یہ بجٹ غریب عوام کا نہیں شریف خاندان کے بزنس ونگ کا بجٹ ہے، بیرسٹر سیف
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
— فائل فوٹو
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے وفاقی بجٹ پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
اس حوالے سے اپنے بیان میں بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو فارم 47 کے طرز پر جعلی ریلیف دیا ہے۔
بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ مہنگائی کے مقابلے میں تنخواہوں میں اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے، یہ بجٹ غریب عوام کیلئے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔
اسلام آبادقومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2025-26ء کا 17.
انہوں نے کہا کہ پیٹرول اور بجلی پر ٹیکس میں اضافہ مہنگائی کے نئے طوفان کو جنم دے گا، پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے تمام اشیاء ضروریہ مہنگی ہو جاتی ہیں۔
بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع سولر پینل پر بھی ٹیکس عائد کردیا گیا ہے، اب سولر پینل بھی غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مہنگی بجلی، طویل لوڈشیڈنگ اور اب سولر پینل پر ٹیکس غریب جائیں تو کہاں جائیں؟ یہ بجٹ غریب عوام کا نہیں شریف خاندان کے بزنس ونگ کا بجٹ ہے۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: میں اضافہ غریب عوام پر ٹیکس
پڑھیں:
پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔
حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔
حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔