اسلام آباد:

وفاقی دارالحکومت میں “کال سینٹرز” کے ذریعے اربوں روپے کے ہیر پھیر کا انکشاف ہوا ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کمرشل بینکنگ سرکل نے مقدمہ درج کرلیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ مقدمے میں ابتدائی طور پر ایک خاتون اور ایک بینک مینجر کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ کال سینٹرز کے وسیع نیٹ ورک کا انکشاف اسٹیٹ بنک کی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں “36” کمپنیوں کے اکاؤنٹس سے اربوں روپے کی مشکوک ٹرانزیکشن کا انکشاف ہوا تھا، اسٹیٹ بینک کی رپورٹ پر ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل نے انکوائری کےبعد مقدمہ درج کرکے گرفتاریاں شروع کیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ نیٹ ورک ایک خاتون چلاتی تھیں، ان کے ساتھ دو چینی باشندے بھی شامل ہیں اور نیٹ ورک انٹرپرائز غیرقانونی آن لائن سرگرمیوں سے رقم جمع کرتا تھا۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ اس میں جوا، قرض دینے والی ایپس، کال سینٹرز کے ذریعے دھوکا دہی پر مبنی سرمایہ کاری کی اسکیمیں اور پونو گرافی مواد کے پلیٹ فارمز شامل ہیں۔

تحقیقات کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ نیٹ ورک میں سائبر کرائم  اور ایف آئی اے کے بعض اعلیٰ افسران کے بھی ملوث ہونے پر انکوائری جاری ہے۔

ایف آئی اے کے سینئر افسر کا کہنا تھا کہ مقدمہ درج کیا گیا ہے، تفتیش میں مصروف ہیں اور ابھی تک صرف دو گرفتاریاں ہوئی ہیں جبکہ مزید گرفتاریوں کے لیے چھاپے جاری ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کال سینٹرز ایف آئی اے کا انکشاف بتایا کہ نیٹ ورک

پڑھیں:

سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سول ہسپتال کوئٹہ کے آڈٹ کے دوران ادویات کے ریکارڈ میں انحراف اور 537 روپے کے آکیسجن سلینڈر کیلئے 40 ہزار ادا کرنے سمیت دیگر بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سنڈیمن پرووینشل (سول) ہسپتال کوئٹہ میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں اور سنگین انتظامی بدنظمی کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت اجلاس میں پیش کی گئی اسپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2017 تا 2022 کے دوران اسپتال انتظامیہ نے 3 کروڑ روپے مالیت کی ادویات خریدیں، لیکن سپلائی آرڈرز اور بلز میں شدید تضاد پایا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق آرڈر ایک کمپنی کو جاری کیا گیا، جبکہ ادائیگی کسی دوسری کمپنی کو کی گئی۔ اس کے علاوہ اسٹاک رجسٹر اور معائنہ کی رپورٹس بھی موجود نہیں ہیں۔

رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ مالی سال 2019-20 کے دوران سول ہسپتال کے مرکزی اسٹور سے دو کروڑ 28 لاکھ روپے مالیت کی ادویات غائب ہو گئیں۔ اس سنگین غفلت پر مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابقہ فارماسسٹ نے بیماری کے باعث بروقت انٹریاں درج نہیں کیں۔ تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ فارماسسٹ کی جانب سے آج تک مکمل ریکارڈ جمع نہیں کرایا گیا۔ اس کے علاوہ آکسیجن سلنڈرز کی زائد نرخوں پر خریداری سے حکومتی خزانے کو ساڑھے 13 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔

آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ معاہدے کے تحت سلنڈرز کی قیمت 537 روپے مقرر تھی، لیکن وبائی دور میں مارکیٹ سے 40 ہزار روپے فی سلنڈر کے ناقابل یقین نرخ پر خریداری کی گئی۔ مزید یہ کہ تمام کوٹیشنز ایک ہی تحریر میں تیار کی گئی تھیں، جس سے شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ کمیٹی نے ان تمام معاملات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور ذمہ دار افسران کی شناخت اور غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کارروائی اور انکوائری کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم کی زیرصدارت لیگی وفد نے 27 ویں آئینی ترمیم کیلیے تعاون مانگا، بلاول بھٹو کا انکشاف
  • ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ، اربوں کے اثاثوں والے افراد کی لسٹ جاری
  • سنجھورو: مسیحی نوجوان نے دوسری مرتبہ اسلام قبول کرلیا
  • کراچی؛ ایف آئی اے نے پولیس حراست میں نوجوان کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرلیا
  • عمران خان کی رہائی کے لیے ایک اور کوشش ،سابق رہنماؤں نے اہم فیصلہ کرلیا ۔
  • سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
  • سرکاری ملازمین کیلئے رینٹل سیلنگ کا نیا ریٹ جاری
  • متحدہ عرب امارات کے طیاروں کے ذریعے سوڈان میں جنگی ساز و سامان کی ترسیل کا انکشاف
  • شاہ محمود قریشی اسپتال منتقل، پی ٹی آئی پرانی قیادت کی ریلیز عمران خان تحریک چلانے کیلئے ملاقات
  • عمران خان کے مقدمات کی سماعت اب اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے ہوگی