اسرائیل نے گریٹا تھنبرگ کو ملک بدر کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جون 2025ء) اسرائیل کی وزارت خارجہ نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ تھنبرگ پرواز کے ذریعے فرانس کے لیے روانہ ہوئیں اور اس کے بعد وہ اپنے آبائی ملک سویڈن روانہ ہو گئیں۔ پیغام کے ساتھ ماحولیاتی کارکن تھنبرگ کی ایک تصویر بھی پوسٹ کی گئی ہے جس میں وہ ہوائی جہاز میں بیٹھی ہوئی ہیں۔
اسرائیل نے غزہ پٹی کے لیے امداد لے جانے والی کشتی روک لی
فریڈم فلوٹیلا پر ڈرون حملہ، بحری جہاز کے ڈوب جانے کا خطرہ
تھنبرگ غزہکے لیے امداد لے جانے والے کشتی میڈلین کے 12 مسافروں میں سے ایک تھیں۔
اس سفر کا انتظام کرنے والی فلسطینی نواز تنظیم فریڈم فلوٹیلا کولیشن کے مطابق اس کا مقصد وہاں اسرائیل کی جاری جنگ کے خلاف احتجاج کرنا اور اس فلسطینی علاقے میں انسانی بحران پر روشنی ڈالنا تھا۔(جاری ہے)
اسرائیلی بحری افواج نے غزہ کے ساحل سے تقریباﹰ 200 کلومیٹر کے فاصلے پر پیر نو جون کی صبح اس کشتی کو قبضے میں لے لیا تھا۔ فریڈم فلوٹیلا کولیشن اور انسانی حقوق کے گروپوں نے اسرائیلی اقدامات کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اسرائیل اس الزام کو مسترد کرتا ہے کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کوشش غزہ کی قانونی بحری ناکہ بندی کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق یہ کشتی اسرائیلی بحریہ کے ہمراہ پیر کی شام اسرائیلی بندرگاہ اشدود پہنچی۔ دیگر کارکنوں کو بھی ملک بدری کا سامنافریڈم فلوٹیلا کے ساتھ سفر کرنے والے 12 کارکنوں کو حراست میں لے کر اسرائیل لے جایا گیا، جہاں ان کارکنوں کو انسانی حقوق کا ایک اسرائیلی گروپ ادالہ قانونی مدد فراہم کر رہا ہے۔
اس گروپ نے کہا کہ تھنبرگ، دو دیگر کارکنوں اور ایک صحافی نے ملک بدری اور اسرائیل چھوڑنے پر اتفاق کیا تھا، تاہم دیگر آٹھ کارکنوں نے اپنی ملک بدری سے انکار کر دیا، جنہیں حراست میں رکھا گیا ہے اور ان کے کیس کی سماعت اسرائیلی حکام کریں گے۔ ادالہ گروپ کے مطابق ان کارکنوں کو آج منگل کو ایک عدالت کے سامنے پیش کیے جانے کی توقع ہے۔اسرائیل کی وزارت داخلہ کی ترجمان سبین حداد کے مطابق جن کارکنوں کو منگل کے روز ملک بدر کیا جا رہا تھا، وہ جج کے سامنے پیش ہونے کے اپنے حق سے دستبردار ہو گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے ایسا نہیں کیا، ان کو ملک بدر کرنے سے پہلے 96 گھنٹوں تک حراست میں رکھا جائے گا۔فریڈم فلوٹیلا کولیشن کی میڈیلین نامی کشتی پر یورپی پارلیمنٹ کی فلسطینی نژاد فرانسیسی رکن ریما حسن بھی موجود تھیں۔ اس سے قبل فلسطینیوں کے بارے میں اسرائیلی پالیسیوں کی مخالفت کی وجہ سے انہیں اسرائیل میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں فوری طور پر ملک بدر کیا جا رہا ہے یا حراست میں لیا جا رہا ہے۔فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے کہا ہے کہ حراست میں لیے گئے فرانسیسی کارکنوں میں سے ایک نے اپنی ملک بدری کے حکم نامے پر دستخط کیے اور وہ آج منگل کو ہی اسرائیل سے فرانس کے لیے روانہ ہو جائیں گے، باقی پانچ نے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام کارکنوں سے قونصلر نے ملاقاتیں کی ہیں۔
ملک بدر کیے جانے والے ہسپانوی کارکن سرجیو توریبیو نے بارسلونا پہنچنے کے بعد اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کی: ''یہ ناقابل معافی ہے، یہ ہمارے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بین الاقوامی پانیوں میں قزاقوں کا حملہ ہے۔‘‘
بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی پر سوالاتپیر کے روز انسانی حقوق کی اسرائیلی تنظیم ادالہ نے کہا تھا کہ اسرائیل کے پاس اس کشتی کو تحویل میں لینے کا کوئی قانونی اختیار نہیں تھا، کیونکہ یہ بین الاقوامی پانیوں میں تھی اور یہ کہ یہ کشتی اسرائیل کی طرف نہیں بلکہ فلسطینی علاقائی پانیوں کی طرف جا رہی تھی۔
ادالہ نے ایک بیان میں کہا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے لیے سویلین انداز میں کام کرنے والے نہتے کارکنوں کی گرفتاری بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہے۔دوسری طرف انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اسرائیل ''بحری حملے‘‘ کے ذریعے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کارکنوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کرے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے اقدامات بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہیں۔ اسرائیل نے اس کشتی کے سفر کو ایک 'پبلسٹی اسٹنٹ‘ قرار دیتے ہوئے اسے 'سیلفی کشتی‘ قرار دیا۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ فلوٹیلا بہت ہی معمولی امداد لے کر آ رہا تھا، جس پر ایک ٹرک لوڈ سے بھی کم امدادی سامان موجود تھا۔
اے پی، روئٹرز کے ساتھ
ادارت: امتیاز احمد، مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بین الاقوامی قوانین فریڈم فلوٹیلا کا کہنا ہے کہ کی خلاف ورزی اسرائیل کی کارکنوں کو کے مطابق ملک بدری ملک بدر کے لیے رہا ہے نے کہا کہا کہ اور اس
پڑھیں:
غزہ جنگبندی کے مذاکرات میں 3 اہم رکاوٹیں موجود ہیں، ترکیہ
اپنے ایک انٹرویو میں ھاکان فیدان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی انٹیلیجنس اہلکار مختلف ممالک کا دورہ کر کے دنیا کو بڑی تعداد میں فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ "هاکان فیدان" نے NTV کو انٹرویو دیتے ہوئے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات کی تازہ صورتحال پر بات کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل کے دوران تین اہم معاملات پر گفتگو رک گئی ہے۔ کیونکہ حماس چاہتی ہے کہ جنگ بندی کے بعد اقوام متحدہ کے ذریعے انسانی امداد تقسیم کی جائے لیکن اسرائیل اس بات پر راضی نہیں۔ ایک اور اختلافی نکتہ، اسرائیلی فوج کے غزہ پٹی سے کب اور کیسے پیچھے ہٹنے کے معاملے پر ہے۔ ھاکان فیدان کے مطابق، حماس یہ بھی چاہتی ہے کہ اسرائیل تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد بھی جنگ بندی پر عمل کرنے کا تحریری عہد کرے، لیکن تل ابیب نے اب تک اس شرط کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے غزہ میں انسانی المیے کی شدت پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے نہ صرف غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا بلکہ وہ وہاں کی آبادی کو بھوک سے مار رہا ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں کے بغیر غزہ نامی منصوبے پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس اہلکار مختلف ممالک کا دورہ کر کے دنیا کو بڑی تعداد میں فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اس کے خلاف ہیں اور متعلقہ ممالک کو خبردار کر چکے ہیں۔