لاہور:

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا ہے کہ قربانی محض ایک رسم یا معاشرتی روایت نہیں بلکہ قربِ الہٰی کا اہم ذریعہ ہے اور بھینس، بھینسا اور یاک جیسے جانور گائے اور بیل کے ذمرے میں آتے ہیں اور ان کی قربانی شرعاً بالکل جائز ہے۔

ایکسپریس نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں قربانی کا تذکرہ موجود ہے، جن میں ہابیل و قابیل سے لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی تک کا ذکر ملتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی سنت بھی قربانی کی عظمت اور اہمیت کو نمایاں کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قربانی کی اصل روح اللہ کی رضا کا حصول ہے، یہ اللہ کی راہ میں مال و جان کی پیش کش کا اظہار ہے، ہرشخص کو چاہیے کہ وہ بہترین جانور کی قربانی کرے تاکہ اللہ کی خوش نودی حاصل ہو۔

قربانی کے لیے جانوروں کے انتخاب سے متعلق بعض اعتراضات پر وضاحت دیتے ہوئے ڈاکٹر  راغب نعیمی نے کہا کہ بھینس، بھینسا اور یاک جیسے جانور گائے اور بیل کے ذمرے میں آتے ہیں، اس لیے ان کی قربانی شرعاً بالکل جائز ہے۔

انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چونکہ بھینس جزیرہ عرب میں نہیں پائی جاتی تھی، اس لیے اس کا تذکرہ نہیں ملتا مگر دنیا کے دیگر حصوں میں یہ رائج ہے اور شریعت کے دائرے میں آتی ہے۔

ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا کہ اگر کوئی خاتون مال دار ہے تو وہ خود بھی قربانی دے سکتی ہے اور کسی دوسرے کی طرف سے بھی قربانی کر سکتی ہے، اسی طرح اگر کسی شخص کا انتقال ہو چکا ہو تو اس کے عزیز و اقارب اس کی طرف سے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کر سکتے ہیں۔

قربانی کے گوشت کی تقسیم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ افضل طریقہ یہی ہے کہ گوشت کے تین حصے کیے جائیں، ایک حصہ غربا و مساکین کے لیے، دوسرا عزیز و اقارب کے لیے اور تیسرا حصہ اپنے لیے رکھا جائے تاہم اگر کسی کا خاندان بڑا ہے تو وہ پورا گوشت اپنے گھر میں استعمال کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا یہ طرز عمل مناسب نہیں کہ گوشت کے  اچھے حصے خود رکھے جائیں اور کم معیار کا گوشت غربا میں بانٹا جائے لہٰذا برابری کے ساتھ تقسیم کرنا ہی اسلامی اصولوں کے مطابق ہے۔

آن لائن قربانی کے متعلق سوال پر ڈاکٹر راغب نعیمی نے کہا کہ آن لائن قربانی شرعی طور پر جائز ہے بشرطیکہ ادارہ قربانی کرنے والے کا شرعی وکیل ہو اور قربانی تمام اصولوں کے مطابق کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ آج کل بیرون ملک مقیم افراد اور وہ لوگ جو منڈی جانے یا قصائی کا انتظام کرنے سے قاصر ہیں، آن لائن قربانی کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

قرض لے کر یا قسطوں پر جانور خرید کر قربانی کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص نصاب کا مالک ہے لیکن وقتی طور پر اس کے پاس نقد رقم موجود نہیں تو وہ قرض لے کر قربانی کر سکتا ہے، تاہم اس پر لازم ہوگا کہ قرض کو جلد از جلد ادا کرے۔

قربانی کی کھال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اسے صدقہ سمجھ کر دیا جائے، کھال کسی غریب، مستحق فرد، مدرسے یا فلاحی ادارے کو دی جا سکتی ہے لیکن اسے قصائی کو بطور اجرت دینا جائز نہیں۔

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ مدارس قربانی کی کھال کے لیے سب سے موزوں ادارے ہیں۔

ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے واضح کیا کہ قربانی ہر سال صاحب نصاب پر واجب ہے اور اس کی جگہ صدقہ کرنا جائز نہیں، نفل قربانیوں کی جگہ اگر کوئی صدقہ کرے تو وہ الگ بات ہے مگر واجب قربانی ترک نہیں کی جا سکتی۔

انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بیان کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کے دن جانور کا خون بہانا سب سے زیادہ پسند ہے، یہ دن اللہ کے قرب کے حصول کا خاص موقع ہوتا ہے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اس عبادت کو خالص نیت اور پورے اہتمام کے ساتھ ادا کریں۔

ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے عوام سے اپیل کی کہ قربانی کو روحانی عبادت سمجھ کر ادا کریں، دکھاوا، نمائش اور ریاکاری سے گریز کریں اور گوشت کی تقسیم میں انصاف و مساوات کو ملحوظ رکھیں تاکہ اس عبادت کی برکت سے پورا معاشرہ مستفید ہو سکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے اسلامی نظریاتی کونسل نعیمی نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ نعیمی نے کہ کہ قربانی کی قربانی قربانی کے قربانی کی جائز ہے کے لیے ہے اور

پڑھیں:

بھارت میں 2024 میں کتے کے کاٹنے کے37 لاکھ سے زائد واقعات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) بھارت دنیا میں آوارہ کتوں کے حملوں کے سب سے زیادہ واقعات والا ملک ہے۔ بھارتی شہروں میں آوارہ کتوں کے حملے بچوں اور بزرگوں کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ دنیا میں ریبیز سے ہونے والی کل اموات کا 36 فیصد بھارت میں ہوتی ہیں۔

بھارت میں آوارہ کتوں اور بلیوں کی تعداد بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے، اور ریبیز سے اموات کی شرح بھی بلند ترین ہے، جب کہ بیشتر ریبیز اموات کی رپورٹ درج نہیں کرائی جاتیں۔

منگل کو پارلیمان کے ایوان زیریں، لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں ماہی پروری، مویشی پروری اور ڈیری کے وزیر مملکت ایس پی سنگھ بگھیل نے بتایا کہ 2024 میں کتے کے کاٹنے کے کل سینتیس لاکھ، سترہ ہزار 336 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ ریبیز سے 54 مشتبہ اموات ہوئیں۔

(جاری ہے)

تمل ناڈو، مہاراشٹر اور مغربی بنگال میں کتے کے کاٹنے کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہوئے۔

اتر پردیش، اوڈیشہ اور مہاراشٹر میں آوارہ کتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

بھارتی وزیر نے بتایا کہ یہ ڈیٹا نیشنل ریبیز کنٹرول پروگرام کے تحت نیشنل سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (این سی ڈی سی) کے ذریعے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے جمع کیا جاتا ہے۔

بگھیل نے کہا کہ میونسپلٹیاں آوارہ کتوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کی ذمہ دار ہیں اور وہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے اینیمل برتھ کنٹرول (اے بی سی) پروگرام نافذ کر رہی ہیں۔

خیال رہے بھارت میں جانوروں کی بہبود کے ضوابط کے مطابق، آوارہ کتوں کو مارا نہیں جا سکتا، صرف نس بندی کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نومبر 2024 میں ان کی وزارت نے ریاستوں کو ایک ایڈوائزری جاری کی، جس میں متعلقہ مقامی اداروں کو اے بی سی رولز کے پروگرام اور سرگرمیوں پر عمل درآمد کرنے کو کہا گیا، تاکہ بچوں، خاص طور پر نومولودوں کو آوارہ کتوں کے حملوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔

جانوروں کے کاٹنے کے ہر چار میں سے تین واقعات کتوں کے

معروف طبی جریدہ 'دی لانسیٹ‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، ہر چار میں سے تین جانوروں کے کاٹنے کے واقعات کتوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کی زیر قیادت مارچ 2022 سے اگست 2023 کے دوران ملک گیر سطح پر 15 ریاستوں کے 60 اضلاع میں ایک مطالعہ کیا گیا۔

تحقیق میں 78,800 سے زائد گھروں اور تقریباﹰ ساڑھے تین لاکھ افراد سے جانوروں کے کاٹنے، ریبیز ویکسینیشن اور اس سے ہونے والی اموات کے بارے میں انٹرویو کیا گیا۔

مطالعہ میں شامل محققین نے پایا کہ جانوروں کے کاٹنے کے واقعات میں سے 76.8 فیصد کتے کے کاٹنے کے تھے۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ ان افراد میں سے پانچواں حصہ اینٹی ریبیز ویکسین نہیں لے سکا، جبکہ دو تہائی کو کم از کم تین خوراکیں دی گئیں۔

ٹیم نے بتایا کہ تقریباً نصف نے ویکسینیشن کا مکمل کورس مکمل نہیں کیا۔ آوارہ کتوں کے مسئلے پر عدالت کا فیصلہ

سن 2023 میں پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا تھا کہ آوارہ جانوروں کے حملوں کے متاثرین کو معاوضہ ادا کرنا ''بنیادی طورپر ریاست کی ذمہ داری‘‘ ہو گی۔

یہ فیصلہ اس وقت آیا جب معروف صنعت کار اور واگھ بکری گروپ کے ڈائریکٹر 49 سالہ پراگ ڈیسائی کی مبینہ طور پر آوارہ کتوں کا پیچھا کرنے کے بعد گرجانے سے برین ہیمرج کی وجہ سے موت ہو گئی تھی۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ کتے کے کاٹنے کے معاملے میں ہر ایک دانت کے نشان کے بدلے میں کم از کم دس ہزار روپے اور فی 0.2 سینٹی میٹرکے زخم یا گوشت باہر آجانے پر کم از کم بیس ہزار روپے کے حساب سے معاوضہ ادا کیا جائے۔

عدالت نے کتوں کے علاوہ گائے، بیل، گدھے، نیل گائے، بھینس جیسے جانور اور جنگلی اور پالتوکے علاوہ آوارہ جانوروں کو بھی اس فہرست میں شامل کیا ہے۔

کتوں کے کاٹنے کے واقعات پر بڑھتی ہوئی عوامی ناراضگی کی وجہ سے جانوروں پر ظلم کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔

سن 2023 میں جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے دوران دہلی میں ہزاروں آوارہ کتوں کوزبردستی پکڑ کر بند کردیا گیا تھا، جس پر جانوروں کے حقوق کے علمبرداروں نے کافی ناراضگی ظاہر کی تھی۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • ملی یکجہتی کونسل کا قومی مشاورتی اجلاس
  • غیرت کے نام پر کسی کو بھی قتل کرنا شرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے، مولانا فضل الرحمان
  • 9 مئی کیس میں 10، 10 سال کی سزا پانے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کا ردعمل سامنے آگیا
  • تھک بابوسر میں سیلابی ریلے میں جان دینے والے فہد اسلام کی قربانی کا بیٹا چشم دید گواہ
  • اسرائیل پر ایران کا جوابی حملہ جائز تھا، فلسطین کا دو ریاستی حل قبول نہیں، ملی یکجہتی کونسل
  • جرگے کی بنیاد پر فیصلے اور قتل جیسے اقدامات کسی صورت قبول نہیں، وزیر صحت بلوچستان بخت کاکڑ
  • عمران خان کے بیٹے گرفتار ہوں تو ہی صحیح وارث بنیں گے : رانا ثناء اللہ 
  • عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت
  • بھارت میں 2024 میں کتے کے کاٹنے کے37 لاکھ سے زائد واقعات
  • غیرقانونی بھرتیوں کا الزام؛ چیئرمین پی اے آر سی کی درخواستِ ضمانت مسترد