عیدالاضحیٰ، یہودی معاشی نظام پر کاری ضرب
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
جیسے ہی عیدالاضحیٰ قریب آتی ہے، سوشل میڈیا پر ایسی مہمات کا آغاز ہوجاتا ہے جو مسلمانوں کو قربانی جیسے اہم فریضے سے بدظن کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جانوروں کے حقوق، غربت، یا ماحولیات جیسے بہانے بنا کر قربانی کے عمل کو غیر ضروری اور ظالمانہ ثابت کیا جاتا ہے، حالانکہ یہی لوگ دیگر مذاہب کی فرسودہ، غیر منطقی اور فضول خرچی پر مبنی رسومات پر خاموش نظر آتے ہیں۔
یہ مہم دراصل ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے، جو زیادہ تر یہودی لابی کی طرف سے پھیلائی جاتی ہے جبکہ کندھا، لبرل مافیا اور دین سے ناواقف افراد کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کو ان کی دینی جڑوں سے کاٹا جاسکے۔
عیدالاضحیٰ پر یہودی اعتراضات کا پسِ منظر
یہودیوں کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی روایت سے مسئلہ اس لیے ہے کیونکہ ان کی کتابوں کے مطابق وہ بیٹا حضرت اسحاق علیہ السلام تھے جنہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کےلیے پیش کیا۔ (Torah: Genesis 22)
جبکہ اسلامی عقیدے کے مطابق یہ بیٹا حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے، جنہیں خواب کے بعد اللہ کی رضا کےلیے قربان کرنے کا ارادہ کیا گیا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھیجا۔ قرآن کریم کی ترتیب اور سیاق و سباق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قربانی کا واقعہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا، اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش بعد میں ہوئی۔ اس نظریاتی فرق اور بنی اسماعیل سے نفرت کی جڑیں یہودیوں کے اس عقیدے میں ہیں کہ نبوت کا سلسلہ صرف بنی اسرائیل میں رہنا چاہیے تھا، جبکہ اللہ تعالیٰ نے آخری نبی، خاتم النبیین، رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنی اسماعیل میں مبعوث فرما کر ان کی سوچ کو چیلنج کردیا۔
یہی وہ اصل وجہ ہے کہ عیدالاضحیٰ پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کا چرچا، یہودیوں کی برداشت سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہودیوں کی منافقت اس بات سے بھی عیاں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام گو کہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے لیکن چونکہ وہ سودی نظام اور بینکنگ کی یہودی طرز کے خلاف تھے اسی لیے یہودیوں نے انہیں بھی جھٹلا دیا اور ان کے قتل کے منصوبے بھی بنائے۔
یہودی معاشی نظام پر ضرب
عیدالاضحیٰ نہ صرف ایک عبادت ہے بلکہ ایک مضبوط معاشی نظام کا حصہ بھی ہے۔ ہر سال لاکھوں اوورسیز مسلمان اور پاکستانی قربانی کےلیے اپنے اپنے وطن رقم بھیجتے ہیں کیونکہ وہاں قربانی مہنگی ہوتی ہے۔ یہ وہ سرمایہ ہوتا ہے جو وہ دنیا کے ان یہودی مالیاتی اداروں اور بینکوں سے نکال کر اپنے اپنے ملک کی معیشت میں ڈالتے ہیں، جس سے یہودی لابی کو براہ راست مالی نقصان ہوتا ہے۔ اس رقم سے ملک میں اربوں روپے کی معیشت گردش کرتی ہے، لاکھوں افراد کو روزگار ملتا ہے، قصاب، ٹرانسپورٹر، چارہ فروش، چمڑے کی صنعت، سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہی معاشی فائدہ بعض طاقتوں کو کھٹکتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ترقی پذیر اسلامی ممالک خود کفیل بنیں۔
اس کے علاوہ عیدالاضحیٰ پوری دنیا کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور نظم و ضبط کی علامت ہے۔ ہر قوم، ہر زبان، ہر علاقے کے مسلمان ایک ہی جذبے اور وقت میں ایک جیسے عمل انجام دیتے ہیں۔ یہ عالمی اسلامی یکجہتی مغرب اور یہودیوں کےلیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ انہیں ایک منظم اور بیدار امت سے ہمیشہ خوف رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کے ذریعے نفسیاتی حملے کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو اپنے مذہب سے دور اور منتشر رکھا جاسکے۔
ایّامِ نَحر (عیدالاضحیٰ کے تین دنوں کی فضیلت)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ان دنوں (یعنی عشرۂ ذوالحجہ) میں کیا گیا نیک عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا جہاد بھی ان دنوں کے عمل جیسا نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، جہاد بھی نہیں، سوائے اُس شخص کے جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور کچھ بھی واپس نہ آیا (یعنی سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کردیا)‘‘ (بخاری کتاب العیدین، حدیث نمبر: 969)
اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے، قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو‘‘۔ (جامع الترمذي، حدیث نمبر: 1493)
ان احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اِن دنوں میں قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل مقبول نہیں یہاں تک کہ قربانی، جہاد فی سبیل اللہ سے بھی افضل ٹھہری، تاوقتیکہ مسلمان اپنی جان اور مال و اسباب بھی اللہ کی راہ میں نہ لُٹا آئے، کیونکہ قربانی کی اصل روح بھی مسلمان کی ٹریننگ ہے تاکہ وہ بوقتِ ضرورت اپنی جان تک قربان کرنے کےلیے تیار رہے۔
اسلامی شعائر نہ صرف عبادت بلکہ ایک مکمل طرزِ حیات ہیں، جن میں قربانی جیسے اعمال انسان کو قربِ الٰہی کے ساتھ ساتھ معاشرتی، معاشی اور روحانی فوائد بھی فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان سازشوں کو پہچانیں اور اپنی آنے والی نسل کو دینی شعائر کی اصل روح سے آگاہ کریں، تاکہ وہ کسی بھی بیرونی پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
دنیا کے بیشتر ممالک میں آج بھی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دی جاتی ہے حالانکہ وہ مساوی کام کر رہی ہوتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں خواتین کھلاڑیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا، اقوام متحدہ نے کیا حل بتایا؟
اقوام متحدہ کے ادارے یو این ویمن نے ’مساوی اجرت کے عالمی دن‘ کے موقعے پر حکومتوں، آجروں اور محنت کش تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاشی ناانصافی کے خاتمے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اوسطاً خواتین کو دنیا بھر میں مردوں کے مقابلے میں 20 فیصد کم تنخواہ دی جاتی ہے جب کہ اقلیتی نسلی گروہوں، معذور خواتین اور مہاجر خواتین کے ساتھ یہ فرق اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: مخصوص ایام میں خواتین ایتھلیٹس کو درپیش چیلنجز: کھیل کے میدان میں ایک پوشیدہ آزمائش
اجرت یا تنخواہ کی یہ تفریق نہ صرف خواتین کی معاشی خودمختاری کو متاثر کرتی ہے بلکہ جامع اور پائیدار ترقی کے راستے میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
یو این ویمن نے واضح کیا ہے کہ مساوی اجرت محض ایک سماجی یا معاشی مطالبہ نہیں بلکہ ایک بنیادی انسانی حق ہے جس کی توثیق آئی ایل او کنونشن 100 اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں کی گئی ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ جب خواتین کو کم اجرت دی جاتی ہے تو یہ نہ صرف معاشی امتیاز ہے بلکہ انصاف، برابری اور باہمی تعاون کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔
مزید پڑھیں: دنیا میں کتنی خواتین جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار، المناک حقائق
30 سال قبل، حکومتوں نے بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن میں مساوی اجرت کے لیے قانون سازی اور عملدرآمد کا وعدہ کیا تھا جسے بعد ازاں پائیدار ترقی کے 2030 ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔
مگر اب جبکہ سنہ 2030 صرف 5 سال دور ہے یو این ویمن نے زور دیا ہے کہ رفتار بڑھائی جائے۔
حل کیا ہے؟ اقوام متحدہ کی سفارشاتیو این ویمن نے درج ذیل ٹھوس اقدامات کی تجویز دی ہے۔ ان اقدامات میں شامل ہے کہ حکومتیں مضبوط قوانین اور پالیسیاں متعارف کرائیں جو اجرت میں صنفی تفریق کو ختم کریں، آجر ادارے شفاف تنخواہی نظام اپنائیں اور صنفی مساوات پر مبنی آڈٹ کرائیں، محنت کش تنظیمیں اجتماعی سودے بازی اور سماجی مکالمے کو فروغ دیں اور تحقیقاتی ادارے اور نجی شعبہ ڈیٹا شفافیت اور احتساب میں کردار ادا کریں۔
یو این ویمن، عالمی ادارہ محنت اور او ای سی ڈی کے ساتھ مل کر ’مساوی اجرت اتحاد ‘ کی قیادت کر رہا ہے جو اس عالمی مسئلے کے حل کے لیے سرکاری و نجی سطح پر شراکت داری کو فروغ دیتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ وعدے کو عمل میں بدلا جائےیو این ویمن نے عالمی رہنماؤں کو یاد دلایا ہے کہ اجرت میں برابری کی مخالفت دراصل انصاف کے اصولوں پر حملہ ہے۔
ادارے نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متعلقہ فریقین جراتمندانہ اقدامات کے ساتھ اس ناہمواری کو ختم کرنے کے لیے دوبارہ پرعزم ہوں تاکہ خواتین کو بھی وہی معاشی احترام ملے جو مردوں کو حاصل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خواتین سے امتیازی سلوک خواتین سے ناروا سلوک خواتین کی کم اجرت خواتین کے ساتھ غیر مساوی سلوک مرد عورت میں تفریق