خاتون نے دوگنا ووٹوں سے شکست دی؛ وقاص اکرم کو جھوٹ بولنے پر شرم آنا چاہئے لیکن نہیں آئےگی
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
سمبڑیال میں مسلم لیگ نون کی خاتون نے دوگنا ووٹ لے کر ذلت آمیز شکست دی۔ 39ہزار ووٹوں کی لیڈ سے شکست کھانے کے بعد دھاندلی کا الزام لگاناشرمناک ڈھٹائی ہے۔
یہ بات پاکستان مسلم لیگ نون کی رہنما اور پنجاب کی وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری نے پی ٹی آئی کے وقاص اکرم کی الزامات سے بھری پریس کانفرنس پر ردعمل میں کہی۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ سمبڑیال میں مسلم لیگ نون کی خاتون امیدوار اور ان کے خلاف کھڑے امیدوار کی مقبولیت میں دوگنا سے زیادہ فرق تھا، یہ ایک طرح سے یک طرفہ الیکشن تھا، تمام حلقہ کے لوگ جانتے تھے کہ سمبڑیال میں بانی کے باقی ماندہ حواریوں کو عبرتناک شکست ہو گی۔ اس الیکشن پر دھاندلی کا الزام لگانا ڈھٹائی کی ایک نئی مثال قائل کی ہے۔
صدرِ مملکت سے سردار سلیم حیدر سمیت پارٹی رہنماؤں کی ملاقات، اہم امور پر تبادلہ خیال
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ غیر سرکاری ادارہ فیفن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ تمام پریزائیڈنگ افسروں نے مخلاف کے پولنگ ایجنٹس کو فارم 45 دیئے۔
فیفن نے مخالف امیدوار کے 121پولنگ ایجنٹوں سے انٹرویو کیے ان میں سے 116پولنگ ایجنٹوں نے ووٹنگ کے عمل پر اطمینان کا اظہار کیا۔
ؑظمیٰ نے بتایا کہ حالیہ ضمنی الیکشن سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ مریم نواز کی پنجاب کی وزیراعلیٰ کی ھیثیت سے شاندار پرفارمنس پر سمبڑیال کے عوام خوش ہیں۔ سمبڑیال میں مسلم لیگ(ن) کا ووٹ 41فیصد سے بڑھ کر 59فیصد ہو گیا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں عید الاضحیٰ پر 3 ہزار قیدیوں کی رہائی کا حکم
فیفن نے کہا ہے کہ سمڑیال میں پی ٹی آئی کا ووٹ 35فیصد س تھا جو مزید کم ہو کے 29فیصد رہ گیا۔ عظمیٰ بخاری نے کہا کہ 59 فیصد ووٹروں کی پسندیدہ جماعت کا 29 فیصد والوں سے کوئی تقابل ہی نہیں بنتا، جب کسی حلقہ میں ووٹروں کی پسندیدگی کا تناسب یہ ہو تو وہاں الیکشن یک طرفہ ہو جاتا ہے اور کمزور پاررٹی کے بہت سے ووٹر ووٹ تک ڈٓلنے نہین جاتے کیونکہ نتیجہ پہلے نطر آ رہا ہوتا ہے۔
ماسک پہننے اور موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی
عظمیٰ بخاری نے کہا، سمبڑیال صوبائی اسمبلی کے حلقہ 52 کے الیکشن کے گہرے مشاہدہ کے بعد فیفن کی یہ رپورٹ تحریک انصاف اور اسکے ایجنڈے پر چلنے والے نام نہاد فلسفیوں اور جعلی دانشوروں کے لئے ڈوب مرنے کےلئے کافی ہے:
شکست تسلیم کرنے کی بجائے پولیس اور ضلعی انتظامیہ پر الزامات لگانا پی ٹی آئی کا پرانا وطیرہ ہے۔
پنجاب اب مریم نواز کی خدمت کی سیاست کو ووٹ دیتا اور سپورٹ کرتا ہے۔سمڑیال کے عوام نے بانی کے ریاست مخالف بیانیے کو مسترد کردیا۔
حکومت آئندہ بجٹ تاجروں کی مشاورت سے تیار کرے،انجمن تاجران کا مطالبہ
عظمیٰ بخاری نے یاد دلایا کہ سمبڑیال کی یہ نشست ہمیشہ مسلم لیگ ن کی رہی اور ناقابل شکست رہی ہے۔ وقاص اکرم کو جھوٹ بولتے ہوئے شرم آنا چاہئے لیکن نہیں آئے گی، انہیں شرم آنا ممکن ہوتا تو وہ پی تی آئی میں نہ بیٹھے ہوتے۔
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: بخاری نے کہا سمبڑیال میں مسلم لیگ
پڑھیں:
پاکستان کرکٹ زندہ باد
کراچی:’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔
اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔
تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟
بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔
اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔
ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔
البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟
ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔
اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔
پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟
پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔
میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟
ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟
ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)