اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر میں بادشاہ بن گیا‘ اس زمانے میں چین میں تاؤ مذہب ہوتا تھا‘ اس مذہب میں بھی زندگی کے بعد زندگی کا تصور موجود تھا‘ چن شی ہونگ لڑکپن میں اپنے زمانے کی سب سے بڑی سلطنت کا بادشاہ بن گیا‘ تخت نشین ہونے کے چند دن بعد اس نے تاؤازم کے سب سے بڑے رہنما کو بلایا اور اس سے پوچھا ’’کیا میں مرنے کے بعد بھی بادشاہ رہوں گا‘‘ مذہبی رہنما سچا انسان تھا‘ اس نے جواب دیا ’’بادشاہ سلامت اس کی کوئی گارنٹی نہیں‘‘ بادشاہ نے حیرت سے دربار اور پھر محل کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’کیا دوسری زندگی میں میرے پاس ان میں سے کوئی سہولت نہیں ہوگی؟‘‘
مذہبی رہنما کا جواب تھا ’’بادشاہ سلامت یہ عین ممکن ہے‘‘ بات بادشاہ کے دل پر لگ گئی اور اس نے مذہبی رہنما سے پوچھا ’’کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے میں دوسری زندگی میں بھی بادشاہ بن سکوں اور میری فوج اور خادم میرے ساتھ ہوں‘‘ مذہبی رہنما کا جواب تھا ’’ہاں یہ ممکن ہے تاہم یہ ناقابل یقین حد تک مشکل ہے‘‘ بادشاہ کا سوال تھا ’’کیسے؟‘‘ مذہبی رہنما نے جواب دیا ’’بادشاہ سلامت آپ جس شخص کو بھی اگلی زندگی میں اپنے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں آپ اس کا اس کے سائز کے مطابق بت بنوائیں‘ اسے زمین میں دفن کر دیں اور خود بھی ان لوگوں کے درمیان دفن ہو جائیں اور جب آپ دوبارہ اٹھیں تو آپ ایک خاص منتر پڑھیں‘اس کے بعد آپ کے خادم جاگ جائیں گے۔
آپ ان کی مدد سے اپنی سلطنت دوبارہ حاصل کر سکیں گے‘‘ بادشاہ کو آئیڈیا اچھا لگا‘ اس نے پوری سلطنت سے بت تراش اکٹھے کیے اور انھیں اپنی فوج‘ وزراء اور خادموں کے بت بنانے کا حکم دے دیا‘ بادشاہ کا حکم تھا ہر بت اصل جیسا ہونا چاہیے‘ یونیفارم‘ جوتوں اور ہتھیاروں میں بھی کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے اور ان کے گھوڑے بھی ان کے ساتھ ہونے چاہییں‘ یہ منصوبہ 36سال چلا‘ بادشاہ کا انتقال 50سال کی عمر میں ہوا‘ اس وقت تک منصوبہ مکمل نہیں ہوا تھا چناں چہ اس کے بعد اس کے بیٹے نے باقی پروجیکٹ مکمل کیا‘ اس زمانے کے مذہبی رہنماؤں کے مطابق اگر کسی مُردے کو پہاڑ اور دریا کے درمیان کسی ایسے پرفضا مقام پر دفن کیا جائے جس میں جنگل اور پرندے ہوں تو اس انسان کے پچھلی زندگی کے رتبے کے ساتھ دوبارہ زندہ ہونے کے چانس بڑھ جاتے ہیں‘ بادشاہ کے شہر اور محل سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایسی جگہ موجود تھی‘ اس جگہ کی ایک سائیڈ پرپہاڑ تھا اور دوسری سائیڈ پردریا اور درمیان میں جنت جیسی زمین تھی۔
یہ 54 کلومیٹر کا ٹکڑا تھا‘ بادشاہ نے اس علاقے میں کھدائیاں کرائیں‘ زیر زمین 600 کمپلیکس بنوائے‘ مجسموں کو ان کمپلیکس میں دفن کیا‘ ان کے اوپر پرت در پرت چھتیں بنوائیں اور ان پر مٹی ڈلوا کر گھاس اگا دی‘ بادشاہ کا مقبرہ عین درمیان میں تھا‘ یہ اہرام جیسا تھا‘ زمین سے اوپر اس کی اونچائی 52میٹر تھی جب کہ قبر 35میٹر زیر زمین تھی‘ بادشاہ نے اپنی قبر کے لیے بہت بڑا تالاب بنوایااور اسے پارے (مرکری) سے بھردیا‘بادشاہ کی وصیت کے مطابق اس کی لاش تابوت میں رکھ کر اسے تالاب میں چھوڑ دیا گیا۔
تابوت پارے میں تیرنے لگا‘ بادشاہ نے تابوت اور لاش کی حفاظت کے لیے خفیہ حصار بنوایا تھا‘ یہ حصار دو حصوں پر مشتمل تھا‘ پہلے حصے کے مطابق اگر کوئی شخص اس کمپلیکس میں داخل ہو گا تو وہ زہریلی فضا کی وجہ سے چند لمحوں میں مر جائے گا اور اس کی لاش پارے کے تالاب میں گر جائے گی اور دوسرا اگر کوئی فوج یا گروہ اس کمپلیکس میں داخل ہو گا تو دیواروں سے ان پر تیر برسیں گے اور اس کے بعد یہ پورا کمپلیکس زمین بوس ہو جائے گا‘ اس نے مقبرے میں چند مزید ایسے انتظامات بھی کر رکھے ہیں جسے آج کا انسانی دماغ نہیں سمجھ سکتا‘ بادشاہ کی وصیت کے مطابق اس کے ولی عہد نے کمپلیکس کی تکمیل کے بعد تمام بت فروش قتل کر دیے‘ سائیڈ کے اوپر سے تمام آثار مٹا دیے اور ملک میں اس کمپلیکس کے ذکر پر پابندی لگا دی‘ اس کے بارے میں اگر کوئی شخص سرگوشی بھی کرتا تھا تو اسے قتل کر دیا جاتا تھا لہٰذا یہ سارا قصہ زمین میں دفن ہو کر ختم ہو گیا۔
یہ حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش سے دو سو دس سال پرانا قصہ ہے اور آج اسے دو ہزار دو سو 35سال ہو چکے ہیں (پاکستان کو بنے ہوئے 78سال ہوئے ہیں) بادشاہ کی سلطنت چین کے شہر شیان میں قائم تھی‘ بادشاہ کا نام چن شی ہونگ تھا‘ اس کی مناسبت سے اس کا ملک چین یا شین یا شیان کہلاتا تھا‘ یہ وہی ملک تھا جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا ’’تم علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘ میرے ناقص علم کے مطابق شیان اس زمانے کی سپر پاور تھا‘ قبل مسیح میں چین میں سات سلطنتیں تھیں‘ چن شی ہونگ نے چھ سلطنتوں کو فتح کر کے چین کو ایک سلطنت کی شکل دے دی تھی‘ اس کی سلطنت چین (Qin) کہلاتی تھی‘ شاہراہ ریشم اس زمانے میں بنی تھی‘ اس کا نقطہ آغاز بھی شیان تھا اور یہ ایشیا‘ یورپ اور افریقہ تین براعظموں کو آپس میں جوڑتی تھی‘ یہ اس زمانے کا ’’سی پیک‘‘ تھی۔
شیان سے ریشم پوری دنیا میں جاتا تھا‘ بارود‘ کاغذ‘ پتنگ‘ چینی کے برتن اور پینٹ بھی یہیں ایجاد ہوا تھا اور گریٹ وال کے تصور نے بھی یہیں سے جنم لیا تھا چناں چہ یہ شہر انسانی تہذیب کا نقطہ کمال تھا‘ رہی سہی کسر بادشاہ کے مقبرے نے پوری کر دی‘ بہرحال قصہ مختصر وقت کا دریا بہتا رہا اور زمانے گزرتے رہے‘ اس دوران دنیا میں عیسائیت پھیلی‘ اسلام کی روشنی نے بھی دنیاکو منور کیا‘ وقت کا دھارا مزید آگے بڑھا اور 1949میں چین بن گیا‘ بادشاہ چن شی ہونگ کا کمال ان تمام زمانوں میں زمین میں دفن رہا‘ اس کا قصہ تک کسی قصوں کی کتاب میں موجود نہیں تھا‘ 1974میں شیان کے مضافات کے ایک گاؤں کے ایک باسی یینگ چرفا نے اپنے صحن میں کنواں کھودنا شروع کیا‘ وہ جب پانی کی سطح تک پہنچا تو اسے زمین سے پکی مٹی کا ایک گولہ سا ملا‘ اس نے اسے دھو کر صاف کیا تو وہ انسانی سر کا بت تھا‘ چین کا پرانا تصور ہے زمین کے اندر شیطان رہتے ہیں اور اوپر انسان‘ اس نے سوچا اس کی زمین سے شیطان نکل آیا ہے‘ اس نے گاؤں کے لوگوں کو بلا کر سر دکھایا تو وہ بھی ڈر گئے‘ چین میں تمام شہریوں پر لازم ہے یہ اگر کسی جگہ کوئی غیرمعمولی چیز دیکھیں تو یہ فوراً حکومت کو اطلاع کریں‘ یینگ نے پولیس کو رپورٹ کر دی‘ پولیس آئی۔
اس نے کنواں دیکھا اور مقامی لوگوں کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیا ’’یہاں کوئی شیطان موجود نہیں‘‘ لیکن لوگوں کی تسلی نہ ہوئی اور انھوں نے وفاقی حکومت کو اطلاع کر دی‘ بیجنگ نے ماہرین کی ٹیم بھجوا دی‘ ٹیم نے سرکا معائنہ کیا تو انھیں یہ غیرمعمولی محسوس ہوا‘ انھوں نے زمین کے مختلف حصوں میں بور کیے اور ان کے اندر کیمرے ڈال دیے بس اس کے بعد پوری دنیا میں سنسنی پھیل گئی‘ زمین میں ہزاروں فوجیوں کے بت تھے‘ حکومت نے فوری طور پر جیالوجسٹس اور آثار قدیمہ کے ماہرین بھجوا دیے‘ تاریخ کے ماہرین کو بھی طلب کر لیا گیا‘ تاریخ دانوں نے پانچ ہزار سال پرانی تاریخ کھنگالی لیکن انھیں کسی جگہ ان بتوں کے بارے میں ایک فقرہ تک نہیں ملا‘ بہرحال قصہ مزید مختصر آثار قدیمہ کے ماہرین نے کھدائی شروع کر دی‘ یہ سلسلہ 1995تک جاری رہا‘ 20برسوں میں ماہرین نے تین کمپلیکس کھود کر نکال لیے‘ چینی زبان میں سرخ مٹی کی اشیاء کو ٹیرا کوٹا کہا جاتا ہے‘ زمین سے نکلنے والے بت سرخ مٹی سے بنے ہیں‘ انھیں تکمیل کے بعد ہزار سے پندرہ سو سینٹی گریڈ کی تپش میں پکایا گیا تھا اور پھر ان پر کوئی ایسا پینٹ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ ہر قسم کے موسم اور زمین کے دباؤ کا مقابلہ کر گئے۔
زمین میں صرف فوج اور جرنیلوں کے مجسمے ہیں اور یہ بھی حالت جنگ میں کھڑے ہیں‘ ان کی فارمیشن ثابت کرتی ہے کسی بڑے بادشاہ کی فوج اس کی حفاظت کر رہی ہے لہٰذا انھیں ٹیرا کوٹا واریئر کا نام دے دیا گیا‘ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے‘ آج تک اس عجوبے کا صرف تین فیصدزمین سے نکالا جا سکا‘ ماہرین کے مطابق اگر تمام 600کمپلیکس زمین سے نکالے جائیں تو اس کے لیے کم از کم سو بلین ڈالرز اور 380 سال درکار ہیں لہٰذا زمین سے 600 میں سے صرف تین کمپلیکس نکالے گئے ہیں تاہم بادشاہ چن شی ہونگ کا مقبرہ تاحال نہیں کھولا گیا‘ اس کی تین وجوہات ہیں‘ اول چین کے لوگ مردہ بادشاہوں کو زندہ سمجھتے ہیں اور یہ ان کا احترام کرتے ہیں لہٰذا یہ چن شی ہونگ کا مقبرہ کھول کر اس کی توہین نہیں کرنا چاہتے‘ دوم مقبرے کے اندر پارے اور دوسری دھاتوں کا زہر پھیلا ہوا ہے جو بھی شخص اس فضا میں جائے گا اس کی واپسی ممکن نہیں ہو گی چناں چہ اقوام متحدہ کسی شخص کی جان خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دے رہی اور سوم یہ اندیشہ موجود ہے جس دن مقبرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جائے گی اس دن یہ پورا کمپلیکس زمین بوس ہو جائے گا چناں چہ گورنمنٹ کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتی اور آخری وجہ حکومت ٹیرا کوٹا واریئر کے بادشاہ کی مسٹری قائم رکھنا چاہتی ہے تاکہ لوگ آتے رہیں‘ بادشاہ کے اہرام کو دور سے دیکھتے رہیں اور یہ سوچتے رہیں آخر یہ مقبرہ کب کھلے گا۔
میں 30مئی 2025کو دنیا کے آٹھویں عجوبے ٹیرا کوٹا واریئر میں موجود تھا‘ میں دوسری مرتبہ یہاں آیا تھا۔ (جاری ہے)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چن شی ہونگ بادشاہ کا بادشاہ کے بادشاہ نے بادشاہ کی اس کے بعد کے مطابق ہیں اور نہیں ہو چناں چہ تھا اور جائے گا اور یہ اور ان اور اس
پڑھیں:
پاکستان اسٹیل کی 5 ہزار ایکڑ اضافی زمین پر انڈسٹریل زون بنا رہے ہیں، سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ
سینیٹر عون عباس بپی کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت وپیداوار کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔ اس موقع پر ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اتھارٹی کے حکام نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دی۔
حکام کی جانب سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان اسٹیل ملز کی اضافی زمین پر انڈسٹریل زون بنا رہے ہیں، کراچی انڈسٹریل پارک 5 ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے، یہ اسٹیل ملز کے انڈسٹریل ایریا میں بنے گا۔
بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ پاکستان اسٹیل ملز کیلئے صرف 7 ہزار ایکڑ زمین چاہیے۔
حکام کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پہلے سبسڈی پر چلتے تھے، حکومت نے اس سال سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سال رمضان پیکیج بھی بی آئی ایس پی ڈیٹا سے براہ راست دیا گیا۔
حکام کے مطابق یوٹیلٹی اسٹورز اس وقت حکومت کی نجکاری فہرست پر ہے، یوٹیلٹی اسٹورز کے کل 11 ہزار 614 ملازمین تھے۔ کنٹریکٹ ملازمین فارغ ہوئے ہیں، ریگولر 5 ہزار ملازمین میں سے کسی کو نہیں نکالا گیا۔
انھوں نے کہا کہ نقصان میں چلنے والے 1925 یوٹیلٹی اسٹورز کو بند کر دیا گیا ہے۔
ایم ڈی یوٹیلٹی اسٹورز کے مطابق ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ والے 4060 ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ہے۔