وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے غلط فیصلے او راقدامات‘ بڑی فصلوں کی پیداوار میں 13اعشاریہ5 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے.منصوبہ بندی کمیشن
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 جون ۔2025 )منصوبہ بندی کمیشن نے انکشاف کیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے فیصلوں اور غلط اقدامات کے نتیجے میں اس مالی سال کے دوران بڑی فصلوں کی پیداوار میں 13اعشاریہ5 فیصد کی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جس کے باعث آئندہ سال خوراک کی درآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور قیمتی زرمبادلہ پر دباﺅ پڑنے کا خدشہ ہے.
(جاری ہے)
6 فیصد کے ہدف سے کم ہے اور اس کی بنیادی وجہ اہم اشیا پیدا کرنے والے شعبوں میں شدید سکڑاﺅ ہے جن میں اہم فصلوں کی پیداوار میں 13اعشاریہ5 فیصد کی کمی شامل ہے اس کمی کی وجوہات میں ناموافق موسمی حالات، کم بارش، پیداواری لاگت میں اضافہ اور پالیسی تبدیلیاں شامل ہیں .
گزشتہ سال حکومت نے گندم کے لیے ایک پرکشش کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کا اعلان کیا تھا تاہم بعد ازاں پنجاب حکومت نے کسانوں کو دی گئی اپنی حمایت واپس لے لی جس کے بعد کسانوں کو منڈی کے آڑھتیوں اور غیر منظم قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا بعد میں وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے تحت اجناس کی منڈی میں مداخلت ختم کرنے اور کم از کم امدادی قیمتیں نافذ نہ کرنے کا فیصلہ کیا. منصوبہ بندی کمیشن نے نشاندہی کی کہ ان پالیسی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ کھاد پر طویل سبسڈی نے بھی کسانوں کی مشکلات میں اضافہ کیاجس سے پیداواری لاگت اور زرعی مد میں چیلنجز مزید بڑھ گئے منصوبہ بندی کمیشن نے تسلیم کیا ہے کہ مالی سال 25-2024 کے دوران فصلوں کے شعبے میں ملا جلا رجحان دیکھنے میں آیا رپورٹ کے مطابق اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فیصد کمی ہوئی جبکہ دیگر فصلوں میں 4.8 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا کپاس کی پیداوار میں 30.7 فیصد، مکئی میں 15.4 فیصد، گنے کی پیداوار میں 3.9 فیصد، چاول میں 1.4 فیصد اور گندم کی پیداوار میں 8.9 فیصد کمی ہوئی . کمیشن نے کہا کہ ان نتائج کے مختلف ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی گنے اور چاول کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی آئی حالانکہ کاشت شدہ رقبے میں معمولی اضافہ ہوا اس کی وجہ غیر یقینی موسمی حالات یا فصل کے دورانیے میں پیداواری مشکلات ہو سکتی ہیں کمیشن نے خبردار کیا کہ یہ اعداد و شمار مجموعی طور پر پیداوار میں کمی اور بہتر پالیسی معاونت و موسمیاتی مزاحمت کی حامل زرعی تکنیکس کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کپاس کی جننگ کی صنعت میں بھی 19 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جو کہ گزشتہ سال 47.2 فیصد کی نمو کے برعکس ہے ورکنگ پیپر میں کہا گیا ہے کہ اس کمی کی وجہ کپاس کی پیداوار میں کمی اور ملک میں جننگ فیکٹریوں کی بندش ہے تاہم اس صورتحال نے وفاقی حکومت کو ملکی خالص اثاثوں میں توسیع کو محدود رکھنے میں مدد دی جو مالی سال 25-2024 میں صرف 145.6 ارب روپے رہی جبکہ گزشتہ سال یہ 1.588 کھرب روپے تھی. کمیشن کے مطابق یہ کمی اسٹیٹ بینک سے قرضوں کی واپسی، بجٹ خسارے میں کمی کے باعث شیڈیولڈ بینکوں سے کم قرضے لینے اور اجناس کی خریداری کے لیے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی سے ممکن ہوئی بنیادی طور پر اجناس کی مالی سرگرمیوں میں اصلاحات کا نتیجہ ہے جن کا مقصد اجناس سے جڑے قرضوں کے بوجھ کو کم کرنا تھا ان اقدامات میں گندم کی خریداری کا از سر نو جائزہ، کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کا تدریجی خاتمہ، بروقت سبسڈی کی ادائیگی اور توانائی کے شعبے میں ہدفی سبسڈیز کی جانب منتقلی شامل ہیں. اس کے برعکس منصوبہ بندی کمیشن نے لائیو اسٹاک کے شعبے کی کارکردگی کو سراہا اور اس کا کریڈٹ حکومت کو دیاکمیشن کے مطابق لائیو اسٹاک شعبے نے 4.7 فیصد کی شرح نمو برقرار رکھی جو گزشتہ سال 4.4 فیصد تھی یہ کارکردگی وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے ویکسینیشن مہمات، بیماریوں پر قابو پانے اور نگرانی کے بہتر پروگراموں کا نتیجہ ہے. تاہم اس شعبے کی کارکردگی کے باوجود اس کا مینوفیکچرنگ سیکٹر پر اثر زیادہ مثبت نہ ہو سکا جو اس سال صرف 1.3 فیصد کی شرح سے بڑھا جبکہ پچھلے سال یہ شرح 3 فیصد تھی اور ہدف 4.4 فیصد تھا بڑی صنعتوں (لارج اسکیل مینوفیکچرنگ) نے 0.9 فیصد کی پچھلی معمولی نمو کے مقابلے میں اس سال 1.5 فیصد کا سکڑاﺅ ظاہر کیا جو صنعتی پیداوار میں مستقل کمزوری اور مانگ میں کمی کو ظاہر کرتا ہے. ایل ایس ایم کے ایسے ذیلی شعبے جیسے خوراک، کیمیکلز، نان مٹیلک معدنی مصنوعات، لوہا و اسٹیل، برقی آلات، مشینری اور فرنیچر میں کمی دیکھی گئی جس نے تمباکو، ٹیکسٹائل، ملبوسات، کوک و پیٹرولیم مصنوعات، گاڑیوں اور دیگر ٹرانسپورٹ آلات جیسے صارفین پر مبنی اور توانائی سے متعلق صنعتوں میں ہوئی جزوی نمو کو زائل کر دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض شعبوں میں لچک برقرار ہے مگر مجموعی صنعتی فضا دبی ہوئی ہے.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فصلوں کی پیداوار میں گزشتہ سال کے مطابق مالی سال فیصد کی کے لیے
پڑھیں:
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا 200 یونٹ کے بعد سلیب بڑھنے پر اہم فیصلہ
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں وزارت توانائی سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔
متعلقہ حکام کی جانب سے کمیٹی کو آئی پی پیز سے متعلق بریفنگ دی گئی جس میں بتایا گیا کہ 2015 میں 9765 میگا واٹ آئی پی پیز کی انسٹالڈ کپیسٹی تھی، 2024 میں 25642 میگاواٹ آئی پی پیز کی انسٹالڈ میگا واٹ کیسٹی ہے، 2015 میں میں کپیسٹی پرچیز پرائس 141 ارب سالانہ تھی جو اب 1.4 ٹریلین ہے۔
حکام نے کہا کہ مالی سال 2015 میں 58 بلین کلو واٹ آور اور 2014 میں 90 بلین کلو واٹ آور بجلی پیدا ہوئی۔
سید نوید قمر نے کہا کہ پاور ڈویژن بجلی مہنگی ہونے کی وجہ کوئلے پر ڈال رہا ہے، جنید اکبر خان نے کہا کہ گنے کے پھوک سے 200 فیصد تک بجلی کی پیداوار دکھائی گئی ہے یہ کس طرح ممکن ہے۔
سی پی پی اے حکام نے کہا کہ گنے کے پھوک سے 45 فیصد بجلی پیداوار کا اندازہ لگایا گیا تھا تاہم پیداوار بینج مارک سے زیادہ رہی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے 200 یونٹ کے بعد سلیب بڑھنے پر اہم فیصلہ کرتے ہوئے وزارت سے مکمل بریفنگ طلب کرلی۔
جنید اکبر نے کہا کہ بتایا جائے 200 یونٹ سے زائد استعمال پر سلیب پر چھے ماہ والی پالیسی کیوں عائد کی گئی، شازیہ مری نے کہا کہ جب ملک میں اضافی بجلی موجود ہے تو سندھ اور خیبر پختونخواہ میں سولہ سولہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کیوں ہورہی ہے۔
چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ایک دفعہ بھی 200 ہونے سے زیادہ بجلی استعمال ہو تو چھ مہینے زیادہ بل آئے گا، اس کا کوئی حل بتا دیں۔
سیکریٹری پاور نے کہا کہ تین چار سال میں 200 یونٹس تک کے صارفین 11 ملین سے بڑھ کے 18 ملین پر چلے گئے ہیں، 58 فیصد صارفیں 200 یونٹس یا اس سے نیچے والے ہیں، حد کو بڑھا دیں گے تو اور سبسڈی چاہئے ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت ہماری بات چیت چل رہی ہے کہ 2027 تک اس چیز سے نکل جائیں، اور بی آئی ایس پی کے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے ڈائریکٹ سبسڈی پر جائیں۔
سیکریٹری پاور نے کہا کہ 200 یونٹ تک کو اتنا سبسڈائز کر رہے ہیں، 18 ملین صارفین اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، استعمال201 یونٹس پر چلا جاتا ہے تو سبسڈی پھر بھی ہوتی ہے، چھ مہینے کو کم کرنے پر غور کر لیتے ہیں۔
Tagsپاکستان