نیشنل کانفرنس کی حکومت عوامی امنگوں پر پورا نہیں اتر سکی، التجا مفتی
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
پی ڈی پی کی خاتون لیڈر نے نوجوانوں کو سیاسی عمل میں شرکت کی ترغیب دی اور کہا کہ کشمیر کے مستقبل کی تشکیل شمولیتی سیاست، بات چیت اور ترقی سے جڑی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سینیئر رہنما التجا مفتی نے نیشنل کانفرنس پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار حاصل کرنے کے باوجود وہ عوامی توقعات پر پورا نہیں اتری۔ بجبہاڑہ میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے التجا مفتی نے کہا کہ بدقسمتی سے نیشنل کانفرنس کو عوام کے بجائے اپنا اقتدار زیادہ عزیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر عوام نے پارٹی کو بھاری اکثریت سے کامیاب کیا، لیکن وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سینیئر لیڈر التجا مفتی نے آج بیجبہاڑہ، اننت ناگ میں ایک ہمہ گیر رکنیت سازی مہم کا آغاز کیا، جس کا مقصد جنوبی کشمیر میں پارٹی کی جڑوں کو مزید مضبوط کرنا اور عوام سے براہِ راست رابطہ قائم کرنا ہے۔
اس موقع پر التجا مفتی نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے ذریعے چناب ریل پل اور وندے بھارت ایکسپریس کے افتتاح کو خوش آئند قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا قدم ہے جس کی ہمیں تعریف کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہمیشہ خوش آئند ہے، لیکن یہ جموں و کشمیر کے عوام کے حقوق، وقار اور جمہوری عمل کی بحالی کے ساتھ ہونی چاہیئے۔ انہوں نے نیشنل کانفرنس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار میں آنے کے باوجود وہ عوامی امنگوں پر پورا نہیں اتری۔ التجا مفتی نے نوجوانوں کو سیاسی عمل میں شرکت کی ترغیب دی اور کہا کہ کشمیر کے مستقبل کی تشکیل شمولیتی سیاست، بات چیت اور ترقی سے جڑی ہے۔ تقریب کا اختتام پارٹی کارکنان کے اس عزم کے ساتھ ہوا کہ وہ جموں و کشمیر میں جمہوریت، امن اور ترقی کے لئے کام کرتے رہیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نیشنل کانفرنس التجا مفتی نے
پڑھیں:
مفتی منیب کو قانون کی الف ب کا بھی نہیں پتہ
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 18 ستمبر 2025ء ) "مفتی منیب کو قانون کی الف ب کا بھی نہیں پتہ، ایک جج دوسرے جج کو کام سے روک ہی نہیں سکتا"۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری سے متعلق مفتی منیب کے بیان پر سینئر قانون دان ریاست علی آزاد کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر قانون دان نے کہا کہ مفتی منیب الرحمن کیا جسٹس کارنیلیس کے کلاس فیلو تھے جو اتنا بڑا بیان داغا؟ انکو تو قانون کی الف ب کا بھی نہیں پتہ، کوئی جج اپنے برادر جج کو کام سے نہیں روک سکتا، جوڈیشل پاورز نہیں لے سکتا۔ ایسے تو پھر کوئی سول جج بھی آرڈر کرکے جسٹس ڈوگر کو کام سے روک دے۔ ریاست علی آزاد نے الزام عائد کیا کہ جسٹس ڈوگر نے بد دیانتی کی ہے۔(جاری ہے)
واضح رہے کہ رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے معاملے پر رائے دینے پر تنقید کی زد میں آگئے۔ اپنے ایک بیان میں مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ پہلے جج صاحبان پر پی سی او کے حلف یافتہ ہونے کی پھبتی کسی جاتی تھی کہ انہوں نے آئین کو پس پشت ڈال کر آمروں کی وفاداری کا حلف اٹھایا، پھر 2007ء میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال ہوئے اور عدلیہ کے زوال کا ایک نیا دور شروع ہوا، انہوں نے خود پی سی او حلف یافتہ حج ہونے کے باوجود دوسرے پی سی او حلف یافتہ جج صاحبان کو منصب سے فارغ کردیا، اس کے بعد بیرسٹر اعتزاز احسن کے مطابق متکبر جوں اور متشدد وکلاء کا دور شروع ہوا اور آئین کو آمر کے بجائے اپنی خواہشات اور انا کے تابع کر دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ جج صاحبان ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، اعجاز الاحسن، عظمت سعید شیخ، مظاہر نقوی اور منیب اختر وغیرہ نے وہ حشر بپا کیا کہ الامان والحفیظ! مارچ 2009ء میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد عدلیہ کے تنزیل و انتشار کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا، بعض حجج صاحبان نے ایسے فیصلے دیئے جو آئین کو ازسر نو لکھنے کے مترادف ہیں، عدم اعتماد کی بابت پہلے فیصلہ دیا کہ سیاسی جماعت کے سر براہ کے حکم کی پابندی اُس جماعت کے ارکان پر لازم ہوگی پھر جب مصلحت بدل گئی تو فیصلہ دیا کہ سیاسی جماعت کے سر براہ کی نہیں بلکہ پارلیمانی لیڈر کے حکم کی تعمیل لازم ہوگی۔ رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین کہتے ہیں کہ اب جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری کے جعلی ہونے کا مسئلہ ہے، آئین پسندی، نیز دینی منصبی اور اخلاقی حمیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر محاسبے کے لیے پیش کر دیتے اور خود چیف جسٹس کو لکھتے کہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کر کے میرے کیس کا فیصلہ صادر کیجیے اور اپنی ڈگری کی اصلیت کو ثابت کر کے سرخرو ہوتے کیونکہ ” آن را که حساب پاک است از محاسبه چه باک‘ یعنی جس کا حساب درست ہے اُسے خود کو محاسبے کے لیے پیش کرنے میں کس بات کا ڈر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہچکچاہٹ بتارہی ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ شاید پوری دال ہی کالی ہے، جعل سازی کو حرمت عدالت کے غلاف میں لپیٹا نہیں جاسکتا، نیز اصول پسندی اور آئین پابندی کا تقاضا ہے کہ اس کی بابت اسلام آباد ہائی کورٹ کے اُن کے ہم خیال بقیہ چارج صاحبان کا مؤقف بھی آنا چاہیئے، جوڈیشل کمیشن کا ایسے مسائل کو طویل عرصے تک پس پشت ڈالنا بھی عدل کے منافی ہے، جیسے قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا معاملہ اب تک التوا میں ہے۔ مفتی منیب الرحمان کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے، اس حوالے سے کورٹ رپورٹر مریم نواز خان نے لکھا کہ چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے، سب بولو سبحان اللہ!چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے!
سب بولو سبحان اللہ! https://t.co/U41JkKAZL6
مفتی منیب آخری عمر میں منیب فاروق کیوں بن گئے ہیں؟
— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) September 17, 2025 ایک ایکس صارف انس گوندل نے سوال کیا کہ مفتی منیب الرحمان کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟مفتی منیب الرحمن کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟
— Anas Gondal (@AnasGondal19) September 17, 2025 صحافی طارق متین نے استفسار کیا کہ مفتی منیب الرحمان صاحب کو یہ ثقیل اردو اور فارسی اصطلاحات صرف عمران خان مخالفین کے حق میں ہی کیوں یاد آتی ہیں۔مفتی منیب الرحمان صاحب کو یہ ثقیل اردو اور فارسی اصطلاحات صرف عمران خان مخالفین کے حق میں ہی کیوں یاد آتی ہیں
— Tariq Mateen (@tariqmateen) September 17, 2025