سیاست کا بوجھ اہل سیاست خود اٹھائیں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
پاک بھارت جنگ کےدوران قومی یکجہتی کی جو فضاء بنی ہےاس کابرقرار رہنا ملکی استحکام کےلئےبہت ضروری ہےحکومت اور اپوزیشن کے درمیان لیکن جب تک تنائو کی کیفیت رہے گی ملک میں سیاسی عدم استحکام رہے گا اور قومی یکجہتی بھی یقینی طور پر متاثر ہوگی۔ دریں حالات حکومت کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔
پاکستانی سیاست کا المیہ ہے کہ یہاں حکومت نے اپوزیشن کو کبھی اس وقت انگیج نہیں کیاجب یہ مضبوط ہوتی ہے۔ ہرحکومت اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت تب دیتی ہے جب اس کی نائو ڈوبنے لگتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اپوزیشن حکومت کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیتی ہے کیونکہ ’’گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو‘‘ کا نعرہ مستانہ اس کی زبان پر ہوتا ہے اور وہ حکومت کے کفن میں آخری کھیل ٹھونکنے کے لئے بےتاب ہوتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اور غلطیوں سے عبارت ہے۔ اہل سیاست خاص طور پر وہ جو حکومت میں ہوتے ہیں انہیں ہوش تب آتا ہے جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے۔90کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا طرز سیاست ہمارے سامنے آہے۔ پاور پالٹیکس کے سہارے وہ ایک دوسرے کی حکومتیں گراتے رہے۔ اصول، قاعدے اور ضابطے سب کتابی باتیں تھیں جس کا جدھر دائو لگا اس نے اپنےحریف کے گرانے میں دیر نہ لگائی۔ یکے بعد دیگرے دونوں صدارتی اختیار 58-2B کاشکار ہوئے۔ نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کو ہوش اس وقت آیاجب جنرل مشرف فوجی وردی پہنےجلوہ افروز ہوئے اور ان دونوں رہنمائوں کو سیاست سے آئوٹ کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں جلاوطن ہوئےتو احساس ہواکہ وہ کیاکرتے آئے ہیں۔ دریں حالات سنجیدہ سیاست کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا جب دونوں رہنمائوں کی کوششوں سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین ’’میثاق جمہوریت‘‘ طے پایا اور مستقبل کی سیاست کے زریں اصول کئے گئے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم اسی میثاق جمہوریت کا تحفہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے بعدازں غلطی یہ کی کہ انہوں نے تحریک انصاف کو ابھرتی ہوئی سیاسی قوت تسلیم کرنے سے انکار کیا اور چشم پوشی اختیار کی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد بھی تحریک انصاف کو انگیج کرنے کی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی حالانکہ انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کو صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت ملی اور قومی اسمبلی میں یہ تگڑی اپوزیشن بن کر سامنے آئی۔ آج ایک مرتبہ پھر یہ غلطی دہرائی جارہی ہے۔ حکومت اسٹیبلشمنٹ کے سہارے اپنے آپ کو مضبوط سمجھ رہی ہے چنانچہ یہ پھر اس راستے پر چلنے سے گریزاں ہے جو پائیدار سیاسی استحکام کا راستہ ہے۔ وقت اور حالات کی ایک ٹھوکر لگے گی اور یہ تنکوں کے سہارے قائم نام نہاد راج محل گر جائے گا۔ حیرانی ہوتی ہے کہ سیاسی لوگ غیرسیاسی انداز سے کیونکر سوچتے ہیں اور وہ بھی جب وہ بہت سے نشیب و فراز سے گزرچکےہوتے ہیں۔اب نوازشریف یاشہباز شریف اورآصف زرداری کوکیا سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا؟
سب باخبر ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سہارا ہمیشہ نہیں رہتا، ترجیحات بدلتی ہیں تو سیاسی چہرے اور کردار بھی بدل جاتے ہیں کل تک یہ سہارا عمران خان کو حاصل تھا آج ان کی جگہ شہباز شریف نے لے لی ہے۔ اگر صاحبان سیاست نے سیاسی مہرے ہی بن کر رہنا ہے پھر تو ٹھیک ہےلیکن اگر وطن عزیزمیں سیاست کوپائیدار بنیادوں پر استوار کرنا ہے اور جمہوریت کو دوام بخشنا ہے تو انہیں روایتی طاقت کے کھیل سے ہٹ کر راستہ اختیار کرنا ہوگا۔
آج پاکستان میں سیاسی محاذ پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ عمران خان کے لئے تو ایک نیا تجربہ ہے لیکن حکومت میں بیٹھے لوگ تو کئی بار ان گھن چکروں سے گزرے ہیں۔ اپنے تجربات کی روشنی میں انہیں ایک نیا سیاسی لائحہ عمل دینے کے لئے آگے بڑھنا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی شخصیات اپنے عمل اور اپنے بیانیے کی وجہ سے مقبول اور غیر مقبول ہوتے ہیں۔ درست سمت میں اٹھایاگیاکوئی قدم حکومت میں شامل جماعتوں کو غیرمقبول سے مقبول بنا سکتاہےتو دوسری طرف اپوزیشن غلط سمت میں سفرکرنا اسے مقبولیت سے غیر مقبولیت کی طرف لے کرجاسکتا ہے۔ یہ سطور لکھتے وقت میرے پیش نظر وہ تمام ایکشنز(Action) ہیں جنہوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو عوام کی نظروں میں غیر مقبول بنایا جبکہ دوسری طرف عمران خان اور تحریک انصاف کو عوام میں پذیرائی ملی۔ پاکستان کے عوام سیاسی طور پر بڑے باشعور ہیں، وہ بخوبی جان لیتے ہیں کہ تاریخ کی درست سمت میں کون کھڑا ہےاورکون ہےجو غلط راہ کا مسافر ہے۔حکومت وقت پر الزام ہےکہ یہ فارم 47 کی پیداوار ہے لیکن اس زمینی حقیقت سے بھی مفر نہیں ہے کہ جیسے تیسے یا صاف لفظوں میں کہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے سہارے زمام اقتدار اب ان کے ہاتھ آچکا ہے۔ اب اپوزیشن کو حکومت سےبات کئےبناکوئی اورچارہ نہیں کہ اصلاح احوال کادوسرا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ حکومت کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیےکہ جتنی جلد وہ اپوزیشن کو انگیج کرلے تو وہ اس کے حق میں بہتر رہےگا ورنہ پاکستان میں حالات کب پلٹا کھالیں کچھ کہانہیں جاسکتا۔ ایک ایسے وقت میں جب عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کا عندیہ دےچکے ہیں حکومت کو چاہیے کہ یہ خود سے آگے بڑھے اور بات چیت کا روڈمیپ دےعمران خان حکومت سے بات کرنے کے لئے کیوں تیار نہ ہوں گے جب سیاسی قیادت کی جانب سے 2024ء کے انتخابات کی دھاندلی کی تحقیقات، الیکشن ٹریبونلز کےجلد فیصلوں سمیت نئے مڈٹرم انتخابات جیسی پیشکش بات چیت کے ایجنڈے میں شامل ہوں گے۔ علاوہ ازیں عمران خان پربنائے جانے والے بے بنیاد مقدمات کا خاتمہ اور عمران خان کی رہائی کی پیشکش بھی موجودہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کا راستہ ہموار کرسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت دلیری دکھائے اور ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے وطن عزیز میں سیاسی استحکام کے لئے اپنا ناگزیر کردار ادا کرے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تحریک انصاف کو اپوزیشن کو کے سہارے کے لئے
پڑھیں:
اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ: کیا اپوزیشن کے 26 ارکان کی معطلی کا معاملہ حل ہوگیا؟
بجٹ اجلاس کے دوران ہنگامہ آرائی سے شروع ہونے والا پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے 26 ارکان کی معطلی کا معاملہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسپیکر پنجاب اسمبلی نے 26 اپوزیشن اراکین کی نااہلی کی درخواستیں مسترد کر دیں
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے ایوان میں اپنی رولنگ سناتے ہوئے ارکان کی نااہلی کی درخواستوں کو مسترد کر دیا اور واضح کیا کہ منتخب نمائندوں کو عدالتی فیصلے کے بغیر نااہل نہیں کیا جا سکتا۔
26 اراکین کی معطلی کا واقعہیہ تنازعہ 27 جون 2025 کو پنجاب اسمبلی کے بجٹ سیشن کے دوران شروع ہوا جب وزیراعلیٰ مریم نواز کی تقریر کے وقت اپوزیشن ارکان نے شدید ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی کی، ایجنڈے کے دستاویزات پھاڑ کر حکومتی بینچز پر پھینک دیں اور ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔ اسپیکر ملک محمد احمد خان نے اسے ایوان کی حرمت اور نظم و ضبط کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسمبلی رول 210 (3) اور آئین کے آرٹیکل 62 کی اہلیت کے منافی ہے۔
اگلے روز، 28 جون 2025 کو، اسپیکر نے اپنی رولنگ جاری کرتے ہوئے ان 26 ارکان کو 15 اجلاسوں کے لیے معطل کر دیا۔
معطل ارکان میں ملک فہد مسعود، محمد تنویر اسلم، سید رفعت محمود، یاسر محمود قریشی، کلیم اللہ خان، انصر اقبال، علی آصف، ذوالفقار علی، احمد مجتبیٰ چوہدری، امتیاز محمود، علی امتیاز، محمد اعجاز شفیع، سجاد احمد، رانا اورنگزیب، شعیب امیر اور دیگر شامل تھے۔
مزید پڑھیے: پنجاب اسمبلی کے معطل اپوزیشن ارکان کی ایوان میں واپسی کی راہ ہموار
اسپیکر نے عالمی پارلیمانی روایات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ احتجاج کا حق ہے لیکن اس کی حدود آئین اور قواعد کے تابع ہیں۔ اس کے بعد 4 جولائی 2025 کو اسپیکر نے ان ارکان کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ریفرنس بھیج دیا جس میں الزام لگایا گیا کہ اراکین کی کارروائی آئینی حلف کی خلاف ورزی ہے۔
اپوزیشن نے اسے سیاسی انتقام قرار دیا اور بحالی تک ایوان کی کارروائی میں شرکت سے انکار کر دیا۔
بحالی کیسے ہوئیمعطلی کے فوراً بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی کمیٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔ جولائی 2025 کو مذاکرات شروع ہوئے جو ابتدائی طور پر بے نتیجہ رہے لیکن 13 جولائی کو پھر حکومتی اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔
مذکورہ اجلاس میں کہا گیا کہ ایتھیکس کمیٹی کو فعال کرنا، نازیبا زبان اور نعرے بازی سے گریز اور قائدین کی تقریروں کو خاموشی سے سننا جائے گا ۔
17 جولائی 2025 کو مذاکرات کامیاب ہوئے جہاں 26 ارکان کی بحالی پر اتفاق ہوا۔ اسپیکر جو اس وقت بیرون ملک تھےانہوں نے آڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی اور بحالی کا اعلان رولنگ سے کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس کے بعد اسمبلی سیکریٹریٹ نے حکومتی درخواستوں بشمول ای سی پی ریفرنس کو ڈراپ کرنے کا ڈرافٹ تیار کیا جو سپیکر کی منظوری پر جاری ہوا۔
قائم مقام اسپیکر ظہیر اقبال چنڑ نے فوری بحالی کا حکم دیا اور نوٹیفکیشن جاری کیا جس سے ارکان ایوان میں واپس آ گئے۔
بحالی کے بعد اسپیکر ملک محمد احمد خان نے ایوان میں اپنی حتمی رولنگ سنائی۔
مزید پڑھیں: 26 اراکین پنجاب اسمبلی کی معطلی: حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ختم
رولنگ میں واضح کیا گیا کہ کسی عوامی نمائندے کو نااہل کرنا صرف ایک آواز دبانا نہیں بلکہ عوام کو ان کے حقِ نمائندگی سے محروم کرنا ہے۔
اسپیکر نے ’نہ‘ کہتے ہوئے استدلال کیا کہ منتخب ارکان کو اسپیکر یا ای سی پی کے لیے نااہل نہیں کر سکتے ۔
درخواست گزاران نے آئینی حلف سمیت سنگین قانونی اور آئینی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے ہیں تاہم ان خلاف ورزیوں کو پہلے کسی مجاز عدالت یا ٹربیونل میں ثابت کرنا ضروری ہے، درخواست گزار مجاز عدالت سے فیصلہ حاصل کرنے کے بعد دوبارہ اسپیکر سے رجوع کر سکتے ہیں۔
ایک منتخب ایوان صرف قانون سازی کا ادارہ نہیں بلکہ عوام کی آواز اور اعتماد کا مظہر ہے۔ عدالتی فیصلے کے بغیر اسے خاموش کرنا جمہوری اصولوں کی توہین ہے۔ رولنگ میں مزید کہا گیا کہ یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 63(2) کے تحت نااہلی کا سوال پیدا نہیں کرتا۔
یہ بھی پڑھیے: پنجاب اسمبلی کے معطل ارکان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے خیبرپختونخوا کا قافلہ لاہور روانہ
اسپیکر نے واضح کیا کہ ہنگامہ آرائی جیسے مسائل آئینی اہمیت کے ہیں لیکن نااہلی جیسا سنگین قدم عدالتی عمل کے بغیر نہیں اٹھایا جا سکتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب اپوزیشن اراکین کی معطلی پنجاب اپوزیشن ارکان بحال پنجاب اسمبلی پنجاب اسمبلی اپوزیشن اراکین