کراچی، سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی شدید کمی، انفیکشن کنٹرول کے اصول پامال
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
سول اسپتال کراچی اور قومی ادارہ برائے صحت اطفال (این آئی سی ایچ) کی ایمرجنسی وارڈز میں ایک ہی بستر پر دو مریضوں کو رکھنا معمول بن چکا ہے، جبکہ بعض اوقات این آئی سی ایچ میں ایک بستر پر تین سے چار بچے لٹائے جاتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ملک بھر سے آنے والے مریضوں کے دباؤ اور سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی شدید کمی نے انفیکشن کنٹرول کے بنیادی اصولوں کو روند ڈالا ہے۔ سول اسپتال کراچی اور قومی ادارہ برائے صحت اطفال (این آئی سی ایچ) کی ایمرجنسی وارڈز میں ایک ہی بستر پر دو مریضوں کو رکھنا معمول بن چکا ہے، جبکہ بعض اوقات این آئی سی ایچ میں ایک بستر پر تین سے چار بچے لٹائے جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سمیت دیگر بین الاقوامی گائیڈ لائنز کے مطابق ہر مریض کو علیحدہ بستر اور مناسب فاصلہ فراہم کرنا ضروری ہے، تاکہ انفیکشن ایک سے دوسرے مریض تک منتقل نہ ہو۔ کراچی کے بڑے سرکاری اسپتال ان اصولوں پر عملدرآمد سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ سرکاری اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اکثر ایسے مریض بھی اسپتال پہنچتے ہیں کہ جنہیں پہلے سے جناح یا انڈس اسپتال سے تشویشناک حالت میں ریفر کیا جاتا ہے۔ جب ان مریضوں کو مزید داخلہ دینے سے انکار کیا جاتا ہے تو وہ اسپتال کے باہر بیٹھے رہتے ہیں اور کسی صورت جانے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں ڈاکٹروں اور عملے کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا، سوائے اس کے کہ وہ مریض کو ایمرجنسی کے ان ہی بستروں پر ایڈجسٹ کرکے داخلہ اور علاج کی سہولیات دیں۔ سول اسپتال کراچی میں ایمرجنسی کی رجسٹریشن ڈیسک کے بالکل ساتھ ہی مریضوں کیلئے بستر لگا دیئے گئے ہیں، جن پر مرد و خواتین مریض لیٹے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں کو رش کی وجہ سے ڈیسک پر دھکے کھا کر علاج کرنا پڑتا ہے، جبکہ نازک حالت میں آئے مریضوں کو بھی پُرسکون ماحول میں علاج فراہم کرنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ محدود جگہ اور بنیادی سہولیات کی کمی کے سبب صرف علاج کے دوران ایک مریض کا انفیکشن دوسرے تک باآسانی منتقل ہو کر سکتی ہے، بلکہ علاج میں بھی خلل پیدا کر رہی ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کے بڑے سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسی وارڈز میں توسیع، بستروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، تاکہ اسپتال میں انفیکشن کنٹرول کے مؤثر اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے۔
ایک ہی بستر پر دو مریضوں کے لیٹنے سے جراثیم کے ایک سے دوسرے مریض میں منتقل ہونے کا خدشہ رہتا ہے، جس کے نتیجے میں کسی ایک مرض کے ساتھ آنے والا مریض دیگر بیماریوں کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔ اسپتال میں شدید رش کے باعث انتظامیہ کے پاس اس مسئلے کا کوئی مؤثر حل موجود نہیں۔ یہ صورتحال اسپتالوں میں معمول بنتی جا رہی ہے، جہاں اکثر ایک بستر پر دو مریضوں کو لٹایا جاتا ہے۔ خاص طور پر بچوں کے اسپتالوں میں یہ مسئلہ انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ سرکاری اسپتالوں کے اعلی حکام نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ایک ہی بستر پر دو مریضوں کے لیٹنے سے بیماریوں کی منتقلی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، لیکن ہم جن حالات میں کام کر رہے ہیں، اس کے تحت بڑے خطرے سے مریض کو بچانے کیلئے چھوٹا رسک لینے پر مجبور ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایک ہی بستر پر دو مریضوں سرکاری اسپتالوں آئی سی ایچ سرکاری اسپتال اسپتالوں میں مریضوں کو جاتا ہے میں ایک
پڑھیں:
ایڈز ہر منٹ ایک موت کا سبب اور امدادی کٹوتیاں مریضوں کے لیے مزید خطرناک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 جون 2025ء) 2024 کے بعد ایڈز سے متعلقہ اموات اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں لیکن طبی مقاصد کے لیے درکار امدادی وسائل کی قلت کے باعث اس بیماری پر قابو پانے کی کوششوں میں رکاوٹوں کا سامنا ہے جو ہر منٹ میں ایک انسان کی جان لے لیتی ہے۔
اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں تین کروڑ سے زیادہ لوگ ایچ آئی وی کے علاج سے مستفید ہو رہے ہیں اور اس حوالے سے ایڈز کے خلاف اقوام متحدہ کے اقدامات کثیرفریقی طریقہ کار کی کامیابی کی واضح مثال ہیں۔
تاہم، وسائل کی کمی دنیا بھر میں ایچ آئی وی کے خلاف طبی خدمات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ Tweet URLامینہ محمد نے یہ بات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے ایڈز کے خاتمے اور ایچ آئی وی کی روک تھام کے حوالے سے پیش رفت کا جائزہ لیے جانے کے موقع پر کہی ہے۔
(جاری ہے)
کامیابیاں ضائع ہونے کا خدشہنائب سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ایچ آئی وی/ایڈز پر قابو پانے کے لیے کیے گئےوعدے پورے نہیں ہو رہے اور گزشتہ دہائیوں میں اس بیماری کے خلاف حاصل کی جانے والی تمام کامیابیاں ضائع ہو جانے کا خدشہ ہے۔ مالی مدد میں کمی آںے کے نتیجے میں بہت سی جگہوں پر کلینک بند ہو رہے ہیں اور علاج معالجے کا سامان ختم ہونے لگا ہے۔
ایسے حالات میں نوعمر لڑکیوں اور نوجوان خواتین کے اس بیماری سے متاثر ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔امریکہ کی حکومت کے اقدام 'پیپفار' کی بدولت افریقہ میں ایچ آئی وی کی روک تھام میں نمایاں مدد ملی لیکن ایچ آئی وی/ایڈز کے خلاف اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام (یو این ایڈز) نے خبردار کیا ہے اب اس پروگرام کو مستقل مالی کٹوتیوں کا خطرہ درپیش ہے۔
امداد کی متواتر فراہمی جاری نہ رہنے کے نتیجے میں 2029 تک ایڈز سے مزید 40 لاکھ اموات ہو سکتی ہیں اور مزید 60 لاکھ افراد کے اس مرض میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔مالی وسائل کی ضرورتامینہ محمد نے کہا ہے کہ مختصر مدتی مالی کٹوتیوں کے باعث طویل مدتی پیش رفت ضائع ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایچ آئی وی/ایڈز کے خلاف جنگ جاری رہنی چاہیے۔
مالی وسائل کے بحران کو ہنگامی بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ذیلی صحارا افریقہ کے نصف ممالک قرضوں کی ادائیگی پر جس قدر رقم خرچ کرتے ہیں وہ ان کے ہاں طبی سہولیات کی فراہمی پر ہونے والے اخراجات سے کہیں زیادہ ہے۔ ایسے ممالک کو قرضوں میں سہولت دینے، ٹیکس اصلاحات اور بڑے پیمانے پر عالمی مدد کی ضرورت ہے۔
نائب سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک کو ایچ آئی وی کے خلاف پائیدار طور سے مالی وسائل کی فراہمی اور ایڈز کے خلاف جنگ میں ملکی سطح پر مضبوط قیادت درکار ہے۔
طبی خدمات سے محرومیانہوں نے انسانی حقوق پر حملے بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ پسماندہ سماجی گروہوں کے خلاف تادیبی قوانین، تشدد اور اظہار نفرت کے باعث ایڈز سے وابستہ بدنامی میں شدت آ رہی ہے اور لوگ ضروری طبی خدمات سے محروم ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صحت کا تحفظ دراصل انسانی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔
امینہ محمد نے بتایا ہے کہ مقامی سطح پر ایچ آئی وی/ایڈز کے خلاف کام کرنے والیب ہت سی تنظیمیں مالی وسائل نہ ہونے کے باعث بند ہو چکی ہیں جبکہ اس وقت ان کے کام کی اشد ضرورت تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان تنظیموں کو اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں کی جانب سے مدد کی ضرورت ہے۔ 2030 تک ایڈز کے پھیلاؤ کا خاتمہ ناممکن نہیں لیکن موجودہ حالات میں اس حوالے سے کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔