مزاحمتی سوچ اور ورلڈ آرڈر کا خاتمہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: انسانی حقوق، انسانی اصول و ضوابط اور قانونی برتاو جیسے مفاہیم جنگوں اور عالمی سطح پر رقابت میں بے معنی ہو جاتے ہیں اور حتی وہ ممالک جو خود ان مفاہیم کے بانی ہیں اور ان کے نام پر دوسروں پر اپنی دھونس جماتے ہیں، بہت آسانی سے انہیں پامال کرتے ہیں اور پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ یہ بدنظمی اور لاقانونیت پر مبنی رویہ عالمی سطح پر سب کی سلامتی اور امن کو خطرے سے دوچار کر دیتا ہے اور ان کی جانب سے مناسب ردعمل سامنے آنا ایک فطری عمل ہے۔ انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی رح اور ان کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے دنیا پر حکمفرما استعماری اور ظالمانہ نظام کی گہری شناخت کے بعد جس اسلامی مزاحمت کی بنیاد رکھی ہے اس کا بنیادی مقصد حقیقی انسانی و قومی حقوق نیز پوری عالم بشریت کے حقوق کے لیے مخلصانہ اور سچی جدوجہد انجام دینا ہے۔ تحریر: ہادی محمدی
دوسری عالمی جنگ کے بعد جتنے بھی بین الاقوامی قوانین تشکیل پائے اور ان کے نتیجے میں جو بین الاقوامی تنظیمیں اور ادارے معرض وجود میں آئے، ان سب کا مقصد عالمی سطح پر پیدا ہونے والی نئی فضا میں طاقت کے حصول اور سیاسی تسلط اور اثرورسوخ بڑھانے میں جاری مقابلہ بازی کو خاص اصول و ضوابط کی بنیاد پر کنٹرول کرنا تھا۔ اس طرح نیو ورلڈ آرڈر کی بنیاد بھی درحقیقت انہی اصول اور ضوابط کی پابندی پر استوار تھی۔ لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ ورلڈ آرڈر کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین اور عالمی ادارے بھی اپنی افادیت کھوتے جا رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ مغربی طاقتوں کی جانب سے ان قوانین اور اداروں سے بالائے طاق ہو کر فیصلے اور اقدامات انجام دینا ہے۔ اس رویے نے موجودہ ورلڈ آرڈر کی بنیادیں متزلزل کر دی ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے موجودہ بین الاقوامی قوانین اور اداروں کو نظرانداز کر دینے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغربی طاقتیں ان قوانین کی پابندی کو اپنے تسلط پسندانہ عزائم اور مفادات کے زیادہ سے زیادہ حصول میں رکاوٹ سمجھتی ہیں جبکہ یہ دو امور اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر ان کے لیے انتہائی درجہ اہمیت کے حامل ہیں۔ لہذا مغربی طاقتیں ایک طرف تو قانون کے احترام پر زور دیتی ہیں جبکہ دوسری طرف اپنے تسلط پسندانہ عزائم اور مفادات کی خاطر ان قوانین کی پابندی کرنا نہیں چاہتیں۔ یہیں سے مغربی طاقتوں کی دوغلی سیاست اور منافقانہ پالیسیاں جنم لیتی ہیں اور مغربی معاشرے واضح تضادات کا شکار ہونے لگے ہیں۔ مغربی حکومتیں حتی اپنی عوام سے بھی منافقانہ رویہ اپناتی ہیں اور اپنی رائے عامہ کو فریب اور دھوکہ دینے کی کوشش کرتی ہیں۔
انسانی حقوق، انسانی اصول و ضوابط اور قانونی برتاو جیسے مفاہیم جنگوں اور عالمی سطح پر رقابت میں بے معنی ہو جاتے ہیں اور حتی وہ ممالک جو خود ان مفاہیم کے بانی ہیں اور ان کے نام پر دوسروں پر اپنی دھونس جماتے ہیں، بہت آسانی سے انہیں پامال کرتے ہیں اور پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ یہ بدنظمی اور لاقانونیت پر مبنی رویہ عالمی سطح پر سب کی سلامتی اور امن کو خطرے سے دوچار کر دیتا ہے اور ان کی جانب سے مناسب ردعمل سامنے آنا ایک فطری عمل ہے۔ انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی رح اور ان کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے دنیا پر حکمفرما استعماری اور ظالمانہ نظام کی گہری شناخت کے بعد جس اسلامی مزاحمت کی بنیاد رکھی ہے اس کا بنیادی مقصد حقیقی انسانی و قومی حقوق نیز پوری عالم بشریت کے حقوق کے لیے مخلصانہ اور سچی جدوجہد انجام دینا ہے۔
یہ اسلامی مزاحمت مغربی اور صیہونی جرائم پیشہ مافیا کے خلاف جدوجہد پر مشتمل ہے اور اب تک اسے اسلامی دنیا اور عالمی سطح پر عظیم کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں۔ مغرب کی شیطانی طاقتوں کی نظر میں اگر ان کی مطلوبہ عالمگیریت انجام پا جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں پوری دنیا پر ان کا تسلط قائم ہو جائے گا اور وہ دنیا بھر میں جہاں بھی چاہیں قدرتی وسائل کی لوٹ مار کر سکیں گے۔ مغربی طاقتوں کی جانب سے گلوبلائزیشن کا واحد مقصد ان کے استعماری تسلط کا مقدمہ فراہم کرنا ہے۔ اسلامی مزاحمت درحقیقت ان ظالمانہ اور تسلط پسندانہ عزائم کی مخالفت پر مبنی ہے۔ آج نہ صرف دنیا کے اکثر ممالک اس تسلط پسندی کے خلاف ردعمل ظاہر کر رہے ہیں بلکہ یورپ اور امریکہ کے سماجی اور علمی حلقوں میں بھی مزاحمت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
یورپ اور امریکہ کے سماجی اور علمی حلقے نہ صرف مغربی تہذیب کی بنیادیں متزلزل ہو جانے کا احساس کر رہے ہیں بلکہ ان کی نفسیاتی، سماجی اور فکری سلامتی بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ اس مزاحمت کی بنیاد صیہونی جرائم پیشہ مافیا اور مغربی لٹیری حکومتوں کی حقیقت سے آگاہی اور ان کے خلاف احساس ذمہ داری پر استوار ہے۔ اس لحاظ سے یورپ اور امریکہ میں پیدا ہونے والی مزاحمتی تحریک بہت حد تک اسلامی مزاحمت سے ملتی جلتی ہے۔ وہ اسلامی مزاحمت جس میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد نئی روح پھونکی گئی ہے۔ حتی عالمی سطح پر جو نئے اتحاد ابھر کر سامنے آ رہے ہیں ان کی اکثریت بھی مغربی استعماری طاقتوں کے تسلط پسندانہ عزائم اور پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کی غرض سے آپس میں متحد ہو رہی ہے۔ دوسری طرف مغربی استعماری طاقتوں کے درمیان بھی پھوٹ پڑ چکی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی حاکمیت اور مفادات کو پہلی ترجیح دے رکھی ہے اور حتی اپنے اتحادی اور دوست ممالک کو بھی ان کی بھینٹ چڑھانے میں مصروف ہے۔ اگرچہ امریکہ اور مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم جیسے پاگل کتے کے بل بوتے پر خطے کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار جاری رکھی ہوئی ہے اور قوموں پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے لیکن آج یہ رژیم بذات خود شدید بحرانوں کا شکار ہو چکی ہے اور اس کا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے۔ اس رژیم کے مجرمانہ اقدامات اور ظلم و ستم کے نتیجے میں اس کا اپنا وجود ہی کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اسلامی مزاحمت پر مبنی سوچ اور ثقافت نے نہ صرف اسلامی سرزمینوں کی آزادی کی امید جگا دی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی استعماری ورلڈ آرڈر کے خاتمے کا آغاز کر دیا ہے۔ غزہ، لبنان اور یمن میں اسلامی مزاحمت کے معجزانہ نتائج ظاہر ہوئے ہیں جن کی بدولت دنیا پر ظالمانہ نظام کے خاتمے کی امید پیدا ہو گئی ہے
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مغربی طاقتوں کی اسلامی مزاحمت انقلاب اسلامی بین الاقوامی عالمی سطح پر کی جانب سے ورلڈ آرڈر اور عالمی کی بنیادی اور ان کے کی بنیاد رہے ہیں دنیا پر ہیں اور کے بانی پیدا ہو کے بعد ہے اور
پڑھیں:
فرانس؛ اسرائیل کیخلاف لبنانی مزاحمت کے ہیرو ابراہیم عبداللہ 40 سال بعد قید سے رہا
لبنان کے بائیں بازو اور حزب اللہ سمیت تمام طبقات میں یکساں مقبول مزاحمتی ہیرو جارجس ابراہیم عبد اللہ 40 سال بعد فرانس سے وطن واپس پہنچ گئے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جارجس ابراہیم عبد اللہ کو فرانس کی جیل سے اس شرط پر رہائی ملی تھی کہ وہ فوری طور پر اپنے وطن لبنان چلے جائیں گے۔
جارجس ابراہیم عبد اللہ کو پیرس کی اپیل عدالت نے 17 جولائی کو رہا کرنے کی منظوری دی تھی۔ ان کی رہائی یورپ کی جدید تاریخ کی سب سے طویل سیاسی قید کی داستان کا اختتام ہے۔
جارجس عبد اللہ کو 1987 سے امریکی فوجی اتاشی چارلس رابرٹ رے اور اسرائیلی سفارتکار یاکوف بارسمانتوف کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔
اگرچہ انہوں نے کبھی اس قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف نہیں کیا تھا لیکن وہ اس لبنانی گروپ کے بانیوں میں شامل تھے جو فلسطینی اور عرب اتحاد کے حق میں تھا۔
اس لبنانی گروپ کا مقصد لبنان سے غیر ملکی فوجوں بالخصوص اسرائیل کو نکالنے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لانا تھا۔
ان کی رہائی کے لیے کئی بار عدالتوں نے سفارش کی مگر بالخصوص امریکا اور اسرائیل کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا تھا۔
ان کی سزا کی کم از کم مدت 1999 میں مکمل ہوچکی تھی مگر متعدد بار کی درخواستوں کے باوجود انھیں رہا نہیں کیا گیا تھا۔
74 سالہ عبد اللہ اب اپنے شمالی لبنان کے گاؤں قوبایات واپس آئے ہیں جہاں انہیں لبنانی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔
ان کے حامی ان کی رہائی کو انصاف کا دیرینہ اقدام قرار دے رہے ہیں اور ان کی وطن واپسی کو ایک تاریخی لمحہ سمجھا جا رہا ہے۔
لبنانی کمیونسٹ پارٹی اور حزب اللہ نے عبد اللہ کو مزاحمت کا ہیرو قرار دیا ہے جبکہ بعض دیگر سیاسی جماعتوں نے اس موقع پر خاموشی اختیار کی ہے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق عبد اللہ کی فلسطینی اور سیکولر شناخت نے انہیں لبنان کی مسیحی سیاسی جماعتوں سے الگ کر دیا ہے۔
لبنان میں عام طور پر نوجوان نسل ان کے بارے میں زیادہ واقف نہیں ہے کیونکہ آج کے ملک کو معاشی اور سیاسی بحرانوں اور ہجرت کا سامنا ہے۔
تاہم جارجس ابراہیم عبد اللہ کی تصاویر اور یادیں سوشل میڈیا پر دوبارہ گردش کر رہی ہیں، اور وہ کچھ حلقوں میں اپنی اصول پسندی کی وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں۔
ان کی وطن واپسی کے موقع پر کئی عوامی پروگرام منعقد کیے جائیں گے جن میں سیاسی رہنما، اہل خانہ، انسانی حقوق کے کارکن اور سرگرم کارکن شامل ہوں گے۔