھوکھر
  • باجوہ کیخلاف کچھ کہتا ہوں تو وہ میرے بڑوں سے شکایتیں کرتے ہیں، خواجہ آصف
  • وفاقی حکومت نے کے الیکٹرک ٹیرف کے خلاف نیپرا میں اپیل دائر کردی
  • عمران خان کے بیٹے پاکستان آئیں گے ان پر سیاست کرنے پر کوئی پابندی نہیں، سلمان اکرم راجا
  • ’آپ کرکٹ پر توجہ دیں، سیاست ہم پر چھوڑ دیں‘، صدر زرداری کی کھلاڑیوں سے گفتگو وائرل
  • آپریشن سندور: سی ڈی ایس کے بیان پر بھارتی سیاست میں تشویش، خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ
  • آپریشن سندور: بھارتی چیف کا طیارے گرنے کا اعتراف، اپوزیشن کا پارلیمنٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ
  • آپریشن سندور: بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا طیارے گرنے کا اعتراف، اپوزیشن کا پارلیمنٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ