ایکوساک: روس اور یوکرین سمیت 19 نئے ارکان منتخب
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 05 جون 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے آئندہ تین سال کے لیے ادارے کی معاشی و سماجی کونسل (ایکوسوک) کے 19 نئے ارکان کا انتخاب کیا ہے جن میں یوکرین اور روس بھی شامل ہے۔
یوکرین اور کروشیا مشرقی یورپی ممالک کے علاقائی گروپ سے کونسل کے رکن منتخب ہوئے جس کے لیے تین نشستیں مختص ہیں۔ روس اور بیلارس رائے شماری میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے اور اب یہ دونوں ممالک دوسرے مرحلے میں مدمقابل ہوں گے۔
شمالی میسیڈونیا اس گروپ سے پانچواں امیدوار تھا جو کم ووٹ حاصل کرنے کی بنا پر رکنیت کے حصول یا دوسری رائے شماری کے لیے جگہ بنانے میں ناکام رہا۔
دوسرے مرحلے میں جرمنی اور امریکہ بھی بالترتیب 2026 اور 2027 کے لیے کونسل کے رکن منتخب ہو گئے ہیں جنہوں نے اپنی نشستیں چھوڑنے والے لیکٹنسٹائن اور اٹلی کی جگہ لی ہے۔
(جاری ہے)
ایکوسوک کے رکن منتخب ہونے والے دیگر ممالک میں آسٹریلیا، برونڈی، چاڈ، چین، ایکواڈور، فن لینڈ، انڈیا، لبنان، موزمبیق، ناروے، پیرو، سیرالیون، سینٹ کٹس اینڈ نیویس، ترکیہ اور ترکمانستان شامل ہیں۔
کونسل میں نئے ارکان کی مدت یکم جنوری 2026 سے شروع ہو گی۔
جغرافیائی نمائندگیایکوسوک کی رکنیت پانچ علاقائی گروہوں میں مساوی جغرافیائی نمائندگی کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ ان میں افریقی، ایشیائی الکاہل، مشرقی یورپی، لاطینی امریکہ و غرب الہند اور مغربی یورپی و دیگر ممالک کے گروپ شامل ہیں۔
کونسل اقوام متحدہ کے چھ بنیادی اداروں میں شامل ہے۔
اس کے ارکان کی مجموعی تعداد 54 ہے۔ یہ ادارہ بین الاقوامی ترقی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور معاشی، سماجی و ماحولیاتی شعبوں میں بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔193 ارکان پر مشتمل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ہر سال خفیہ رائے شماری کے ذریعے ایکوسوک کے ارکان کو منتخب کرتی ہے۔
ووٹوں کی گنتینئے ارکان کے انتخاب کے لیے ہونے والی رائے شماری کے پہلے دور میں 187 ممالک نے حصہ لیا۔
انتخاب کے لیے قانونی ووٹوں کی دو تہائی اکثریت درکار تھی جبکہ غیرحاضر ارکان اور مسترد ووٹوں کو شمار نہیں کیا گیا۔افریقی ممالک کے گروپ سے چار ارکان کا انتخاب عمل میں آنا تھا جنہیں 126 ووٹ درکار تھے۔ موزمبیق اور سیرالیون دونوں نے 186، برونڈی نے 184 اور چاڈ نے 183 ووٹ حاصل کیے۔
ایشیائی الکاہل میں واقع ممالک کے لیے بھی چار نشستیں مخصوص ہیں جن پر انتخاب کے لیے 125 ووٹ درکار تھے۔
رائے شماری میں لبنان اور ترکمانستان دونوں نے 183، انڈیا نے 181 اور چین نے 180 ووٹ حاصل کیے۔مشرقی یورپی ممالک کے لیے تین نشستوں پر منتخب ہونے کے لیے 123 ووٹوں کی ضرورت تھی۔ اس گروپ سے کروشیا نے 146، یوکرین نے 130، روس نے 108، بیلارس نے 96 اور شمالی میسیڈونیا نے 59 ووٹ حاصل کیے۔
رائے شماری کے پہلے مرحلے میں ناکام رہنے والوں کو دوسرے مرحلے میں جیتنے کے لیے 108 ووٹ درکار ہیں۔
روس نے 115 اور بیلارس نے 46 ووٹ حاصل کر رکھے ہیں اور یہ دونوں ممالک ثانوی مرحلے میں انتخاب لڑیں گے۔لاطینی امریکہ اور غرب الہند کے گروپ میں تین نشستوں پر انتخاب کے لیے 125 ارکان کی حمایت درکار تھی۔ ایکواڈور اور پیرو دونوں نے 182 جبکہ سینٹ کٹس اینڈ نیویس نے 180 ووٹ حاصل کیے۔
مغربی یورپ اور دیگر ممالک کے لیے مختص چار نشستوں پر منتخب ہونے کے لیے 120 ووٹوں کی ضرورت تھی۔ رائے شماری میں ترکیہ نے 174، فن لینڈ نے 173، آسٹریلیا نے 172 اور ناروے نے 169 ووٹ حاصل کیے جبکہ اینڈورا کو ایک ووٹ ملا
دو نشستوں پر ضمنی انتخاب میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے 114 ووٹوں کی ضرورت تھی۔ جرمنی 171 اور امریکہ 170 ووٹ لے کر کونسل کے رکن منتخب ہو گئے جبکہ اینڈورا ایک ووٹ لے کر ناکام رہا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انتخاب کے لیے رائے شماری کے کے رکن منتخب ووٹ حاصل کیے مرحلے میں نشستوں پر ووٹوں کی ممالک کے گروپ سے
پڑھیں:
اور عرب حکمرانوں کی رائے بدل گئی
اسلام ٹائمز: قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد عربوں میں ایک بیداری پائی جا رہی ہے۔ عرب حکمرانوں پر واضح ہوگیا ہے کہ واقعاً ’’یہود و نصاریٰ‘‘ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ اس کانفرنس میں ہونیوالی گفتگو کے بعد ایران کے موقف کی تائید آنا شروع ہوگئی ہے۔ کل تک جو عرب اس معاملے میں خاموش تھے، آج انہیں احساس ہوگیا ہے کہ خاموشی خود ان کیلئے خطرناک ہے اور عرب حکمران اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ تحریر: تصور حسین شہزاد
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد دوحہ میں ہونیوالے ہنگامی اجلاس میں 6 تجاویز پیش کیں، جن میں سے ایک تجویز میں اسرائیل کے عزائم کی نگرانی اور توسیع پسندانہ منصوبوں کو روکنے کیلئے ’’عرب اسلامی ٹاسک فورس‘‘ بنانے کی تجویز بھی شامل ہے۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ہنگامی عرب، اسلامی سربراہی اجلاس کی وزرائے خارجہ کی تیاری کے حوالے سے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک بار پھر یہاں جمع ہیں، تاکہ ایک اور غیر قانونی اسرائیلی حملے پر غور کرسکیں، جو ایک برادر اور خود مختار ریاست پر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محض اس حقیقت سے کہ ہمیں بار بار ایسے اجلاس بلانے پڑ رہے ہیں، یہ واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل عالمی امن اور سلامتی کیلئے ایک مستقل خطرہ بن چکا ہے، پاکستان سب سے سخت الفاظ میں ریاست قطر کیخلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اشتعال انگیز اور غیر قانونی حملہ قطر کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر سمیت بین الاقوامی قوانین کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ یہ حملہ بلا جواز ہے اور علاقائی امن و استحکام کو شدید خطرات لاحق کر رہا ہے، اسرائیل نے ایک ایسی ریاست کو نشانہ بنایا، جو امریکا اور مصر کیساتھ مل کر فلسطین میں جنگ بندی کی کوششوں میں مصروف تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملہ اسرائیل کی جارحانہ سوچ اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کو بے نقاب کرتا ہے، اسرائیل کے یہ اقدامات اس کے جارحانہ عزائم اور عالمی نظام کو تباہ کرنے کے خطرناک ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے گذشتہ دو برس میں فلسطینی عوام پر ڈھائے جانیوالے مظالم اس کی انتہاء پسند پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں، اسرائیلی جارحیت اب خطے کے دیگر ممالک تک پھیل چکی ہے، جسے ہر صورت روکا جانا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ عرب و اسلامی دنیا کو متحد ہو کر اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہوگا، پاکستان نے قطر کے عوام اور حکومت سے مکمل اظہار یکجہتی کیا، قطر کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنی خود مختاری اور شہریوں کے تحفظ کیلئے تمام اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے۔
اسحاق ڈار نے قطر کے امن مذاکرات اور جنگ بندی کیلئے کردار کو سراہا اور کہا کہ قطر کو نشانہ بنانا دراصل سفارتکاری اور ثالثی کے عمل پر حملہ ہے، پاکستان نے الجزائر اور صومالیہ کیساتھ مل کر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے میں کردار ادا کیا، تاکہ اسرائیل کو کٹہرے میں لایا جاسکے۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بھی او آئی سی کی نمائندگی کرتے ہوئے فوری بحث کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ اسرائیلی جارحیت پر عالمی سطح پر جواب دیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو جنگی جرائم اور انسانیت کیخلاف جرائم پر جواب دہ ٹھہرایا جائے، اسرائیلی عزائم کی نگرانی اور اس کے توسیع پسندانہ منصوبوں کو روکنے کیلئے عرب-اسلامی ٹاسک فورس قائم کی جائے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ او آئی سی کی تجویز کے مطابق اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کرائی جائے اور اسرائیل کیخلاف اضافی تعزیری اقدامات پر غور کیا جائے، تاکہ اس کے غیر قانونی اقدامات کی حوصلہ شکنی ہو۔
انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل باب ہفتم کے تحت اسرائیل سے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کرے، غزہ میں تمام شہریوں تک بلا رکاوٹ انسانی امداد پہنچائی جائے اور طبی عملے اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ دو ریاستی حل کیلئے ایک بامعنی اور وقت مقررہ سیاسی عمل دوبارہ شروع کیا جائے، تاکہ پائیدار امن قائم ہوسکے، پاکستان بطور غیر مستقل رکن سلامتی کونسل، او آئی سی اور عرب ممالک کے ساتھ مل کر عالمی حمایت کو متحرک کرتا رہے گا، تاکہ خطے میں امن قائم ہو اور فلسطینی عوام کو ان کا حق خودارادیت مل سکے۔ اسحاق ڈار نے تجاویز پیش کیں کہ اسرائیلی توسیع پسندانہ عزائم کیخلاف عرب اسلامی ٹاسک فورس کی تشکیل دی جائے، اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی معطلی کی جائے، رکن ممالک کی جانب سے اسرائیل کیخلاف تعزیری اقدامات کئے جائیں، سلامتی کونسل کی طرف سے مستقل جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی اور قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے۔ غزہ میں انسانی امداد تک بلا روک ٹوک رسائی دی جائے اور اور امدادی کارکنوں کا تحفظ کیا جائے۔
اس سے قبل قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان نے کہا ہے کہ اسرائیلی حملے کا سخت اور مؤثر جواب دیا جانا چاہیئے، اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری دوہرا معیار چھوڑ دے۔ اجلاس سے خطاب میں قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ عرب ممالک نے قطر میں اسرائیل کے وحشیانہ حملے کی مذمت کی اور قطر کی خود مختاری کے تحفظ کیلئے کیے جانیوالے قانونی اقدامات کی حمایت کی۔ قطری وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو جبری بے دخل کرنے کے مقصد میں کامیاب نہیں ہوگا، اسرائیلی حکومت مسلسل ایک کے بعد ایک جنگ بندی تجویز مسترد کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت جان بوجھ کر جنگ کا دائرہ خطے کے دیگر ممالک تک پھیلا رہی ہے اور اسرائیلی اقدامات غزہ جنگ بندی کیلئے ہماری ثالثی کوششوں کو نہیں روک سکتے۔
دوسری طرف نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے ہنگامی عرب-اسلامی سربراہی اجلاس کی تیاریوں کے سلسلے میں وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کی۔ دونوں وزرائے خارجہ نے اسرائیل کے قطر اور دیگر مسلم ممالک پر بلااشتعال حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات خود مختاری، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ دونوں فریقین نے اس موقع پر مسلم امہ کو متحد کرنے میں عرب لیگ اور اسلامی تنظیم تعاون (او آئی سی) کے کلیدی کردار کو اجاگر کیا۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے اجلاس کے موقع پر ازبکستان کے وزیرِ خارجہ بختیار سیدوف سے بھی ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے قطر اور خطے کے دیگر ممالک پر اسرائیلی حملوں کو ریاستی خود مختاری اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی۔ فریقین نے فلسطینی کاز کیلئے غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا اور خطے میں امن و استحکام کے فروغ کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
نائب وزیرِاعظم و اسحاق ڈار نے پر بنگلہ دیش کے کمشنر امورِ خارجہ محمد توحید حسین سے غیر رسمی ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے اسرائیل کی جانب سے قطر اور دیگر مسلم ممالک پر حملوں کی مذمت کی، فلسطینی عوام کی جدوجہد کیلئے غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کی اہمیت پر زور دیا۔ اسحاق ڈار نے ہنگامی عرب-اسلامی سربراہی اجلاس کی تیاریوں کے سلسلے میں وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر ملائیشیا کے وزیرِ خارجہ داتو سری محمد حسن سے بھی ملاقات کی۔ دونوں وزرائے خارجہ نے اسرائیل کی جانب سے قطر اور دیگر مسلم ممالک پر بلااشتعال حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں خود مختاری، بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس موقع پر مسلم امہ کو متحد کرنے میں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے کلیدی کردار پر زور دیا اور فلسطینی عوام کی آزادی و حقِ خودارادیت کی جائز جدوجہد کیلئے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔ دونوں فریقوں نے اس بات کا خیرمقدم کیا کہ عرب-اسلامی سربراہی اجلاس ایک بروقت اور اجتماعی اقدام کیلئے ناگزیر موقع ہے۔
قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد عربوں میں ایک بیداری پائی جا رہی ہے۔ عرب حکمرانوں پر واضح ہوگیا ہے کہ واقعاً ’’یہود و نصاریٰ‘‘ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ اس کانفرنس میں ہونیوالی گفتگو کے بعد ایران کے موقف کی تائید آنا شروع ہوگئی ہے۔ کل تک جو عرب اس معاملے میں خاموش تھے، آج انہیں احساس ہوگیا ہے کہ خاموشی خود ان کیلئے خطرناک ہے اور عرب حکمران اپنے رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اس حملے نے اسرائیلی بربریت اور اصلیت بے نقاب کرکے ایران کے موقف کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔ عربوں نے اس موقع پر غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حق کا ساتھ دیا تو اسرائیل کا خاتمہ یقینی ہو جائے گا۔