3 ہزار قیدیوں کی رہائی کا حکم ، بڑی خبر آ گئی
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
عید الاضحیٰ پر متحدہ عرب امارات میں جیلوں سے 3 ہزار قیدیوں کی رہائی کا حکم دے دیا گیا۔
اماراتی صدر شیخ محمد بن زاید نے ابوظبی کی مختلف جیلوں سے 963 قیدیوں کی رہائی کا حکم دے دیا۔دبئی کے حکمراں شیخ محمد بن راشد نے 985 قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا ہے۔اس کے علاوہ ریاست فجیرہ کے حکمراں شیخ حماد نے 112 قیدی، راس الخیمہ کے حکمراں شیخ سعود نے 411 جبکہ ریاست شارجہ کے حکمراں شیخ ڈاکٹر سلطان القاسمی نے 439 قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
رہائی پانے والے قیدیوں کے جرمانے اماراتی حکومت کی جانب سے ادا کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ عید پر اماراتی جیلوں میں قید معمولی جرائم، مالی تنازعات اور اصلاح یافتہ قیدیوں کو خصوصی حکمنامے پر رہا کیا جاتا ہے۔عید پر ضعیف اور غیر ملکی قیدیوں کو بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی ملتی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قیدیوں کی رہائی کا کے حکمراں شیخ کا حکم
پڑھیں:
غیرت کے نام پر بلوچستان میں قتل خاتون کی والدہ کا تہلکہ خیز بیان، ملزمان کی رہائی کا مطالبہ
غیرت کے نام پر بلوچستان میں فائرنگ کرکے قتل کی گئی خاتون بانو کی والدہ کا تہلکہ خیز بیان سامنے آگیا جس میں انہوں نے کہا کہ بانو کو بلوچی رسم و رواج کے مطابق سزا دی گئی، معاملے میں گرفتار ملزمان کو رہا کیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق مقتولہ کی والدہ نے اپنے جاری مبینہ بیان میں کہا کہ میرا نام گل جان ہے اور میں بانو کی ماں ہوں، میں اس قرآن پاک کو سامنے رکھ کر سچ بول رہی ہوں، جھوٹ نہیں بول رہی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ بانو پانچ بچوں کی ماں تھی، وہ کوئی بچی نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا بڑا بیٹا نور احمد ہے، جس کی عمر 18 سال ہے۔ دوسرا بیٹا واسط ہے، جو 16 سال کا ہے۔ اس کے بعد اس کی بیٹی فاطمہ ہے، جو 12 سال کی ہے۔ پھر اس کی بیٹی صادقہ ہے، جو 9 سال کی ہے۔ اور سب سے چھوٹا بیٹا زاکر ہے، جس کی عمر 6 سال ہے۔
والدہ نے کہا کہ کیا ایک بلوچ کا ضمیر یہ گوارا کرے گا کہ اتنے بچوں کی ماں کسی دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ جائے؟ بے شک، ہم نے انہیں قتل کیا، یہ کوئی بے غیرتی نہیں تھی بلکہ بلوچ رسم و رواج کے مطابق کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تم ہمارے گھروں پر چھاپے بھیجتے ہو، ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم نے جو بھی کیا، غیرت کے تحت کیا، کوئی گناہ نہیں کیا۔ میری بیٹی بانو اور احسان اللہ پڑوسی تھے۔
بانو 25 دن احسان کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور وہ اس کے ساتھ رہ رہی تھی۔ 25 دن بعد وہ واپس آ گئی۔ تب بانو کے شوہر نے بچوں کی خاطر اسے معاف کر دیا اور اسے ساتھ رکھنے پر راضی ہو گیا۔ مگر احسان اللہ باز نہیں آیا، وہ ہمیں ویڈیوز بھیجتا تھا۔ ٹک ٹاک پر ہاتھ پر گولی رکھ کر کہتا تھا: ’جو مجھ سے لڑنے آئے، وہ شیر کا دل رکھ کر آئے۔‘ وہ ہمیں دھمکیاں دیتا تھا۔
والدہ نے کہا کہ میرے بیٹے کی تصویر پر کراس کا نشان لگا کر کہتا تھا: ’میں اسے مار دوں گا۔‘ اتنی رسوائی اور بے غیرتی ہم برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نے جو بھی کیا، اچھا کیا۔ اس قرآن پر قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہیں قتل کرنا ہمارا حق تھا۔