دہشتگردی کی ذمہ داری اداروں پر ڈالنا غلط بات ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں ہمارے جتنے فوجی جوان شہید ہوئے وہ سب کو معلوم ہے، دہشتگردی کی ذمہ داری اداروں پر ڈالنا غلط بات ہے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے وفاقی حکومت اور اداروں پر تنقید کی ہے، جس کا انہیں ضرور جواب دیا جائےگا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں ملوث، فوجی ترجمان نے ثبوت پیش کردیے
انہوں نے کہاکہ علی امین کے لیڈر نے دہشتگردوں کو خیبرپختونخوا میں لا کر بسایا، اس وقت صوبے کے مختلف علاقوں میں دیکھ لیں کہ کیا ہورہا ہے۔
وزیر دفاع نے کہاکہ پی ٹی آئی کے لوگ بھی علی امین اور ان کی قیادت پر تنقید کررہے ہیں، اور ان پر دو نمبری کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہاکہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں، اور سفارتخانہ موجود ہے، افغان حکومت کو ماننے کے معاملے پر ہم اپنا قومی مفاد دیکھیں گے۔
انہوں نے کہاکہ افغانستان میں جنگ ختم ہونے کے بعد اب امن ہو چکا ہے، ہمیں پاکستان میں موجود افغان شہریوں کو ڈی پورٹ کر دینا چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ ملک میں ہونے والے غیرقانونی کاروبار میں افغان شہری ملوث ہیں، انہوں نے ہماری ٹرانسپورٹ پر قبضہ کیا ہوا ہے، جبکہ غیرقانونی کالونیاں بھی بنا رکھی ہیں۔
وزیر دفاع نے کہاکہ اقوام متحدہ اور نیٹو اب تک افغان شہریوں کو نہیں لے کر گئے، جو اس انتظار میں اب تک پاکستان میں موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فوج کے خلاف ڈیجیٹل دہشتگردی کے پیچھے فیض حمید کا ہاتھ ہوسکتا ہے، رانا ثنااللہ
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ جیسے ہمارا بھارت اور ایران کے ساتھ بارڈر ہے ایسے ہی افغانستان کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews ادارے افغان جنگ خواجہ آصف خیبرپختونخوا دہشتگردی علی امین گنڈاپور وزیر دفاع وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان جنگ خواجہ ا صف خیبرپختونخوا دہشتگردی علی امین گنڈاپور وزیر دفاع وی نیوز انہوں نے کہاکہ خواجہ ا صف وزیر دفاع علی امین
پڑھیں:
کابل کی نیت واضح، افغان سرزمین کے استعمال پر پاکستان فوراً جوابی کارروائی کرے گا،وزیردفاع
اسلام آباد (طارق محمود سمیر) وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نےکہا کہ استنبول مذاکرات کے معاملے کل شام تک مکمل ہوئے اور ثالثوں کو بھی کابل کی اصل نیت واضح ہو گئی ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ کابل کی نیت میں فتور اور تضادات نمایاں ہیں اور اس صورتحال پر اب دعا کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔
وزیر دفاع نے تشویش ظاہر کی کہ طالبان افغانستان کو ماضی کی طرف دھکیل رہے ہیں اور کہا کہ طالبان ایک روایتی ریاست کی تعریف پر پورا نہیں اترتے؛ ان کے بقول طالبان ریاستی تشخص کو سمجھنے یا اپنانے کے قابل نہیں ہیں اور وہ بنیادی طور پر قتل و غارت اور مالی مفاد کے لیے حرکت میں ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ کابل حکومت میں ایسا مؤثر عنصر موجود نہیں جو ریاستی ذمہ داریوں کو واضح طور پر نبھا سکے۔
افغان سرزمین کے استعمال سے متعلق وزيرِ دفاع نے واضح انتباہ جاری کیا کہ اگر افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوئی تو اس کا جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی صورت میں پاکستان کارروائی کرنے سے گریز نہیں کرے گا اور اگر ضرورت پڑی تو افغانستان کی اندرونی حدود میں بھی مؤثر جواب دیا جائے گا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اگر کابل مزاحمت کا راستہ اپناتا ہے تو اسے اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
میڈیا سے گفتگو میں وزیرِ دفاع نے کہا کہ پاکستان کی شرط واضح ہے: افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے اور اس پر پاکستان اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان رجیم کو دہشت گرد عناصر، بالخصوص ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی پشت پناہی فوراً بند کر دینی چاہیے ورنہ دو ہمسایہ ممالک کے تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔ خواجہ آصف نے ثالثوں کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ثالث ہمارے مفادات کا خیال رکھیں گے مگر عملی یقین دہانی ناگزیر ہے۔
خواجہ آصف نے خیبرپختونخوا حکومت کی سیاسی صورتحال پر بھی تبصرہ کیا اور کہا کہ صوبائی حکومت آہستہ آہستہ تنہائی کا شکار ہو رہی ہے۔ انہوں نے سابق فاٹا کے لوگوں کے صادقانہ رویے کو سراہا اور کہا کہ وفاقی حکومت مخلص ہے جبکہ بعض سیاسی حلقے محض سیاسی مفادات کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ وزیر دفاع نے واضح کیا کہ ملک نیازی یا ذاتی مفادات کے تحت نہیں چلتا اور ریاست اس مٹی کے مفادات کا تحفظ کرے گی۔
فلسطین کے حوالے سے سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ اگر بین الاقوامی سطح پر امن برقرار رکھنے کے لیے کہیں افواج بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو یہ پاکستان کے لیے اعزاز ہوگا، کیونکہ دنیا میں امن کے قیام میں پاکستان کی نمایاں پوزیشن رہی ہے۔
وزیرِ دفاع نے اعتراف کیا کہ چالیس برس تک افغانستان کی میزبانی کے دوران بعض غلط فیصلے بھی کیے گئے جن کے منفی معاشی اور سکیورٹی اثرات مرتب ہوئے؛ انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں پشت پناہی کے نتیجے میں بعض عناصر بڑے ٹھیکیدار بن گئے، اور یہ ہمارا بھی نقصان رہا۔ تاہم ان کا مؤقف تھا کہ قابلِ عمل یقین دہانی نہ ملنے کی صورت میں پاکستان کو اپنے دفاع کے آپشنز کو استعمال کرنا آتا ہے اور وہ اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔