بیجنگ:چین کی صنعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے مطابق  رواں سال کے پہلے چار مہینوں میں، قومی ہائی ٹیک زونز میں نامزد سائز  سے بالا صنعتی اداروں کی آپریٹنگ آمدنی 10.26 ٹریلین یوآن تک پہنچ گئی، جو سال بہ سال 7.3 فیصد کا اضافہ ہے، اور جدید اختراعی اور صنعتی جمعیت کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں۔اب تک، چین میں 178 قومی ہائی ٹیک زونز موجود  ہیں، جنہوں نے 70فیصد  قومی مینوفیکچرنگ اختراعی مراکز اور 80 فیصد قومی کلیدی لیبارٹریز کو اکٹھا کیا ہے، اور چین میں ایجاد کے تقریباً نصف پیٹنٹس کے مالک ہیں۔ قومی ہائی ٹیک زونز نے کوانٹم انفارمیشن، ہیومنائیڈ روبوٹس، اور ا نیکسٹ جنریشن انٹرنیٹ جیسے جدید شعبوں کو ترتیب دیا ہے، اور متعلقہ مستقبل کی صنعتوں میں ابتدائی ترقیاتی برتری قائم کی ہے۔

Post Views: 5.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: قومی ہائی ٹیک زونز

پڑھیں:

تعلیمی اداروں میں امتحانات ختم کر دینا چاہییں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جون 2025ء) ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ایک درجن سے زائد اساتذہ، ماہرین تعلیم اور طلبہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ سنجیدگی سے یہ جانچا جائے کہ آیا روایتی امتحانات کا سسٹم آج بھی علم کی حقیقی پیمائش کا مؤثر ذریعہ ہیں یا نہیں۔

مقصد کیا صرف یادداشت کو جانچنا ہے؟

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تعلیمی اداروں میں موجودہ امتحانی نظام کا مقصد محض طلبہ کی یادداشت کو جانچتا ہے نہ کہ ان کی فہم یا تنقیدی صلاحیت کو۔

ڈاکٹر اصفر زیدی کے بقول، "بچے صرف اچھے نمبر لینے کے لیے رٹے بازی پر انحصار کرتے ہیں اور سیکھنے کا اصل مقصد کہیں کھو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

" وہ سمجھتے ہیں کہ ایک سال کی محنت کو تین گھنٹوں کے پرچے سے جانچنا کسی طور مناسب نہیں۔

ان کے خیال میں سمسٹر سسٹم ایک بہتر متبادل تھا مگر اس میں بھی خامیاں پیدا ہو چکی ہیں، "اب اکثر اساتذہ مکمل نصاب پڑھانے کے بجائے صرف چند موضوعات پر توجہ دیتے ہیں اور انہی سے امتحان لے کر پوری کلاس کو پاس کر دیتے ہیں۔

" ان کا مشورہ ہے کہ اساتذہ کو حاصل امتحانی اختیارات محدود کر کے بیرونی ممتحن (ایکسٹرنل ایگزامینر) کا کردار بڑھایا جانا چاہیے۔ کیا امتحانات اسٹوڈنٹس کی ذہنی صحت کے لیے مسئلہ ہیں؟

کچھ طالب علموں کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں امتحانات طلبہ پر شدید ذہنی دباؤ ڈالتے بھی ہیں اور یہ دباؤ کئی نفسیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔

اے لیول کی ایک طالبہ ایشال طارق نے بتایا، "ہماری کلاس کے کئی طلبہ کو امتحانی دباؤ کی وجہ سے نیند نہ آنے، پینک اٹیک ہونے اور صحت کے دیگر مسائل کا سامنا رہا ہے۔‘‘

پنجاب یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات محمد رؤف نواز کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ روایتی امتحانات کو ختم کر کے ایک جامع اور جدید نظام اپنایا جائے۔ ان کے مطابق، "محض کتابی رٹہ بازی طلبہ کی ترقی کا معیار نہیں ہونا چاہیے۔

حاضری، کلاس ڈسکشن، غیر نصابی سرگرمیاں اور تحقیقی منصوبے بھی کارکردگی کا حصہ ہونے چاہییں۔‘‘

ان کا کہنا ہے، "آج کی دنیا میں روایتی ڈگریوں اور امتحانات کی وقعت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ملازمت کے لیے اب پراجیکٹس، مہارتیں اور عملی تجربہ دیکھا جاتا ہے۔ آپ خود سوچیں، ایک نوجوان جو ایم اے یا ایم فل کے امتحانات پاس کر چکا ہو لیکن ایک رپورٹ تیار کرنے یا کمپیوٹر چلانے کی مہارت نہ رکھتا ہو، کیا وہ ملازمت حاصل کر پائے گا؟"

عملی تجربہ لازمی ہے!

پنجاب یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات رؤف نواز کے بقول پاکستان میں اب یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد بچوں کو مختصر مدت میں عملی مہارتیں سکھا کر فیلڈ میں بھیج دینا چاہیے۔

اسی لیے بی ایس اور ایل ایل بی جیسے پروگراموں کے دورانیے کم کرنے کی تجاویز زیر غور ہیں۔

رؤف نواز نے چارٹرڈ اکاؤنٹنسی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس نظام میں اگرچہ روایتی امتحانات نہیں ہوتے مگر اس کے تربیت یافتہ افراد کی عملی مہارتیں ہمیشہ نمایاں رہی ہیں۔ ان کے مطابق امتحانات کی ساکھ اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتی جب تک امتحان لینے والے افراد دیانت دار نہ ہوں۔

ایک جانبدار ممتحن کسی نااہل امیدوار کو بھی ڈگری دلوا سکتا ہے، اس لیے امتحانی عمل کو شخصی مداخلت سے پاک ہونا چاہیے۔

ندیم نامی ایک طالب علم نے سوال اٹھایا، "ایک جیسے پرچے پر ساجد کو پانچ نمبر اور ساجدہ کو پچاس نمبر کیسے مل سکتے ہیں؟ کیا یہ ممتحن کی سلیکشن یا تعصب کا مسئلہ نہیں؟"

رقیہ نورین گزشتہ پندرہ برسوں سے ایک نجی تعلیمی ادارے میں امتحانی امور کی انچارج ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نجی شعبے میں امتحانی اصلاحات کافی پہلے شروع ہو چکی تھیں، ''ہمارا امتحانی نظام بڑی حد تک کمپیوٹرائزڈ ہے۔ صرف 10 فیصد سوالات یادداشت سے متعلق ہوتے ہیں، باقی سوالات طلبہ کی فہم، تجزیہ اور تخلیقی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔‘‘

لاہور کالج فار ویمن سے وابستہ ڈاکٹر شبانہ اصغر نے اس خیال کا اظہار کیا کہ امتحانات طلبہ کو ایک ہی پیمانے سے ناپتے ہیں حالانکہ ہر طالب علم کی صلاحیت، ذہنی رجحان اور سیکھنے کا انداز مختلف ہوتا ہے، ''تین گھنٹے کے امتحان کے بجائے ایک تقریر، تحقیقی رپورٹ یا تخلیقی منصوبہ طالب علم کی صلاحیت کا بہتر عکاس ہو سکتا ہے۔

‘‘ اصلاحات کی جائیں لیکن امتحانی نظام بالکل ختم نہ کیا جائے

امتحانات کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ یہ نظام کسی حد تک نظم و ضبط اور میرٹ کا ضامن ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر ریحانہ سعید ہاشمی کہتی ہیں کہ امتحانات کو مکمل طور پر ختم کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول، "امتحانات ہی طلبہ کو مطالعہ، تحقیق اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔

اگر انہیں ذہنی دباؤ کا جواز بنا کر ختم کر دیا گیا تو سیکھنے کی رہی سہی روایت بھی ماند پڑ جائے گی۔‘‘

ان کا ماننا ہے کہ اعتدال ہی بہتر راستہ ہے، "امتحانی نظام میں اصلاحات ضرور ہونا چاہییں، لیکن جہاں روایتی امتحانات ضروری ہوں، خاص طور پر سائنس، ریاضی یا قانون جیسے مضامین میں، وہاں انہیں برقرار رکھا جانا چاہیے۔"

کئی ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ اگرچہ امتحانات کا مکمل خاتمہ فی الحال ممکن نہیں، لیکن اس شعبے میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ مسلسل تعلیمی جائزہ، اوپن بُک امتحانات، پراجیکٹ بیسڈ اسائنمنٹس، زبانی پریزنٹیشنز اور گروہی مباحثوں جیسے متبادل ذرائع سے طلبہ کی تخلیقی و تنقیدی صلاحیتوں کا بہتر انداز میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • تعلیمی اداروں میں امتحانات ختم کر دینا چاہییں؟
  • چین کا جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر عالمی صنعتی چین کی حفاظت کو یقینی بنانے کا اعلان
  • بجٹ کے فوراً بعد صنعتی پالیسی کا اعلان کیا جائے گا: ہارون اختر
  • عطا تارڑ سے ڈی جی سول انفارمیشن سروس اکیڈمی کی الوداعی ملاقات
  • وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ سے ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن سروس اکیڈمی مبشر توقیر شاہ کی الوداعی ملاقات، وزیر اطلاعات نے شاندار خدمات کے اعتراف میں اعزازی شیلڈ پیش کی
  • صنعتی و ٹیکنالوجی زونز کی مراعات مرحلہ وار ختم کی جائیں، آئی ایم ایف
  • نو دنوں تک دنیا کو ہلا کر رکھ دینے والا معمہ بالآخر حل ہوگیا
  •  ملکی معاشی  اور صنعتی ترقی کے لئے ریلوے انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کرنے کی ضرورت ہے: وزیراعظم
  • ملکی معاشی  اور صنعتی ترقی کے لئے ریلوے انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کی ضرورت ہے، وزیراعظم