Express News:
2025-06-06@17:39:42 GMT

آج بھی ہو جو ابراہیمؑ کا ایماں پیدا ۔۔۔!

اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT

تصور کیجیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا! کیسی آزمائش کی گھڑی رہی ہوگی حضرت ابراہیمؑ کے لیے جب نمرود نے دہکتی ہوئی آگ تیار کرائی تھی، ایک طرف نارِ نمرود اور اس کے وہ چیلے چپاٹے ہیں جو حضرت ابراہیمؑ کے آگ میں جلنے کا تماشا دیکھنے کے لیے بے تاب تھے، اور دوسری طرف حضرت ابراہیمؑ کا عشقِ حقیقی تھا جو بار بار آگ میں کودنے کے لیے بے تاب تھا۔

 بالآخر ابراہیمؑ خلیل اﷲ بے دھڑک آگ میں کود پڑے، اور خدائی فرمان: ’’اے آگ! تُو ٹھنڈی اور سلامتی بن جا حضرت ابراہیمؑ پر۔‘‘ کے آگے آگ اُن کا کچھ نہ بگاڑ سکی، اور دنیا نے دیکھا کہ آتشِ نمرود میں عشقِ حقیقی کس طرح پنپتا اور پروان چڑھتا ہے۔

پھر تصور میں لائیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فدائیت کا کہ حکم ہوتا ہے اپنی بیوی اور بچے کو اُس سنسان وادی میں چھوڑ کر آئیے جہاں آدم نہ آدم زاد، ایسا ویرانہ جہاں صرف چلچلاتی دھوپ ہے، کھانا ہے نہ پانی، نہ کوئی قریب اور عزیز، نہ کوئی خبر گیری کرنے والا اور نہ کوئی راہ گیر، جہاں نہ اپنوں کا معلوم اور نہ بیگانوں کی خیر خبر، حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کا حکم پاتے ہی بیوی اور بچے کو اُس جھلسی ہوئی پہاڑیوں اور کھانے پانی سے خالی وادی میں چھوڑ کر آگئے۔

 یہ بالکل نہ سوچا کہ اُس تپتی ہوئی وادی میں ممتا کی ماری ایک ماں اور شیرخوار بچے کا کیا ہوگا۔ بس خدا کا حکم ملتے ہی تعمیل کے لیے فوراً تیار ہوگئے اور حکم کو تجسیمی شکل دینے میں ذرّہ برابر بھی تاخیر نہ کی۔ حضرت ہاجرہؓ اور ان کے ننھے منے بچے پر اس وحشت ناک وادی میں کیا گذری؟ یہ بھی تاریخ کا ایک باب ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی فدائیت کا مظہر ہے۔

اُس تپتی ہوئی وادی میں وہ شیرخوار بچہ جب دیوارِ کعبہ سے ایڑیاں رگڑتا تو ماں تڑپ تڑپ کر کبھی صفاء کی طرف دیکھتی کہ شاید کوئی قافلہ نظر آجائے اور پانی مل جائے، اور کبھی دوڑتی ہوئی مروہ پر چڑھتی کہ شاید ادھر کوئی قافلہ گذرتا ہوا دکھائی دے، پھر بھاگی بھاگی بچے کو دیکھنے آتی کہ کس حال میں ہے۔

 اس معصوم کو دیکھ کر پھر پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کا چکر لگاتی، اور جب امید کی کوئی کرن نظر نہ آتی تو بے قرار ہوجاتی، کلیجہ منہ کو آنے لگتا، تاآں کہ اﷲ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لاڈلے کی ایڑیوں کی رگڑ سے پانی کا چشمہ جاری فرما دیا جو ’’زم زم‘‘ کے نام سے مشہور ہے، اور اُس وقت سے اب تک اسی طرح جاری ہے اور ان شاء اﷲ تاقیامت جاری رہے گا۔

اﷲ اکبر! فدائیت کا یہ نمونہ اب کون پیش کرسکتا ہے کہ ابھی ایک امتحان ختم نہیں ہُوا کہ دوسرا شروع ہوگیا، جب بچہ بڑا ہوگیا اور بوڑھے باپ کو کچھ سہارا دینے کے لائق ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے لاڈلے کو اﷲ کی راہ میں قربان کررہے ہیں، چوں کہ انبیائے کرام علیہم السلام کا خواب بھی وحی کے درجے میں ہوتا ہے اِس لیے صبح اٹھتے ہی اس خواب کا تذکرہ اپنے بیٹے سے کیا، اِس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی ہچکچاہٹ اور سراسیمگی نہیں ہوئی، اور نہ ہی کوئی قلق ہُوا، کیوں کہ ان کا قلب حُبّ خدا سے سرشار تھا اور بہ طورِ امتحان بیٹے سے سوال کیا: تمہاری رائے اِس کے بارے میں کیا ہے۔۔۔ ؟

یہاں کسی شخص کے دل میں یہ خلجان پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدائی حکم کی تعمیل کرنا بیٹے کے اتباعی جواب پر منحصر تھا ؟ ایسی کوئی بات نہیں، بل کہ ان سے صلاح و مشورے میں بہت سارے اسرار و حکمتیں پنہاں ہیں۔ پہلی حکمت یہ تھی کہ ان میں اطاعتِ خداوندی کا جذبہ اور ولولہ کس حد تک ہے یہ بات کھل کر سامنے آجائے، نیز ان کے حوصلے کو بھی پرکھنا اور جانچنا مقصود تھا۔ دوسری حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ اسے قبول کریں گے تو مستحق اجر ہوں گے۔ تیسری حکمت یہ تھی کہ عین ذبح کے وقت ممکن تھا کہ محبتِ پدری، محبت طبعی اور تقاضائے انسانی فعل مامور میں آڑے نہ آجائے، اِس وجہ سے جناب ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے مشورہ لیا تھا۔

قرآنِ کریم نے اِس واقعے کو اِس انداز سے بیان فرمایا ہے، مفہوم : ’’سو جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ چلنے پھرنے لگا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا: برخوردار! میں دیکھتا ہوں کہ تم کو (بہ امرالٰہی) ذبح کررہا ہوں، سو تم بھی سوچ لو تمہاری کیا رائے ہے؟ وہ بولے: ابا جان! آپ کو جو حکم ہُوا ہے آپ کیجیے ان شاء اﷲ آپ مجھ کو صبر کرنے والوں میں سے دیکھیں گے۔‘‘

یہ امتحان کس قدر سخت تھا اِس کی طرف اشارہ خود اﷲ رب العزت نے اشارہ فرما دیا کہ ارمانوں سے مانگے ہوئے اس بیٹے کو قربان کرنے کا حکم اس وقت دیا گیا جب یہ بیٹا اپنے باپ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تھا، اور پرورش کی مشقتیں برداشت کرنے کے بعد اب وقت آیا تھا کہ وہ قوتِ بازو بن کر باپ کا سہارا ثابت ہو۔ مفسّرین نے لکھا ہے کہ اس وقت حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی عمر تیرہ سال تھی، اور بعض مفسّرین نے فرمایا ہے کہ بالغ ہوچکے تھے۔

یوں تو ذبح کرنے کا یہ حکم بہ راہِ راست کسی فرشتے کے ذریعے بھی نازل کیا جاسکتا تھا، لیکن خواب میں دکھانے کی بہ ظاہر حکمت یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت شعاری اپنے کمال کے ساتھ ظاہر ہو، خواب کے ذریعے دیے ہوئے حکم میں انسانی نفس کے لیے تاویلات کی بڑی گنجائش تھی، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تاویلات کا راستہ اختیار کرنے کے بہ جائے اﷲ رب العزت کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور اِس امتحان میں سو فی صد کام یاب ہوئے۔

قربانی کا یہ واقعہ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فدائیت کا عظیم مظہر ہے وہیں اِس واقعے سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بھی بے مثال جذبۂ جاں نثاری کی شہادت ملتی ہے، اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کم سنی ہی میں اﷲ رب العزت نے انھیں کیسی ذہانت اور کیسا علم عطا فرمایا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے سامنے اﷲ کے کسی حکم کا حوالہ نہیں دیا تھا، بل کہ محض ایک خواب کا تذکرہ فرمایا تھا، لیکن حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سمجھ گئے کہ انبیائے علیہم السلام کا خواب وحی ہوتا ہے، اور یہ خواب بھی درحقیقت حکمِ الٰہی کی ہی ایک شکل ہے، چناں چہ انہوں نے جواب میں خواب کے بہ جائے حکمِ الٰہی کا ذکر کیا اور والد بزرگوار کو یہ کہہ کر یقین دلایا: ’’ابا جان! جس بات کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے کر گزریے، ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘

مفتی محمد شفیعؒ اپنی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں اِس آیت کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اِس جملے میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی غایتِ ادب اور غایتِ تواضع کو دیکھیے، ایک تو ان شاء اﷲ کہہ کر معاملہ اﷲ کے حوالے کردیا، اور اِس وعدے میں دعوے کی جو ظاہری صورت پیدا ہوسکتی تھی اسے بالکل ختم فرما دیا، دوسرے آپ یہ بھی فرما سکتے تھے کہ ’’آپ ان شاء اﷲ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔‘‘ لیکن اس کے بہ جائے آپ نے فرمایا ’’ ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘ جس سے اِس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ صبر و ضبط تنہا میرا کمال نہیں ہے، بل کہ دنیا میں اور بھی بہت سے صبر کرنے والے ہوئے ہیں، ان شاء اﷲ میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں گا، اِس طرح آپ نے اِس جملے میں فخر و تکبر، خود پسندی اور پندار کے ادنیٰ شائبے کو ختم کرکے اس میں انتہا درجے کی تواضع اور انکسار کا اظہار فرما دیا۔‘‘ (روح المعانی، بہ حوالہ معارف القرآن)

سبحان اﷲ! یہ جذبۂ قربانی اور یہ فدائیت، کہ بیٹے کے گلے پر چُھری چلادی، اور آفرین صد آفرین یہ اِقدامِ فداکاری کہ چُھری تلے گردن رکھ دی اور خلیل و ذبیح دونوں نے اپنا اپنا حق ادا کریا۔ قرآن نے بھی اعلان کردیا، مفہوم: ’’ تم نے خواب سچ کر دکھایا ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘ یعنی اﷲ کے حکم کی تعمیل میں جو کام تمہارے کرنے کا تھا اس میں تم نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور آزمائش میں پورے کام یاب رہے، اور یہ ادائے قربانی اﷲ کو اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک کے لیے یادگار اور قربِ خداوندی کا ذریعہ بنادیا جسے امت مسلمہ ہر سال مناتی ہے اور اِس قربانی میں درحقیقت مسلمانوں کے اِس عقیدے کا اعلان ہوتا ہے کہ انسان کو اﷲ رب العزت کے حکم کے آگے اپنی عزیز سے عزیز ترین چیز کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔

آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا

آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

اﷲ رب العزت پوری امت مسلمہ میں جذبۂ ایثار و قربانی پیدا فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حضرت اسم عیل علیہ السلام اﷲ رب العزت فدائیت کا ان شاء اﷲ فرما دیا وادی میں حکمت یہ ہوتا ہے اور ا س کے لیے

پڑھیں:

وزیراعظم اور وزیرِاعلیٰ بے اختیار ہیں، اصل اختیار فیلڈ مارشل کے پاس ہے، پروفیسر ابراہیم

جماعت اسلامی کے صوبائی امیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہنی مون منایا ہے، چیک پوسٹوں پر عوام کے ساتھ فوجی اہلکاروں کا رویہ انتہائی تضحیک آمیز ہوتا ہے۔ اندرونی سلامتی کا کام فوج کا نہیں، سول اداروں کا ہے۔ ہم نے فوج کو نہیں کہاکہ اندرونی سلامتی سنبھالے، فوج کے اپنے جنرل مشرف نے یہ کام کیا۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا جنوبی پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیرِ اعلیٰ بے اختیار ہیں، اصل اختیار فیلڈ مارشل عاصم منیر اور کورکمانڈر پشاور کے پاس ہے، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہنی مون منایا ہے، بنوں چھاؤنی ہمارے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ہمارے لیے چھاؤنی میں جانے کے تمام راستے محدود کردیے گئے ہیں، چیک پوسٹوں پر عوام کے ساتھ فوجی اہلکاروں کا رویہ انتہائی تضحیک آمیز ہوتا ہے۔ چیک پوسٹوں پر تلاشی کے دوران عوام کو ذلیل کیا جاتا ہے، بنوں چھاؤنی شہر سے باہر منتقل کی جائے، شمالی وزیرستان میں ہر دوسرے تیسرے دن کرفیو لگا دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ بیس سال سے جاری ہے لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔ اندرونی سلامتی کا کام فوج کا نہیں، سول اداروں کا ہے۔ ہم نے فوج کو نہیں کہا کہ اندرونی سلامتی سنبھالے، فوج کے اپنے جنرل مشرف نے یہ کام کیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے تحصیل بنوں کے اقوام پر مشتمل بنوں امن جرگے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء سابق سینیٹر باز محمد خان، میریان قوم کے رہنما ڈاکٹر پیر صاحب زمان، مئیر تحصیل بنوں عرفان درانی، اقوام بنوں کے عمائدین اور تاجر تنظیموں کے رہنما بھی موجود تھے۔پروفیسر محمد ابراہیم خان نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم بنوں، خیبر پختونخوا ور پورے ملک میں امن چاہتے ہیں۔ امن کے لیے متحد ہو کر پُر امن لشکر بنانا ہوگا۔ ہم ہتھیار نہیں اٹھائیں گے لیکن متحد ہوکر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر پُرامن اورآئینی طریقوں اور ذرائع سے دباؤ ڈالیں گے۔ سرکاری اسکول کے مغوی استاد فرمان علی شاہ کو فی الفور بازیاب کرایا جائے۔جب تک اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے گرین سگنل نہیں ملتا فرمان علی شاہ کی بازیابی مشکل ہے۔ بنوں کی سڑکیں عوام کے لیے کھولی جائیں اور بدامنی کا خاتمہ کرکے پُرامن بنوں ہمارے حوالے کیا جائے۔ بدامنی لانے والے چاہتے ہیں کہ ہم تفرقے میں پڑیں، بندوق اٹھائیں اور کوئی غلطی کریں لیکن قوم کے نوجوان ہوش سے کام لیں۔ کسی تفرقے میں نہیں پڑنا، اپنی جدوجہد کو پُرامن طریقے سے آگے بڑھانا اور متحد رہنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • یہ عید حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے اسوہ حسنہ کی تائید و تجدید ہے،ڈاکٹرعشرت العباد
  • یاد ہے قربانی کا دنبہ، مگر بھول گئے ہم وہ مکالمہ
  • یوم عرفہ دعاؤں کی قبولیت، مناجات اور قرب الہی کا افضل ترین دن ہے، حمیرا طارق
  • ابراہیمؑ واسمٰعیلؑ مجسمِ تسلیم و رضا اے ابراہیم!
  • وزیراعظم اور وزیرِاعلیٰ بے اختیار ہیں، اصل اختیار فیلڈ مارشل کے پاس ہے، پروفیسر ابراہیم
  • ’بچے دو ہی اچھے‘ پالیسی ختم؛ ویتنام میں 2 سے زائد بچے پیدا کرنے کی اجازت
  • عیدالاضحیٰ کے اجتماعی اور معاشرتی پہلو اور پاکستانی معاشرے میں اسکی اہمیت
  • لبّیک اللّھمّ لبّیک۔۔۔۔۔۔۔ !
  • عیدالاضحیٰ، یہودی معاشی نظام پر کاری ضرب