ایشیاکپ 2025؛ بھارت کی جگہ ایونٹ کا میزبان کون ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
پاک بھارت کشیدہ صورتحال کے باعث ایشیاکپ 2025 کی میزبانی بھارت سے چھین لیے جانے کا امکان ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں برس ایشیاکپ کی میزبانی بھارت کو کرنی تھی تاہم آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی میں ہندوستانی ٹیم نہ آنے کے باعث اب پاکستان بھی اپنے تمام میچز نیوٹرل وینیو پر کھیلے گا۔
اہم ایونٹ میں ایشیاکپ کے علاوہ بھارت میں شیڈول ویمن ورلڈکپ 2025 اور مینز ٹی20 ورلڈکپ 2026 بھی شامل ہے۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے باعث ستمبر میں شیڈول ایونٹ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) منتقل ہونے کا امکان ہے۔
توقع ہے کہ ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) متحدہ عرب امارات کو غیر جانبدار مقام کے طور پر حتمی شکل دے گی تاہم ایونٹ کا میزبان بھارت ہی ہوگا۔
آئی سی سی مینز ٹی20 ورلڈکپ 2026 کی تیاریوں کے سلسلے میں ایشیاکپ کا رواں ایڈیشن ٹی20 فارمیٹ پر کھیلا جائے گا، ٹورنامنٹ دو ہفتوں پر محیط ہوگا جس میں 19 میچز شیڈول ہوں گے۔
دوسری جانب توقع کی جارہی ہے کہ ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے سربراہ محسن نقوی باضابطہ طور پر ٹورنامنٹ کے مستقبل سے متعلق جلد اعلان کریں گے۔
قبل ازیں گزشتہ روز خبریں سامنے آئیں تھی کہ ایشیا کپ سے قبل امارات میں پاکستان، افغانستان اور یو اے ای کی ٹیموں کے درمیان سہ ملکی سیریز کھیلے جانے پر بات چیت جاری ہے تاہم منصوبے کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی ہے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
امریکا کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا: بلاول
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی، سابق وزیر خارجہ اور پاکستانی سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر، پانی سمیت تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں. بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں اپنی خارجہ پالیسی سے دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی ختم کرے. امریکا کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا۔لندن میں میڈیا سے گفتگو کے دوران بلال بھٹو زرداری نے کہا کہ پاک-بھارت جنگ کے بعد پاکستان نے آج تک سیز فائر کی پاسداری کی ہے، حملے کے جواز کے لیے بھارت کا پورا بیانیہ جھوت پر مبنی تھا. جنگ کے بعد بھی بھارت جھوٹ پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔برطانیہ کے دورے میں ارکان پارلیمنٹ اور تھنک ٹینکس کے اہم ارکان سے ملاقاتوں کے بعد برسلز میں یورپی یونین کے رہنماؤں سے ملاقات کے لیے روانگی سے قبل لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے میڈیا میں بہت فرق ہے، گودی میڈیا نے جھوٹ پھیلانے کی پالیسی اپنائی، جب کہ پاکستان کے میڈیا نے ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی جس پر میں میڈیا کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان نے بھارتی جارحیت کا جواب مؤثر انداز میں دیا، آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو جنگ کے دوران بہترین حکمت عملی بنانے پر فیلڈ مارشل کا اعزازی عہدہ دیا گیا، جو ان کی خدمات کا اعتراف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل یا منسوخ نہیں کرسکتا، عالمی سطح کے معاہدے کی شرائط سے کوئی بھی ملک روگردانی نہیں کرسکتا. ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ فعال ہے اور اسے کسی طور پر معطل کرنے کا اختیار بھارت کو حاصل نہیں ہے۔کینیڈا، امریکا اور پاکستان میں بھارتی دہشت گردی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں پاکستان کے سفارتی وفد کے سربراہ نے کہا کہ بھارت کہتا کچھ، اور کرتا کچھ اور ہے، جب بھارت پاکستان پر الزام لگا رہا تھا تو دنیا میں کوئی بھی ملک اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا. سب جانتے ہیں کہ بھارت دہشت گرد تنظیموں کو پیسہ دے کر دہشت گردی کرانے میں ملوث ہے، سکھ رہنماؤں کے کینیڈا میں قتل پر کینیڈین وزیر اعظم کا بیان بھارت کے منہ پر طمانچہ ہے۔انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک بھی بھارتی دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں. ہم بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں اپنی خارجہ پالیسی سے دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی ختم کرے. بلوچستان میں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ کی فنڈنگ ختم کرنی چاہیے .تاکہ اس کے دہشت گردی کے خلاف بیانات کو سنجیدہ لیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی پر مسلمانوں کے قتل، ٹارگٹ کرکے لوگوں کو مروانے کے الزامات ہیں، پاکستان کے ساتھ تنازع بڑھانے کے لیے جھوٹے بیانیے کے تحت الزامات لگا کر حملے کرنا بہادری نہیں، بلکہ خطے اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہے. پاکستان نے اس سے قبل بھی ابھی نندن کو گرفتار کرکے چائے پلاکر واپس بھیجا تھا، یہ پاکستان میں دراندازی کا ثبوت ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت خود جانتا ہے کہ پہلگام حملے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، یہ ان کی انٹیلی جنس ناکامی تھی، جسے کور کرنے اور بہار میں الیکشن کے حوالے سے مارجن لینے کے لیے پاکستان پر الزامات لگائے گئے، تاہم پاکستان نے منہ توڑ جواب دے کر خطے میں بھارتی بالادستی کی سازش ناکام بنائی۔سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر اور بارہا یہ کہا ہے کہ خطے میں امن ہونا چاہیے، ہم تو صدر ٹرمپ کے بیانات کو وعدے سمجھتے ہیں. ان کے امن کی کوششوں کے لیے دیے گئے بیانات کو بھارت سبوتاژ کرنا چاہتا ہے. ہم سمجھتے کہ اگر امریکا کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہے. تاکہ خطے کے ممالک قیام امن کے بعد ترقی کرسکیں اور آگے بڑھیں۔انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں بھارت نے کشمیر پر متنازع قانون پاس کرکے اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دیا. تاہم صدر ٹرمپ کے بیان سے مسئلہ کشمیر پھر سے زندہ ہوگیا، ٹرمپ کے بیان سے واضح ہوگیا کہ مسئلہ کشمیر دو ملکوں کے درمیان تنازع ہے، یہ کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں، ہم نے برطانیہ میں تمام جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کی، جن کا کہنا تھا کہ اب مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بات کرنا زیادہ کارآمد ہوگا اور آسانیاں ہوں گی۔بلاول بھٹو نے کہا کہ امریکا کے محکمہ خارجہ کے مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں، صدر ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے حوالے سے جو کردار ادا کیا. اس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں، ہم دنیا پر واضح کرنا چاہتے ہیں اور امید ظاہر کرتے ہیں کہ ٹرمپ پوری کوشش کریں گے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اپنے دیگر تمام دوستوں کی مدد سے مل کر حل کروائیں گے، اس حوالے سے بھارت کی تمام سازشیں ناکام ہوں گی۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے ایک سوال پر کہا کہ برطانیہ کے ارکان پارلیمنٹ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں. وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا پیغام یہ ہے کہ وہ ہر حال میں جنگ چاہتے ہیں، جب کہ پاکستان کا پیغام ہے کہ ہم امن کے خواہاں ہیں، جنگ جیسے خطرناک مرحلے سے نوجوانوں کو نہیں گزارنا چاہتے، بھارت کے بہت سے لوگ ہماری بات سنتے ہیں تو وہ بھی جنگ کی بات چھوڑ کر امن کی بات کرتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وفد کے رکن خرم دستگیر نے کہا کہ بھارت کا دفاعی بجٹ ہم سے کئی گنا زیادہ ہے، ہم نے اپنے وسائل کے مطابق اپنے دفاع کے لیے بجٹ مختص کیا ہے، اس بجٹ کا پاکستان کے دفاع کے لیے بہترین انداز میں استعمال کیا جائے گا۔خرم دستگیر نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ بھارت دہشت گردی کے لیے دوسرے ممالک کی سرزمین بھی استعمال کرتا ہے، ہم نے یہاں بھارت کے وزیراعظم اور اور وزرا کے جنگی جنون میں ڈوبے ہوئے بیانات بھی پیش کیے ہیں. تاہم پاکستان اپنے پانی کے حق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوگا۔پاکستانی وفد کے رکن نے کہا کہ ہم نے برطانیہ کے رہنماؤں پر واضح کیا ہے کہ بھارت کے سندھ طاس معاہدے پر عمل نہ کرنے کی صورت میں جنگ کا خطرہ موجود رہے گا. تاہم ہم بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکا کا وعدہ ہے کہ جنگ کرنے کی صورت میں وہ تجارتی تعلقات نہیں رکھے گا. بھارت یاد رکھے کہ جنگ اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتے. جنگی بیانات سے بھارت کا جنون ان کی معیشت کو بھی نقصان پہنچائے گا۔