Islam Times:
2025-06-12@21:22:34 GMT

مزاحمتی سوچ اور ورلڈ آرڈر کا خاتمہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT

مزاحمتی سوچ اور ورلڈ آرڈر کا خاتمہ

اسلام ٹائمز: انسانی حقوق، انسانی اصول و ضوابط اور قانونی برتاو جیسے مفاہیم جنگوں اور عالمی سطح پر رقابت میں بے معنی ہو جاتے ہیں اور حتی وہ ممالک جو خود ان مفاہیم کے بانی ہیں اور ان کے نام پر دوسروں پر اپنی دھونس جماتے ہیں، بہت آسانی سے انہیں پامال کرتے ہیں اور پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ یہ بدنظمی اور لاقانونیت پر مبنی رویہ عالمی سطح پر سب کی سلامتی اور امن کو خطرے سے دوچار کر دیتا ہے اور ان کی جانب سے مناسب ردعمل سامنے آنا ایک فطری عمل ہے۔ انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی رح اور ان کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے دنیا پر حکمفرما استعماری اور ظالمانہ نظام کی گہری شناخت کے بعد جس اسلامی مزاحمت کی بنیاد رکھی ہے اس کا بنیادی مقصد حقیقی انسانی و قومی حقوق نیز پوری عالم بشریت کے حقوق کے لیے مخلصانہ اور سچی جدوجہد انجام دینا ہے۔ تحریر: ہادی محمدی
 
دوسری عالمی جنگ کے بعد جتنے بھی بین الاقوامی قوانین تشکیل پائے اور ان کے نتیجے میں جو بین الاقوامی تنظیمیں اور ادارے معرض وجود میں آئے، ان سب کا مقصد عالمی سطح پر پیدا ہونے والی نئی فضا میں طاقت کے حصول اور سیاسی تسلط اور اثرورسوخ بڑھانے میں جاری مقابلہ بازی کو خاص اصول و ضوابط کی بنیاد پر کنٹرول کرنا تھا۔ اس طرح نیو ورلڈ آرڈر کی بنیاد بھی درحقیقت انہی اصول اور ضوابط کی پابندی پر استوار تھی۔ لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ ورلڈ آرڈر کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین اور عالمی ادارے بھی اپنی افادیت کھوتے جا رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ مغربی طاقتوں کی جانب سے ان قوانین اور اداروں سے بالائے طاق ہو کر فیصلے اور اقدامات انجام دینا ہے۔ اس رویے نے موجودہ ورلڈ آرڈر کی بنیادیں متزلزل کر دی ہیں۔
 
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے موجودہ بین الاقوامی قوانین اور اداروں کو نظرانداز کر دینے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغربی طاقتیں ان قوانین کی پابندی کو اپنے تسلط پسندانہ عزائم اور مفادات کے زیادہ سے زیادہ حصول میں رکاوٹ سمجھتی ہیں جبکہ یہ دو امور اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر ان کے لیے انتہائی درجہ اہمیت کے حامل ہیں۔ لہذا مغربی طاقتیں ایک طرف تو قانون کے احترام پر زور دیتی ہیں جبکہ دوسری طرف اپنے تسلط پسندانہ عزائم اور مفادات کی خاطر ان قوانین کی پابندی کرنا نہیں چاہتیں۔ یہیں سے مغربی طاقتوں کی دوغلی سیاست اور منافقانہ پالیسیاں جنم لیتی ہیں اور مغربی معاشرے واضح تضادات کا شکار ہونے لگے ہیں۔ مغربی حکومتیں حتی اپنی عوام سے بھی منافقانہ رویہ اپناتی ہیں اور اپنی رائے عامہ کو فریب اور دھوکہ دینے کی کوشش کرتی ہیں۔
 
انسانی حقوق، انسانی اصول و ضوابط اور قانونی برتاو جیسے مفاہیم جنگوں اور عالمی سطح پر رقابت میں بے معنی ہو جاتے ہیں اور حتی وہ ممالک جو خود ان مفاہیم کے بانی ہیں اور ان کے نام پر دوسروں پر اپنی دھونس جماتے ہیں، بہت آسانی سے انہیں پامال کرتے ہیں اور پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ یہ بدنظمی اور لاقانونیت پر مبنی رویہ عالمی سطح پر سب کی سلامتی اور امن کو خطرے سے دوچار کر دیتا ہے اور ان کی جانب سے مناسب ردعمل سامنے آنا ایک فطری عمل ہے۔ انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی رح اور ان کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے دنیا پر حکمفرما استعماری اور ظالمانہ نظام کی گہری شناخت کے بعد جس اسلامی مزاحمت کی بنیاد رکھی ہے اس کا بنیادی مقصد حقیقی انسانی و قومی حقوق نیز پوری عالم بشریت کے حقوق کے لیے مخلصانہ اور سچی جدوجہد انجام دینا ہے۔
 
یہ اسلامی مزاحمت مغربی اور صیہونی جرائم پیشہ مافیا کے خلاف جدوجہد پر مشتمل ہے اور اب تک اسے اسلامی دنیا اور عالمی سطح پر عظیم کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں۔ مغرب کی شیطانی طاقتوں کی نظر میں اگر ان کی مطلوبہ عالمگیریت انجام پا جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں پوری دنیا پر ان کا تسلط قائم ہو جائے گا اور وہ دنیا بھر میں جہاں بھی چاہیں قدرتی وسائل کی لوٹ مار کر سکیں گے۔ مغربی طاقتوں کی جانب سے گلوبلائزیشن کا واحد مقصد ان کے استعماری تسلط کا مقدمہ فراہم کرنا ہے۔ اسلامی مزاحمت درحقیقت ان ظالمانہ اور تسلط پسندانہ عزائم کی مخالفت پر مبنی ہے۔ آج نہ صرف دنیا کے اکثر ممالک اس تسلط پسندی کے خلاف ردعمل ظاہر کر رہے ہیں بلکہ یورپ اور امریکہ کے سماجی اور علمی حلقوں میں بھی مزاحمت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
 
یورپ اور امریکہ کے سماجی اور علمی حلقے نہ صرف مغربی تہذیب کی بنیادیں متزلزل ہو جانے کا احساس کر رہے ہیں بلکہ ان کی نفسیاتی، سماجی اور فکری سلامتی بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ اس مزاحمت کی بنیاد صیہونی جرائم پیشہ مافیا اور مغربی لٹیری حکومتوں کی حقیقت سے آگاہی اور ان کے خلاف احساس ذمہ داری پر استوار ہے۔ اس لحاظ سے یورپ اور امریکہ میں پیدا ہونے والی مزاحمتی تحریک بہت حد تک اسلامی مزاحمت سے ملتی جلتی ہے۔ وہ اسلامی مزاحمت جس میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد نئی روح پھونکی گئی ہے۔ حتی عالمی سطح پر جو نئے اتحاد ابھر کر سامنے آ رہے ہیں ان کی اکثریت بھی مغربی استعماری طاقتوں کے تسلط پسندانہ عزائم اور پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کی غرض سے آپس میں متحد ہو رہی ہے۔ دوسری طرف مغربی استعماری طاقتوں کے درمیان بھی پھوٹ پڑ چکی ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی حاکمیت اور مفادات کو پہلی ترجیح دے رکھی ہے اور حتی اپنے اتحادی اور دوست ممالک کو بھی ان کی بھینٹ چڑھانے میں مصروف ہے۔ اگرچہ امریکہ اور مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم جیسے پاگل کتے کے بل بوتے پر خطے کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار جاری رکھی ہوئی ہے اور قوموں پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے لیکن آج یہ رژیم بذات خود شدید بحرانوں کا شکار ہو چکی ہے اور اس کا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے۔ اس رژیم کے مجرمانہ اقدامات اور ظلم و ستم کے نتیجے میں اس کا اپنا وجود ہی کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اسلامی مزاحمت پر مبنی سوچ اور ثقافت نے نہ صرف اسلامی سرزمینوں کی آزادی کی امید جگا دی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی استعماری ورلڈ آرڈر کے خاتمے کا آغاز کر دیا ہے۔ غزہ، لبنان اور یمن میں اسلامی مزاحمت کے معجزانہ نتائج ظاہر ہوئے ہیں جن کی بدولت دنیا پر ظالمانہ نظام کے خاتمے کی امید پیدا ہو گئی ہے

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مغربی طاقتوں کی اسلامی مزاحمت انقلاب اسلامی بین الاقوامی عالمی سطح پر کی جانب سے ورلڈ آرڈر اور عالمی کی بنیادی اور ان کے کی بنیاد رہے ہیں دنیا پر ہیں اور کے بانی پیدا ہو کے بعد ہے اور

پڑھیں:

کوششوں کے باوجود دنیا سے بچہ مزدوری کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا، رپورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 جون 2025ء) بارہ سالہ ٹیناساؤ مشرقی مڈغاسکر کی ایک کان میں دن بھر رینگ کر دو کلو گرام چمک دار معدن مائیکا جمع کرتی ہیں۔ وہ ٹانگوں سے معذور ہونے کے باعث چل پھر نہیں سکتیں۔ مائیکا سے انہیں جو اجرت ملتی ہے اس سے ان کا گھرانہ روزانہ کھانے کا بندوبست کرتا ہے۔

مڈغاسکر میں ٹیناساؤ جیسے 10 ہزار بچے مائیکا کی بے قاعدہ صنعت میں کام کرتے ہیں۔

یہ معدن رنگ و روغن، کاروں کے پرزوں اور جسمانی آرائش کے کام میں استعمال ہوتی ہے۔ Tweet URL

ان میں بہت سے بچے اپنے والدین اور دادا دادیوں کے ساتھ خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

مائیکا جمع کرتے ہوئے گرد کے نقصان دہ ذرات سانس کے ذریعے ان کے منہ میں چلے جاتے ہیں جس سے صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ان میں کئی بچے ایسے ہیں جو پہلے تعلیم حاصل کرتے تھے لیکن جب انہیں اس کام پر مجبور ہونا پڑا تو ان کی پڑھائی چھوٹ گئی۔

ٹیناساؤ کے دادا بھی اسی کان میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کام اب ان کے لیے آسان نہیں ہے لیکن اگر وہ اسے ترک کر دیں تو کھانا نہیں کھا پائیں گے۔

یہاں بقا کے لیے مردوخواتین اور بچوں سمیت سبھی کو کام کرنا پڑتا ہے۔

2015 میں اقوام متحدہ نے 2025 تک دنیا بھر سے بچہ مزدوری ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) اور عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے مطابق، اس ہدف کے حصول کی جانب پیش رفت بہت سست ہے۔

دونوں اداروں کی ایک مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 138 ملین بچے اب بھی محنت مزدوری کرتے ہیں۔

تاہم، یہ تعداد 2020 کے مقابلے میں 12 ملین کم ہے۔

'آئی ایل او' کے ڈائریکٹر جنرل گلبرٹ ہونگ بو نے کہا ہے کہ اس رپورٹ کے نتائج امید افزا ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیش رفت ممکن ہے لیکن اس کے لیے یہ حقیقت یاد رکھنا ہو گی کہ ابھی بہت سا کام باقی ہے۔

مزدور بچوں کا خطرناک کام

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ 2000 کے بعد مزدور بچوں کی تعداد میں 100 ملین سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے پاس اس مسئلے پر قابو پانے کا خاکہ موجود ہے تاہم اس پر مزید کام ہونا چاہیے۔ بہت سے بچے کارخانوں، کھیتوں اور کانوں میں مشقت کرتے ہیں اور ان میں بیشتر کو اپنی بقا کے لیے خطرناک کام کرنا پڑتا ہے۔

'آئی ایل او' میں بچہ مزدوری کے مسئلے پر کام کرنے والے ماہر بنجمن سمتھ نے یو این نیوز کو بتایا کہ بچوں کا ہر کام بچہ مزدوری نہیں ہوتا بلکہ وہی کام اس ذیل میں آتا ہے جو بچوں کو ان کے بچپن سے محروم کر دے اور جس سے ان کی صحت و ترقی کو خطرہ ہو۔

دنیا بھر میں 54 ملین بچوں کو کان کنی سمیت خطرناک کام کرنا پڑتے ہیں۔ افریقی ملک بینن سے تعلق رکھنے والی 13 سالہ ہونورائن بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ تعمیراتی مقصد کے لیے کھودے گئے ایک وسیع گڑھے سے بجری نکالنے کا کام کرتی ہیں اور انہیں فی ٹوکری کے حساب سے اجرت ملتی ہے۔ وہ ہیئر ڈریسر بننا چاہتی ہیں اور اس مقصد کو لے کر رقم جمع کرتی رہتی ہیں۔

Shoaib Tariq بہت سے بچے اپنے والدین اور دادا دادیوں کے ساتھ خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔

نسل در نسل مزدوری

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچہ مزدوری نسل در نسل چلتی ہے۔ ایسے بچوں کو عام طور پر تعلیم تک رسائی میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے جس کے باعث وہ مستقبل کے مواقع سے محروم ہو جاتے ہیں اور اس طرح غربت کے دائمی چکر میں پھنسے رہتے ہیں۔

'آئی ایل او' کے ماہر اور رپورٹ کے مرکزی مصںف فیڈریکو بلانکو نے کہا ہے کہ اس مسئلے کو محض شماریاتی طور پر دیکھنا درست نہیں ہو گا۔

اس سے متعلقہ ہر ہندسے کے پیچھے ایک بچہ ہے جوتعلیم، تحفظ اور باوقار مستقبل کا حق رکھتا ہے۔

بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں رہنے والی 13 سالہ نور کو ان کے والدین نے سکول سے اٹھا لیا تھا تاکہ وہ کوئی کام کر کے گھر چلانے میں مدد دیں۔ کیمپ کے قریب یونیسف کے ایک مرکز پر تعینات اہلکار نے انہیں کام کرتے دیکھا تو ان کے والدین سے بات کر کے انہیں دوبارہ سکول میں داخل کروایا۔

نور کا کہنا ہے کہ کبھی وہ استاد بننے کا خواب دیکھتی تھیں۔ تاہم جب انہیں سکول سے اٹھایا گیا تو انہوں نے سوچا کہ شاید اب وہ کبھی اپنا یہ خواب پورا نہیں کر سکیں گی۔ لیکن اب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے پڑھ لکھ کر استاد بننا ممکن ہے۔

کلی طریقہ کار کی ضرورت

یونیسف اور 'آئی ایل او'نے اس مسئلے کو تعلیمی، معاشی اور سماجی تناظر میں حل کرنے کے لیے حکومتوں کے تمام شعبوں کی جانب سے مربوط پالیسی اپنانے پر زور دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچہ مزدوری کا خاتمہ کرنے کی کوششوں میں ان حالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جن کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو پڑھنے لکھنے کے بجائے کام پر بھیجتے ہیں۔

اس معاملے میں والدین کے لیے اجتماعی سودے بازی اور محفوظ کام کے حقوق بھی بہت اہم ہیں۔ سمتھ کا کہنا ہےکہ اگر بڑوں کو کام کے اچھے حالات میسر ہوں گے تو غربت میں کمی آئے گی جو لامحالہ بچہ مزدوری میں کمی پر منتج ہو گی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر کے خطوں میں مزدور بچوں کی تعداد میں کسی نہ کسی حد تک کمی ضرور آئی ہے۔ اس وقت ذیلی صحارا افریقہ کے ممالک میں اس مسئلے کی شدت دیگر جگہوں کے مقابلے میں زیادہ ہے جہاں دنیا کے دو تہائی بچہ مزدور پائے جاتے ہیں۔

© UNICEF/Shehzad Noorani دنیا بھر میں 54 ملین بچوں کو کان کنی سمیت خطرناک کام کرنا پڑتے ہیں۔

مشقت نہیں، تعلیم

کیتھریل رسل نے کہا ہے کہ امدادی وسائل کی قلت کے باعث بچہ مزدوری کے خاتمے کے لیے کڑی محنت سے حاصل ہونے والی کامیابیاں ضائع ہونےکا خدشہ ہے۔ سبھی کو یقینی بنانا ہو گا کہ بچے کام کی جگہوں کے بجائے کمرہ ہائے جماعت اور کھیل کے میدانوں میں ہوں۔

ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے 10 سالہ ایڈوارا تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن انہیں مزدوری کرنا پڑتی ہے۔

چند سال قبل وہ پڑھائی بھی کرتے تھے لیکن مزدوری کی وجہ سے انہیں سکول سے چھٹیاں کرنا پڑتی تھیں۔ ایک روز ان کے استاد نے انہیں سکول سے نکال دیا۔ اب وہ سونے کی ایک کان میں کام کرتے ہیں جہاں انہیں روزانہ 35 ڈالر تک آمدنی ہوتی ہے۔ تاہم حصول تعلیم کے لیے ان کا عزم ماند نہیں پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک روز وہ سکول جائیں گے اور کچھ بن کر دکھائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • کوششوں کے باوجود دنیا سے بچہ مزدوری کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا، رپورٹ
  • سینیگال نے تاریخ رقم کر دی، انگلینڈ کے 22 میچز پر محیط ناقابل شکست سلسلے کا خاتمہ
  • جاپان میں موسلادھار بارش کے دوران تودے گرنے کا خدشہ
  • نوبیاہتا جوڑے نے ٹرین تلے لیٹ کر زندگی کا خاتمہ کرلیا
  • چیف جسٹس یخیی آفریدی کی مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات
  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات
  • کراچی: ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ، تین بچوں کا باپ جان کی بازی ہار گیا
  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات
  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی مکہ میں مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات