Express News:
2025-07-23@20:09:47 GMT

ایک افریقی سیاسی راک اسٹار کی تقریر (حصہ اول)

اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT

اردو صحافت میں افریقہ کا ذکر ہوتا بھی ہے تو انسانی اسمگلنگ ، خانہ جنگی ، قحط سالی اور پسماندگی کے حوالے سے ہوتا ہے۔ کبھی کبھار منڈیلا ، نکروما ، لوممبا یا سنکارا جیسے انقلابیوں کا مختصر ذکر بھی ہو جاتا ہے۔مگر آج کا افریقہ کیا سوچ رہا ہے اور وہاں کیا تبدیلیاں انگڑائیاں لے رہی ہیں۔ہم میں سے اکثر اس کی کھوج کے بارے میں سوچتے بھی نہیں۔

اس پس منظر میں ان دنوں سوشل میڈیا پر افریقی نوجوانوں کی آنکھ کا تارہ اگر کوئی ہے تو وہ ہے مغربی افریقہ کے ملک برکینا فاسو کا فوجی صدر سینتیس سالہ کیپٹن ابراہیم ترورے۔

دو ہزار بائیس میں سابق نوآبادیاتی طاقت فرانس کی حاشیہ بردار حکومت کا تختہ پلٹنے والے کیپٹن ترورے نے آتے ہی فرانسیسی فوجی اڈے بند کر دیے اور روس اور چین سے مراسم بڑھا لیے۔وہ اب مغربی افریقی ممالک کا ایک علاقائی اتحاد بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

ابراہیم ترورے نے گزشتہ ڈھائی برس کے دوران سونا نکالنے والی مغربی کمپنیوں سے برکینا فاسو کی حصہ داری کا مطالبہ منوایا۔زرعی اصلاحات کیں۔ کیپٹن ترورے کی توپوں کا رخ اکثر عالمی مالیاتی اداروں اور نو آبادیاتی طاقتوں کی جانب رہتا ہے مگر آئی ایم ایف اور عالمی بینک بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ کیپٹن ترورے کے دور میں برکینا فاسو کی معیشت میں قدرے بہتری آئی اور غربت کی شرح بھی کم ہوئی ہے۔

کیپٹن ترورے بلا کے مقرر ہیں۔ان دنوں ان کی ایک تقریر سوشل میڈیا پر وائرل ہے جو انھوں نے ہمسایہ ملک گھانا کے نئے صدر کی تقریبِ حلف برداری کے موقع پر کی۔اس تقریب میں بائیسں دیگر افریقی سربراہانِ بھی موجود تھے۔ اس خطاب میں ایسا بہت کچھ ہے جو آپ کو شاید اپنا اپنا سا لگے۔لہٰذا میں کیپٹن ترورے کے اس خطاب کو تین قسطوں میں پیش کر رہا ہوں۔پڑھئے اور اپنے بارے میں بھی سوچیے۔

’’ عزیز افریقیو ،

قوموں کی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب خاموش رہنا منافقت کے برابر ہے۔میرا نام کیپٹن ابراہیم ترورے ہے۔میں مہذب سفارتی زبان نہیں جانتا۔میں ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے بورڈ رومز میں بسی خوشبو سے بھی ناواقف ہوں۔ نہ واشنگٹن کا تربیت یافتہ ہوں نہ ہی جنیوا کے آداب جانتا ہوں۔میں تو اس محاذ پر ہوں جہاں میرے لوگ خونم خون ہیں۔میں اس خطے کے لیے بول رہا ہوں جسے عشروں سے ساہوکاروں نے اپنی جیل سمجھا ہے۔

آج میں لرزتی آواز میں نہیں بلکہ صدیوں بھرے افریقی درد سے لبریز آواز میں مخاطب ہوں۔ طویل عرصے سے آئی ایم ایف بیمار معیشتوں کی دوا کر رہا ہے۔مگر ہمارا تجربہ یہ ہے کہ یہ دوا اکثر جان لیوا ثابت ہوئی ہے۔بین الاقوامی قرضے مسکراتے معاہدوں میں لپٹے زہریلے تیر اور معاشی استحکام کے نام پر گلا دبانے کی کوشش ہیں۔ اصلاحات کا عملی مطلب غیرملکی لیبارٹریوں میں تیار کردہ ماڈلز کی تابعداری ہے۔مگر اب ہم اقتصادی بساط کے مہرے بننے پر تیار نہیں۔افریقہ کو جاگنے کے بعد سانس لینے کے لیے آپ کی اجازت درکار نہیں۔

کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ میں قرضوں کی تنسیخ کی بھیک مانگ رہا ہوں یا شرائط میں نرمی کی وکالت کر رہا ہوں۔میں وہ بتانے کی جرات کر رہا ہوں جو اکثر افریقی رہنما بتانے سے ہچکچاتے ہیں۔ ہمارے جواہرات سے مغرب کا خزانہ بھرتا رہے اور ہم ان کی شرائط پر ناچتے رہیں۔ہرگز نہیں۔ہم کسانوں کو اپاہج کرنے والی پالیسیوں اور نوجوانوں کو جنم بھومی چھوڑنے پر مجبور کرنے والی دھن پر اور نہیں تھرکنا چاہتے۔ اچھی گورنننس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اپنی قومی دولت بیرونی کمپنیوں کے مسکراتے مشیروں کے حوالے کر دی جائے۔

 ہم ایک نیا مکالمہ چاہتے ہیں۔ساہوکار اور مقروض کا نہیں بلکہ دو مساوی فریقوں کا مکالمہ۔ ابھرتا ہوا شعور ہمیں سمجھا رہا ہے کہ آپ جو قرضہ افریقہ کو پیش کر رہے ہیں وہ ترقی کا زینہ یا غربت پار کرانے والا پل نہیں بلکہ سوٹڈ بوٹڈ ہاتھوں میں سپریڈ شیٹس کی شکل میں نئی زنجیر ہے۔آپ جسے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ کہتے ہیں ہم اسے اسٹرکچرل سزا کہتے ہیں۔آپ جس شے کو مالیاتی نظم و ضبط کہتے ہیں ہم اسے نسل در نسل محرومی کا تسلسل سمجھتے ہیں۔آپ پارٹنر شپ کی بات کرتے ہیں۔مگر ایک پارٹنر مسلسل منافع میں ہو اور دوسرا نڈھال تو یہ شراکت داری نہیں لوٹ مار ہے۔

میرا سوال ہے کہ یورینیم ، کوبالٹ اور زرخیز زمین سے مالامال کوئی قوم آخر غریب کیسے ہو سکتی ہے ؟ کیسے ایک براعظم پوری دنیا کی صنعت کو ایندھن فراہم کرتا ہو مگر اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے سے قاصر ہو ؟

ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس کا سبب ہماری بدانتظامی ، بدعنوانی اور نا اہلی ہے۔یہ بات درست ہے کہ افریقہ ان ناسوروں کا مارا ہوا ہے۔ مگر ان میں سے متعدد زخم آپ کے ہاتھوں کی دین ہیں جو اب ہمیں ان علتوں کے علاج کے نام پر سود سے لتھڑے نسخے تھما رہے ہیں۔

میں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کی پاور پوائنٹ پریزنٹیشن والا دل کش قرضہ ہمارے گلی کوچوں میں کیا گل کھلا رہا ہے۔ہمارے بچے موم بتی کی روشنی میں پڑھ رہے ہیں کیونکہ بجلی کے نظام کو نجکاری کے نام پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حوالے کر دیا گیا۔وہ بجلی کے ایسے نرخ مانگ رہے ہیں جو ہمارے لوگوں کے بس سے باہر ہیں۔

ٹوٹے بستروں سے اٹے اسپتال اینٹی بائیوٹک ادویات سے خالی ہیں۔عورتیں دورانِ زچگی مر رہی ہیں کیونکہ آپ کی شرط ہے کہ ہم عوامی صحت پر زیادہ نہ خرچ کریں۔لاکھوں گریجویٹس کا کوئی مستقبل نہیں کیونکہ ملازمتیں پیدا کرنے والے شعبے آؤٹ سورس ہو گئے یا بیچ دیے گئے یا آپ کی کھلی منڈی کی پالیسیوں تلے کچلے گئے۔

قرضوں کی واپسی کا آپ کا وضع کردہ منصوبہ حیات بخش نہیں بلکہ موت کا پروانہ ہے۔ آپ ہمیں پانچ سو ملین ڈالر تھما کر سالہاسال کی ری اسٹرکچرنگ فیس اس میں ڈال کے ہم سے دو بلین ڈالر وصول کرتے ہو۔آپ کہتے ہو کہ معاہدے باہمی رضامندی سے طے پاتے ہیں۔ یہ کیسی باہمی رضامندی ہے کہ مریض خونم خون ہو اور صرف آپ کے پاس وہ دوا ہو جو آپ من مانی قیمت پر بیچیں۔

محترم آئی ایم ایف ، یہ رضامندی نہیں معاشی دھونس ہے۔یہ ترقی نہیں تسلط ہے۔یہ عالمگیریت نہیں مالیاتی رسوں سے مسلح نیا نوآبادیاتی نظام ہے۔افریقیوں کی نئی نسل نابینا نہیں ۔ ہماری ہی محنت سے بنی میز پر پڑے ہماری ہی روٹی کے چند ٹکڑے ہمیں ہی عطا کرنے پر ہم آپ کے شکر گذار نہیں ہو سکتے۔ہم معاشی کارکردگی بہتر کرنے کے نام پر آپ کے فارمولوں پر تالیاں پیٹنے سے اوبھ چکے ہیں۔ہم اپنے نام پر لکھے جانے والے قرضے آپ کے ماہرین اور مشیروں کے ہاتھوں میں غائب ہونے اور پھر ان غائب قرضوں کے عوض اپنی آزادی کا سودا کرنے کو مزید تیار نہیں۔

افریقہ آپ کا نہیں بلکہ آپ افریقہ کے مقروض ہو۔ اس سونے کے مقروض ہو جو بھاری بھاری بوٹوں کے زور پر چھینا گیا۔ ان معدنیات کے مقروض ہو جو آپ کے اسمارٹ فون کو روشن رکھتی ہیں جب کہ ہمارے دیہات تاریکی جھیلتے ہیں۔ ان ہیروں کے مقروض ہو جن کی خاطر ہم لہولہان کیے جاتے ہیں۔

 ہم خیرات نہیں انصاف مانگ رہے ہیں اور انصاف کا تقاضا ہے کہ قرضوں کے استحصالی ڈھانچے کو سدھارا جائے۔انصاف کا مطلب ہمیں یہ جاننے کا حق ہے کہ آپ نے ہم سے کیا لیا اور ہم نے آپ سے کیا لیا ۔انصاف یہ ہے کہ ہمیں اپنا مالیاتی مستقبل وضع کرنے کی آزادی ہو۔اگر یہ باتیں آپ کو چبھ رہی ہیں تو یہ اچھی علامت ہے۔کیونکہ یہی وقت ہے کہ جو اس نظام سے مطمئن ہیں ان سے دوبدو بات کی جائے۔

افریقہ میں بہت سی ریاستیں اور بہت سے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔مگر خود مختاری کے بغیر آزادی وہم ہے۔بظاہر آپ ہم پر حکمران نہیں مگر ہمارا بجٹ آپ بناتے ہو۔آپ ہمارے انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالتے مگر یہ فیصلہ آپ کرتے ہو کہ ہماری معیشت ڈھ جائے یا سانس لیتی رہے۔ آپ ہمارے اندرونی معاملات میں غیر جانبداری کا دعوی کرتے ہو لیکن آپ کے ہی قلم کی روشنائی ہمارے قوانین لکھتی ہے۔آپ ہمارے منتخب رہنماؤں کو ان کی حدود بتاتے رہتے ہو۔یہ مدد نہیں سیاسی انجینیرنگ ہے۔

آپ بظاہر بموں کے بجائے بریف کیسوں اور ڈرائنگز سے مسلح آتے ہو مگر نقصان اتنا ہی پہنچاتے ہو۔ ٹیکنیکل زبان میں لپٹی آپ کی شرائط ایک سائلنسر لگی بندوق ہیں۔آپ کے سفارشاتی احکامات بہت دلکش ہیں۔سبسڈیز میں تخفیف کرو ، منڈیاں کھولو ، کرنسی کی قدر میں کمی کرو۔

مگر یہ کیسی سفارشات ہیں جن سے انکار کی قیمت بھک مری ہے۔یہ کیسی تجویز ہے جس کی تابعداری پر ہی اگلے قرضے کا دارو مدار ہے۔یہ بات ہم کب تک چھپائیں کہ آپ ہمارے اندرونی معاملات میں مکمل دخیل ہو۔

ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کفائیت شعاری سے کرپشن ختم ہو جائے گی۔مگر یہ امید ختم کر رہی ہے۔ہمیں کہا جاتا ہے کہ کھلی منڈی ہمیں اوپر لے جائے گی۔مگر اس سے پیدا ہونے والی دولت سمندر پار منتقل ہو رہی ہے۔اور جب ہمارے لوگ احتجاج کرتے ہیں تو آپ بالکل لاتعلق ہو کے کہتے ہو کہ ہم تو بس مبصر ہیں۔ تاریخ سب تماشا دیکھ رہی ہے ’’۔   ( جاری ہے)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجییے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کیپٹن ترورے کے مقروض ہو نہیں بلکہ کے نام پر رہا ہوں رہے ہیں جاتا ہے ہے کہ ا ہے مگر رہا ہے ہیں ہم کے لیے کر رہا

پڑھیں:

’’ سیاسی بیانات‘‘

پی ٹی آئی کی طرف سے بنائی گئی تحریک تحفظ آئین کے سربراہ، بلوچستان سے قومی اسمبلی کے رکن اور ماضی میں شریف فیملی سے نہایت قریبی تعلق رکھنے والے سیاستدان محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ملک میں آئین معطل ہو چکا، ہماری پارلیمنٹ کے اختیارات و بنیادی انسانی حقوق، جلسہ و جلوس، تحریر و تقریر اور احتجاج کرنے کی آزادی سب کچھ چھین لیے گئے ہیں اور ہمیں یہ خوف ہے کہ پاکستان ہماری اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے ڈوب رہا ہے اور ملک کے تمام ادارے کرپشن میں مبتلا ہیں، جس کے خلاف ہر پاکستانی کو نکلنا ہوگا اور موجودہ حکومت کا خاتمہ بے حد ضروری ہو چکا ہے۔

حکومت مخالف سیاستدانوں کے ایسے بیانات آتے رہے ہیں تاہم جناب محمود اچکزئی نے نیا انکشاف یہ کیا ہے کہ ملک کا آئین معطل ہو چکا ہے لیکن دوسری طرف وہ اسی آئین کے تحت قائم قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور ایوان میں جا کر دھواں دھار تقریرکرتے اور موجودہ حکومت کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے عوام کو نظرانداز کر کے ارکان پارلیمنٹ کی بہت زیادہ تنخواہ اور مراعات بڑھائی ہیں جو تمام ارکان پارلیمنٹ باقاعدگی سے وصول کر رہے ہیں، ان ارکان میں وہ بھی شامل ہیں جو ایوان میں موجود رہنا گوارا نہیں کرتے۔ اگر آتے ہیں تو حاضری لگا کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔

سبسڈائز کیفے ٹیریا انجوائے کرتے ہیں، پارلیمنٹ لاجز میں رہنا پسند کرتے ہیں لیکن اسمبلی میں کورم پورا کرنا اپنی آئینی ذمے داری نہیں سمجھتے ہیں۔ ایسے ارکان پارلیمنت کی آمد کا واحد مقصد حاضری لگا کر تنخواہ اور مراعات وصول کرنا اور اسلام آباد کے آرام دہ ایم این اے ہاسٹلز میں رہنا اور ذاتی کام نمٹانا رہ گیا ہے اور اس ایوان میں بعض ایسے ارکان پارلیمنٹ بھی ہیں جنھوں نے اسمبلی میں کبھی ایک لفظ بھی نہیں بولا مگر ضرورت پر انھیں ڈیسک بجاتے ضرور دیکھا گیا ہے اور وہ کسی احتجاج کا حصہ بھی نہیں بنتے مگر آئین کے تحت وہ رکن پارلیمنٹ ہیں اور حکومت کی فراہم کردہ مراعات بھی حاصل کر رہے ہیں۔

 محمود اچکزئی آجکل پی ٹی آئی کے حامی ہیں اورموجودہ حکومت کو پی ٹی آئی کے بیانیے کی طرح خود بھی غیر قانونی اور فارم 47 کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ لیکن جہاں استحقاق اور مراعات وغیرہ کا معاملہ ہو تو سب ایک ہوتے ہیں اور یہی اسمبلیاں آئینی بھی ہوتی ہیں۔ تمام ارکان موجودہ حکومت کی بڑھائی گئی تمام مراعات سے مستفید بھی ہو رہے ہیں اور کسی ایک نے بھی مراعات لینے سے انکار نہیں کیا۔

سیاست میں دوستی اور دشمنی وقت کے ساتھ تبدیل ہوجاتی ہے۔ ویسے بھی محمود خان اچکزئی پاکستان کے کوئی قومی لیڈر نہیں بلکہ اپنے بلوچستان کے بھی مسلمہ لیڈر نہیں ہیں، وہ بلوچستان میں بسنے والے پشتو بولنے والوں کی نمایندگی کرتے ہیں،، بلوچستان کے سارے پختون بھی ان کے ووٹر نہیں ہیں۔وہ بلوچستان کے ضلع پشین میں زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے پختون لیڈر شمار ہوتے ہیں مگر اپنا اظہار خیال وہ خود کو قومی رہنما سمجھ کر کرتے ہیں کیونکہ آئین نے انھیں ہر قسم کی تقریر کا حق دیا ہوا ہے۔

ملک کے 1973 کے متفقہ آئین نے پاکستان کے ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی دے رکھی ہے۔ کیا کسی اور ملک میں اپنے ہی ملک کے بارے میں متنازع اور غیر محتاط تقریریں ہوتی ہیں؟ بلوچستان میں ہے جہاں آئے دن دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی ہیں، مگرقوم پرست لیڈر بولیں گے تو وفاق کے خلاف یا بھی پنجاب کے بارے میں اشتعال تقاریر کریں گے۔سیکیورٹی اداروں کو برا بھلا کہیں گے لیکن دہشت گردوں کے خلاف بات نہیں کریں اور نہ ان کے سہولت کاروں کا کوئی ذکر ہوگا، اگر کوئی بات ہوگی تو وہ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے انداز میں ہوگی۔ بلوچستان کے سماجی نظام میں اصلاحات لانے کا مطالبہ نہیں کریں گے بلکہ اس کے تحفظ کی بات کریں گے۔

صوبہ سندھ میں پاکستان کھپے کا نعرہ بھی لگا ، سندھ میں پی پی کی 17 سال سے حکومت ہے لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت بھی قوم پرستوں کو نہ سمجھا پائی ہو کہ اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ سندھ کا امن برقرار رکھیں۔ سیاستدان حکومتی مراعات کا بھرپور فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں اور حکومت کے خاتمے کو ضروری سمجھتے ہوں۔ ملک کی عدالتوں سے حکومت مخالفین کو آئین کے مطابق سہولیات بھی مل رہیہیں لیکن وہ کھلے عام کہتے پھرتے ہیں کہ آئین معطل ہو چکا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کس قسم کی سیاست ہے اور کس نظریے کی نمایندگی کرتی ہے؟

متعلقہ مضامین

  • آئین کے آرٹیکل 20 اور قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کے مطابق اقلیتوں کے تحفظ کیلئے کوشاں ہے، نسرین جلیل
  • یہ کون لوگ ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہمارے لیے سیلاب میں اترتے ہیں؟
  • حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہو گا،مولانافضل الرحمان
  • چھبیسویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • 26ویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • ہم اسرائیل پر دوبارہ حملہ کرنے کیلئے تیار ہیں، ایرانی صدر
  • ’’ سیاسی بیانات‘‘
  • بیساکھیوں کی سیاست۔ مفاہمت یا مجبوری؟
  • سینیٹ انتخابات اور عوام کی امیدیں
  • نیوکاسل یونائیٹڈ کے سابق اسٹار ’نولبرٹو سولانو‘ پاکستان فٹبال ٹیم کے ہیڈ کوچ مقرر