سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سول سرونٹس ترمیمی بل کی منظوری دےدی
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
ویب ڈیسک :سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سول سرونٹس ترمیمی بل کی منظوری دےدی۔
رانا محمود الحسن کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی کابینہ سیکریٹریٹ کے اجلاس میں سول سرونٹس ترمیمی بل کی منظوری دیدی گئی، بل میں گریڈ 17 سے بالا سرکاری افسران پر اپنے اثاثے ظاہر کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
سول سرونٹس ترمیمی بل کے متن کے مطابق گریڈ17 سے بالا افسران اپنے غیرملکی اثاثے اور واجبات بھی ظاہر کریں گے، سرکاری افسران کو بیوی اور زیر کفالت بچوں کے اثاثے بھی ظاہر کرنا ہوں گے۔
صدرِ مملکت سے سردار سلیم حیدر سمیت پارٹی رہنماؤں کی ملاقات، اہم امور پر تبادلہ خیال
مسودے کے مطابق اثاثوں کی تفصیلات ایف بی آر کو دی جائیں گی جو پبلک ہوں سکیں گی، معلومات عوامی مفادات اورشخص کی پرائیویسی کا خیال رکھ کر مشتہر ہوں گی، ذاتی معلومات، شناختی کارڈ نمبر، ایڈریس اور بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات کا تحفظ کیا جائے گا۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حکام کے مطابق اس بل پر ہم نے ایف بی آر سے بہت طویل مشاورت کی، اس قانون کے بعد سول سرونٹس ملازمین اپنے اثاثے ظاہر کریں گے۔
متحدہ عرب امارات میں عید الاضحیٰ پر 3 ہزار قیدیوں کی رہائی کا حکم
رکن قائمہ کمیٹی سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ ایک اچھی قانون سازی ہے، سینیٹر مسلم لیگ (ن) انوشہ رحمان نے کہا کہ ہم بھی اس بل کی مکمل حمایت کریں گے۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سول سرونٹس ترمیمی بل قائمہ کمیٹی
پڑھیں:
وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔