کیا محکمہ صحت کی ہمت ہے وہ و زیر اعلیٰ سندھ کو انکار کردے)جسٹس جمال خان مندوخیل(
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
81ہزار میں 81ارب کاپلاٹ مل گیا، محکمہ صحت کو کیس کادفاع کرنا چاہیے تھا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب
وزیر اعلیٰ کے لیٹرپر کوئی تاریخ نہیں، کہا جاکرہسپتال کی جگہ لے لیں،ہائی کورٹ کیس کاریکارڈ طلب کرسکتی ہے
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیٔے ہیں کہ عدالت وہ ریلیف بھی دے سکتی ہے جونہ مانگا گیا ہو، اگر غلط کام ہوا ہے توعدالت آنکھیں بند نہ کرے۔ ہائی کورٹ کسی کی درخواست پر بھی اورخود بھی کسی کیس کاریکارڈ طلب کرسکتی ہے، یہ کام ٹرائل کورٹ اورایپلٹ کورٹ نے کرنا تھا جو ہائی کورٹ نے کیا۔ کب سے درخواست گزار نے قبضہ جمارکھا ہے۔ رسک میں فائدہ بھی بہت ہوتا ہے اور نقصان بھی ہوتا ہے درخواست گزارنے کوشش کی، کامیاب نہیں ہوئے۔ قانون بتادیں جس کے تحت الاٹمنٹ ہوئی ہے، کیا وزیر اعلیٰ کاپلاٹ الاٹ کرنے کااختیارتھا کہ نہیں۔جبکہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیٔے ہیں کہ 81ہزار روپے میں 81ارب روپے کاپلاٹ مل گیا۔ کیا محکمہ صحت کی ہمت ہے کہ وہ و زیر اعلیٰ سندھ کو انکار کرے۔ وزیر اعلیٰ کے لیٹرپر کوئی تاریخ نہیں، کہا جاکرہسپتال کی جگہ لے لیں۔ وزیر اعلیٰ یہ کام نہ کرتا تودرخواست گزار کانقصان نہ ہوتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2رکنی بینچ نے بدھ کے روز سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 1میں کیسز کی سماعت کی۔بینچ نے سندھ کے ضلع کشمور میں ضلعی سرکاری ہسپتال کی زمین لیز پر دینے کے معاملہ پر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف عبدالرحمان دشتی کی جانب سے نیاز احمد اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: وزیر اعلی ہائی کورٹ
پڑھیں:
نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر
سپریم کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کے مجرم ظاہر ذاکر جعفر نے سزائے موت کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کر دی ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت نے مجرم کی ذہنی حالت کا تعین نہیں کروایا، حالانکہ سپریم کورٹ میں اس حوالے سے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست بھی دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:نور مقدم قتل کیس: سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری، ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار
درخواست کے مطابق عدالت نے اس متفرق درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں سنایا اور ویڈیو ریکارڈنگ پر انحصار کرتے ہوئے سزائے موت دی، حالانکہ وہ ویڈیوز نہ تو ٹرائل کے دوران درست ثابت کی گئیں اور نہ ہی وہ ملزم کو فراہم کی گئیں۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ ویڈیوز عدالت میں کبھی چلائی بھی نہیں گئیں، اور فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا۔ اس لیے عدالت سے استدعا ہے کہ وہ 20 مئی کو سنائے گئے فیصلے پر نظرثانی کرے کیونکہ اس کے لیے ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔
یاد رہے کہ نور مقدم کو 2021 میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں بہیمانہ طور پر قتل کیا گیا تھا۔ اسلام آباد کی عدالت نے مجرم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی تھی، جسے اسلام آباد ہائیکورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سپریم کورٹ ظاہر جعفر نورمقدم کیس