صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی خواہش کیا کسی بڑی پیشرفت کا پیش خیمہ ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
گزشتہ روز امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ٹیمی بروس نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی کوشش کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے کو تیار ہیں، امریکا کا عندیہ
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں ان کے ذہن میں کیا ہے اس پر بات تو نہیں کر سکتے لیکن ان کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات نسلوں پر محیط مسائل کو ختم کر رہے ہیں۔ وہ کئی ایسے تنازعات کو مذاکرات کی میز پر لے کر آئے ہیں جن کے بارے میں کئی لوگ سوچتے تھے کہ یہ ناممکن ہے۔ میڈیا بریفنگ میں ٹیمی بروس نے پاکستان اور بھارت کے سفارتی وفود کی امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ عہدیداران سے ملاقاتوں پر بھی بات کی۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا یہ بیان اور صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کا حل کیے جانے سے متعلق امریکی صدر کا بار بار اعادہ کرنا جہاں اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے وہیں بھارت کے اس مؤقف کی نفی بھی ہوتی ہے جس میں وہ کشمیر پر ہر قسم کی ثالثی سے انکار کرتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بھاری بھر کم بھارتی سفارتی وفد کے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے بعد بھی امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس طرح کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کے سفارتی وفد کو مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے بیان سے ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ دنیا اب یہ تسلیم کرنا شروع ہو گئی ہے کہ برصغیر کا امن مسئلہ کشمیر سے وابستہ ہے اور اس کو حل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ وہیں عالمی سطح پر یہ اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ کشمیر کا مسئلہ 2 جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھا کر عالمی امن کے لیے کتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
سفارتی ماہرین کی رائے میں صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کا بار بار اعادہ پاکستان کی سفارتی کامیابی اور سفارتی مؤقف کی جیت ہے۔
مسئلہ کشمیر کی اہمیت کا اعتراف حوصلہ افزا ہے، ایمبیسیڈر عبدالباسط
پاکستان کے سابق سینیئر سفارتکار ایمبیسیڈر عبدالباسط نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر کو بطور بنیادی مسئلہ یا تنازعات کی جڑ تسلیم کیا جانا ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ مسئلہ کشمیر سے ہٹ کر باقی تمام مسائل فروعی نوعیت کے ہیں۔ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ بھارت امریکا کی اس پیشکش کو دانشمندانہ طریقے سے قبول کرے کیونکہ جنوبی ایشیا کے پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر، منصفانہ بنیادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے۔
امریکی صدر کی جانب سے مسئلہ کشمیر کا اعادہ اس مسئلے بارے ان کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے، ایمبیسیڈر مسعود خان
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب ایمبیسیڈر مسعود خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری نظر میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایسا بیان بہت اہمیت کا حامل ہے، یہ مسئلہ کشمیر کو لے کر امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے اور اس عزم کو بھی کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرانا چاہتے ہیں اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے عہد صدارت کے دوران اس مسئلے کے بارے میں پیشرفت کریں گے۔
مزید پڑھیے: خطے میں امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے، وزیراعظم شہباز شریف
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مختلف مسائل کے حل کے بارے میں غیر روایتی نقطہ نظر رکھتے ہیں اور ایسی ملاقاتیں کرائی ہیں جو ناممکن نظر آتی تھیں اور ایسے مسائل پر بات چیت بھی ہوئی جو لاینحل نظر آتے تھے۔
مثال کے طور پر ٹیرف کے مسئلے پر چین سے مذاکرات، یوکرین مسئلے کے حل کے لیے غیر روایتی طریقہ کار اور حالیہ پاک بھارت جنگ بندی کے معاملے پر انہوں نے مروّجہ طریقہ کار سے ذرا مختلف طریقے سے بات چیت کی۔
10 مئی کو جب صدر ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ بندی کا اعلان کیا تو اُنہوں نے اس وقت 3 باتیں کیں۔ ایک انہوں نے پاکستان اور بھارت کو مبارکباد دی، دوسرے اُنہوں نے دونوں ملکوں کے ساتھ تجارت بڑھانے کی بات چیت کی اور تیسرے نمبر پر انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کی۔ امریکی صدر کے اس بیان کے بعد قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ آیا صدر ٹرمپ اپنے اس وعدے پر قائم رہ سکتے ہیں یا نہیں۔ لیکن اُن کی طرف سے مسلسل یہ بیانات آنا اور پھر گزشتہ روز کا بیان ایک اہم پیش رفت ہے جو امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
کشمیر کا پاکستان اور بھارت کے مابین مرکزی تنازع کے طور پر تسلیم ہونا ایک بڑی پیش رفت ہے، ایمبیسیڈر مسعود خالد
پاکستان کے سابق سینیئر سفارتکار مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ فوجی کشیدگی کے دوران جب دونوں ملکوں کے بیچ امریکی وساطت سے بات چیت کا آغاز ہوا تو پاکستان کا مؤقف بھی واشنگٹن پہنچا اور امریکی صدر کی جانب سے بار بار مسئلہ کشمیر کے حل کا اعادہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ہماری سفارتکارانہ کوششیں شامل ہیں جس کی وجہ امریکہ کو بھی یہ احساس ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کا مسئلہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں یہ ہماری سفارتی جیت ہے وہیں یہ ہماری سفارتکاری کا امتحان بھی ہے کہ ہم اپنے مؤقف کو کتنی مضبوطی کے ساتھ بیان کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔پاک بھارت جنگ کے دوران اور بعد میں سفارتکاری تو دونوں ملکوں کی جانب سے جاری ہے لیکن کون ملک اس وقت اس سفارتی دباؤ کو برقرار رکھ سکتا ہے یہ اصل چیز ہے۔
ایمبیسیڈر مسعود خالد نے کہا کہ 10 مئی کو جنگ بندی کے بعد سے امریکی صدر کئی بار یہ دہرا چُکے ہیں کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لئے تیار ہیں جو ایک خوش آئند پیش رفت ہے اور دنیا کی جانب سے کشمیر کو ایک مرکزی تنازعے کے طور پر تسلیم کیا جانا بھی ایک بڑی پیشرفت ہے۔ اس واقعے کے بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر سے عالمی طور پر ایک بڑے مسئلے کے طور پر اجاگر ہوا ہے۔ لیکن بھارت کی جانب سے مسلسل ایسے جارحانہ بیانات آ رہے ہیں جو صورتحال کو مزید کشیدہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی تمام کوششوں کو مسترد کر دیا جاتا ہے تو یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا اس مسئلے پر پیش رفت ہو پائے گی یا نہیں اور بعض چیزیں جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ صدر ٹرمپ نے بیان دیا کہ وہ یوکرین کے مسئلے کو 24 گھنٹے میں حل کر سکتے ہیں لیکن ابھی تک وہاں کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان نے بھارت کے 6 جہاز گرائے، جب بھی بات ہوگی مسئلہ کشمیر پر ہوگی، ترجمان دفتر خارجہ
اس سب کے باوجود صدر ٹرمپ کی جانب سے بار بار مسئلہ کشمیر کا حل کیا جانا اس مسئلے کی حساسیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت پاک بھارت کشیدگی پاکستان ٹرمپ اور مسئلہ کشمیر صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت پاک بھارت کشیدگی پاکستان ٹرمپ اور مسئلہ کشمیر صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان کی جانب سے مسئلہ کشمیر صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل ایمبیسیڈر مسعود پاکستان کے سابق مسئلہ کشمیر کا ظاہر کرتا ہے دونوں ملکوں ہوئے کہا کہ امریکی صدر پاک بھارت کے طور پر اس مسئلے کشمیر کو انہوں نے پیش رفت بات چیت کے لیے کے بعد رفت ہے
پڑھیں:
پاک-بھارت جنگ روکنے کا 57ویں مرتبہ تذکرہ، ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ کسی بھی تعاون سے متعلق امکان کو مسترد کردیا
کانگریس نے پیر کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جس میں ٹرمپ نے ایک بار پھر یہ دعویٰ دہرایا کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان تصادم کو تجارت کے ذریعے روکا تھا۔
کانگریس کا کہنا ہے کہ جس تجارتی معاہدے کی بات امریکا کے ساتھ کی جا رہی تھی، وہ اب ایک ’آزمائش‘ بن چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’مودی ٹرمپ اور امریکا سے خوفزدہ ہیں ‘، راہول گاندھی کی بھارتی وزیرِاعظم پر تنقید
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر کانگریس کے جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ بھارت نومبر 2025 میں کواڈ سمٹ کی میزبانی کرے گا، جو اب ممکن نہیں۔
’ایک وقت یہ بھی بتایا گیا تھا کہ بھارت ان اولین ممالک میں ہوگا جو امریکا کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرے گا، لیکن وہ مبینہ معاہدہ اب ایک آزمائش بن چکا ہے۔‘
جے رام رمیش کے مطابق امریکا کو ہونے والی برآمدات میں کمی آرہی ہے، جس سے یہاں روزگار کے مواقع متاثر ہو رہے ہیں۔
رمیش نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ نے 57ویں بار یہ وضاحت دہرائی ہے کہ ’آپریشن سندور‘ کو کیوں اور کیسے ’اچانک اور غیر متوقع طور پر‘ روکا گیا، جس کی پہلی اطلاع نئی دہلی کے بجائے واشنگٹن سے آئی تھی۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ-مودی 35 منٹ کی کال جس نے بھارت امریکا تعلقات میں دراڑ ڈال دی
انہوں نے صدر ٹرمپ کی ایک ویڈیو بھی شیئر کی، جس میں سابق امریکی صدر نے پھر یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تصادم کو تجارت کے ذریعے روکا۔
صدر ٹرمپ نے ایک امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ٹیرف اور تجارت نہ ہوتی، تو وہ اس نوعیت کے معاہدے نہیں کر سکتے تھے۔
ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ امریکی کاروبار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ ایٹمی جنگ کے دہانے پر تھا۔
’پاکستان کے وزیراعظم نے حال ہی میں کہا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ مداخلت نہ کرتے، تو آج لاکھوں لوگ مر چکے ہوتے۔‘
مزید پڑھیں: فیلڈ مارشل عاصم منیر زبردست فائٹرہیں، صدر ٹرمپ کا سیول میں خطاب
ٹرمپ نے مزید کہا کہ جہاز مار گرائے جا رہے تھے اور وہ ایک بہت خوفناک جنگ بننے جا رہی تھی۔
’میں نے دونوں ممالک کے رہنماؤں سے کہا کہ اگر تم لوگوں نے جلد کوئی معاہدہ نہ کیا، تو تم امریکہ کے ساتھ کاروبار نہیں کر پاؤ گے۔‘
مزید پڑھیں:
صدر ٹرمپ کے مطابق دونوں امریکا کے ساتھ بڑا کاروبار کرتے ہیں، دونوں عظیم رہنما تھے، انہوں نے معاہدہ کر لیا اور جنگ رک گئی یہ ایک ایٹمی جنگ بن سکتی تھی۔
کانگریس نے وزیرِاعظم نریندر مودی پر بھی طنز کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ بار بار یہ دعویٰ دہرا رہے ہیں کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کو روکا، مگر مودی اب تک خاموش ہیں۔
مزید پڑھیں:
اپوزیشن پارٹی نے گزشتہ ہفتے وزیر اعظم مودی کے ایک پرانے بیان کے حوالے سے کہا کہ خودساختہ رہنما اب اب پوری طرح سمٹ چکے ہیں اور ان کی ’56 انچ کی چھاتی‘ اب بھی خاموش ہے۔
واضح رہے کہ ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی رہنماؤں سے خطاب کے دوران صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کو روکا۔
دوسری جانب بھارت کا مؤقف ہے کہ پاکستان کے ساتھ دشمنی کے خاتمے اور جنگ بندی کا فیصلہ دونوں ممالک کی فوجوں کے ڈائریکٹر جنرلز آف ملٹری آپریشنز کے درمیان براہِ راست بات چیت کے نتیجے میں کیا گیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صدر ٹرمپ