غربت میں اضافہ ثابت کرتا ہے بینظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرام ناکام ہو چکے، حافظ نعیم
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
لاہور:امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ غربت میں اضافہ ثابت کرتا ہے بینظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرام ناکام ہو چکے ہیں۔
منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں غربت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور عالمی معیار کے مطابق 11 کروڑ سے زائد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم اور نائب امیر لیاقت بلوچ بھی موجود تھے۔
انہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام غریبوں کی فلاح کے بجائے کرپشن، سیاسی مقاصد اور ووٹ بینک کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان پروگرامز پر خرچ ہونے والے 700 ارب روپے آئی ٹی ایجوکیشن پر لگائے جاتے تو پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوتا۔
حافظ نعیم نے مطالبہ کیا کہ ایک لاکھ 25 ہزار روپے تک تنخواہ لینے والوں پر ٹیکس ختم کیا جائے، کیونکہ 499 ارب روپے کا بوجھ صرف تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیا گیا ہے، جب کہ جاگیردار طبقہ ایک روپیہ بھی ٹیکس نہیں دیتا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ 111 سرکاری محکمے ٹیکس سے مستثنا ہیں، جن میں فوجی فاؤنڈیشن اور ضیا اسپتال جیسے ادارے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی کے بجائے صرف ٹیکس بڑھانے میں مصروف ہے۔ تعلیمی ایمرجنسی کے دعوے کیے جا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ آج بھی 2 کروڑ 92 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گھوسٹ اسکولوں میں کرپشن کا بازار گرم ہے اور اگر تعلیمی شعبے کو ترجیح دی جاتی تو ملک کی حالت مختلف ہوتی۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں مگر تنخواہوں اور مراعات میں 6گنا اضافہ ایک ساتھ کر لیتے ہیں۔ انہوں نے یوٹیلٹی بلز، پیٹرول لیوی اور سولر سسٹمز پر عائد ٹیکسز کو عوام دشمن قرار دیا اور کہا کہ یہ سب اقدامات غریب اور مڈل کلاس کو مزید پستی میں دھکیل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں گروتھ ریٹ 0.
حافظ نعیم الرحمٰن نے مطالبہ کیا کہ سود کی شرح آدھی کی جائے، ایف بی آر میں اصلاحات لائی جائیں اور اگر بجلی و گیس کی قیمتیں کم کرنی ہیں تو ان تمام مدات میں دیانت داری سے تبدیلی لانا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی عوامی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی اور عوام کو اس نظام کے خلاف متحد کرے گی جو صرف اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔
Post Views: 5ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی حافظ نعیم نے کہا کہ انہوں نے کیا کہ
پڑھیں:
چانگان نے اپنی تمام گاڑیوں کی قیمتیں بڑھا دیں، اطلاق یکم جولائی 2025 سے ہوگا
معروف چینی آٹو کمپنی چانگان نے پاکستان میں اپنی تمام گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کر دیا ہے, یہ نئی قیمتیں یکم جولائی 2025 سے نافذ العمل ہوں گی، اور اس فیصلے کا اطلاق کمپنی کے تمام ماڈلز پر ہوگا۔
قیمتوں میں یہ رد و بدل بجٹ 2025-26 میں کی گئی تبدیلیوں کے تناظر میں کیا گیا ہے، جس کے اثرات پاکستان کی مقامی آٹو انڈسٹری پر واضح نظر آ رہے ہیں۔
چانگان کی مشہور اسپورٹس یوٹیلیٹی وہیکل(ایس یو وی) اوشان ایکس7 کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے، 7 نشستوں والی کمفرٹ کی قیمت میں 1 لاکھ 75 ہزار روپے اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد نئی قیمت 84 لاکھ 74 ہزار روپے ہو گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہنڈائی کی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان، صارفین کس طرح متاثر ہوں گے؟
دوسری جانب 5 نشستوں والی ایف ایس5 کی قیمت اب 91 لاکھ 49 ہزار روپے ہو گئی ہے، جو پہلے سے 2 لاکھ روپے زائد ہے، اسی طرح 7 نشستو والی ایف ایس کی نئی قیمت بھی 2 لاکھ روپے اضافے کے ساتھ 92 لاکھ 99 ہزار روپے ہوگئی ہے۔
چھوٹی سیڈان گاڑی السوِن کے تمام ویریئنٹس کی قیمتوں میں 90 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک اضافہ کیا گیا ہے، ایم ٹی کمفرٹ اب 41 لاکھ 89 ہزار روپے میں دستیاب ہے، جو پہلے کے مقابلے میں 90 ہزار روپے مہنگی ہوئی۔
لومیئر اور لومیئر بلیک ایڈیشن دونوں کی قیمتوں میں 1 لاکھ روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور ان کی نئی قیمتیں بالترتیب 48 لاکھ 99 ہزار اور 49 لاکھ 99 ہزار روپے ہو گئی ہیں۔
مزید پڑھیں:
مسافر وین کاروان پاور پلس 1.2 کی قیمت میں 50 ہزار روپے اضافہ کیا گیا ہے، جس سے نئی قیمت 32 لاکھ 49 ہزار روپے ہو گئی ہے۔
اسی طرح چانگان شیرپا پاور 1.2 ماڈل کی قیمت میں 45 ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے، اور اب یہ 23 لاکھ 49 ہزار روپے میں دستیاب ہے۔
قیمتوں میں اضافے کی وجہحالیہ وفاقی بجٹ 2025-26 میں نئی توانائی گاڑیوں کو اپنانے کے حوالے سے ایک نیا ٹیکس متعارف کروایا گیا ہے، جسے این ای وی لیوی کہا جاتا ہے، اس ٹیکس کی شرح گاڑی کے انجن کی گنجائش پر منحصر ہے اور یہ 1 فیصد سے 3 فیصد کے درمیان ہے۔
اسی اضافی مالی بوجھ کو پورا کرنے کے لیے چانگان سمیت دیگر مقامی گاڑی ساز کمپنیوں کو قیمتوں میں رد و بدل کرنا پڑا ہے، بعض کمپنیوں نے جزوی طور پر قیمتوں میں اضافہ کو برداشت کیا، مگر بیشتر برانڈز نے اس بوجھ کا کچھ نہ کچھ حصہ صارفین پر منتقل کر دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں